اس عہد کا عظیم باغی دانشور، جدید انگریزی لسانیات کا بانی، نوم چومسکی 7 دسمبر 2019ء کو پورے نوے برس کا ہوگیا۔ یونیورسٹی آف ایرا زونا میں باغی دانشور نے سالگرہ کا کیک کاٹا۔امریکہ میں غیر سرکاری طور پر 7دسمبر کو نوم چومسکی ڈے کہا جاتا ہے۔ اس روز نوم چومسکی کے چاہنے والے ایک دوسرے کو ہیپی کرسمس کی طرح ہیپی نوم چومسکی ڈے کہہ کر مبارک دیتے ہیں اور اس خوشی کا اظہار کرتے کہ وہ اس صدی کے سب سے بڑے دانشور کے عہد میں زندہ ہیں۔ اس میں کیا شبہ کہ جو بھی نوم چومسکی کے نظریات، خیالات اور کام سے واقف ہے اس دائرے میں آ جاتا ہے جسے نوم چومسکی کے چاہنے والوں کا حلقہ کہا جاتا ہے۔ میں خود بھی اس عظیم دانشور کے پرستاروں میں شامل ہوں۔ میرے نزدیک نوم چومسکی کے خیالات، نظریات کو جاننا، ان کی کتابوں کو پڑھنا کسی Privilege سے کم نہیں۔ یہ جھوٹ کی اس بھیڑ میں سچ کو تلاشنے اور سچ تک پہنچنے کا ایک عمل ہے۔ سچ بات یہ ہے کہ جیسے آپ کسی اچھے شعر کو پڑھ کر بس دیر تک اس کیفیت کو محسوس کرتے ہیں۔ کسی اچھی تحریر کو پڑھ کر اس کے سحر میں کچھ دیر مبتلا رہتے ہیں، بالکل ایسے ہی نوم چومسکی کو پڑھتے ہوئے آپ اس کی تحریر کی سچائی، نظریات اور خیالات کی گہرائی کے سحر میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ہر وہ شخص جو اس دنیا کے بارے میں سوچتا ہے اس سماج کے حوالے سے سوال اٹھاتا ہے اور خصوصاً آج کی دنیا میں طاقت اور مافیا کے گٹھ جوڑ کو سمجھنا چاہتا ہے اسے چومسکی کو ضرور پڑھنا چاہیے۔ چومسکی سے میرا پہلا تعارف تو ایک بابائے لسانیات کے حوالے سے ہوا۔ ایم اے انگریزی میں لنگوسٹکس کے نام سے بھی ایک کتاب نصاب کا حصہ تھی۔ چومسکی کے نام کو تاریخ میں زندہ رکھنے کے لیے اس کا یہی کام بہت تھا کہ اس نے جدید انگریزی لسانیات کی بنیاد رکھی اور زبان اور گرائمر سیکھنے کے حوالے سے جو نظریات پہلے موجود تھے انہیں اڑا کر رکھ دیا۔ 1957ء میں جب چومسکی MIT میں لسانیات کا ایک نوجوان پروفیسر تھا اس نے سائنسدان کی طرح زبان پر تحقیقاتی کام کرنا شروع کردیا۔ پھر 1957ء میں Syntactic Structure کے نام سے چومسکی کی پہلی تصنیف منظر عام پر آئی اور لسانیات میں ایک انقلاب برپا کردیا۔ یونیورسٹی گرائمر، ٹرانسفارمیشنل گرائمر اور Congnitive Science جیسے موضوعات پر چومسکی کے کام نے جدید انگریزی لسانیات کی بنیاد رکھی جسے آج Linguistics کہا جاتا ہے۔ 2015ء میں میں نے اوپن یونیورسٹی کے ایک کورس میں داخلہ لیا۔ اس مضمون کو تفصیل سے پڑھا اور سمجھا لسانیات پر چومسکی کا کام حیران کر دینے والا ہے۔ لیکن اس وقت تک میں میں اس نابغہ روزگار شخصیت کے کئی اور متاثر کن زاویوں سے متعارف ہو چکی تھی اور اس کے نظریات سے بڑی طرح متاثر تھی۔ عام دنیا نوم چومسکی کو بابائے لسانیات سے زیادہ ایک ایسے نڈر اور باغی پولیٹیکل تھنکر اور انٹیلکچوئل کے حوالے سے جانتی ہے جو امریکن شہری ہو کر امریکہ کی استعماریت پرسوال اٹھاتا ہے۔ نوم چومسکی امریکہ کو دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد قرار دیتا ہے۔ یہ 90 سالہ دانشور ہر دور میں امریکی اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرتا رہا۔ سوال اٹھاتا رہا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ "I consider it immoral to be a supporter of power system. لسانیات کا یہ سائنسدان کیسے اس عہد کا سب سے جانا پہچانا۔ ریڈیکل پبلک تھنکر بنا۔ جسے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے نیویارک ٹائمز نے لکھا: "Noam Chomsky is one of the superstars of intellectual world! ایک اور سروے کے مطابق وہ دنیا کا سب سے زیادہ quot ہونے والا دانشور ہے۔ ویت نام میں امریکی جنگ اور اس ظلم کے نتیجے میں پیدا ہونے والے انسانی المیے نے لسانیات کے پروفیسر کا رجحان اس طرف کیا۔ 1960ء میں نوم چومسکی ایک دانشور کی حیثیت سے اینٹی ویت نام وار کی تحریک کا حصہ بنا۔ پہلے تو جنگ کے خلاف آواز اٹھا کر مگر بعد میں عملی طور پر مزاحمتی تحریکوں اور احتجاجی ریلیوں میں شرکت کی اور امریکی اسٹیبلشمنٹ کے فیصلوں کو للکارنے کی پاداش میں جیل بھی کاٹی۔ نوم چومسکی کے منہ سے نکلا ہوا یہ جملہ آج بھی لوگوں کو نہیں بھولا کہ ’’میں جب بھی واشنگٹن آتا ہوں مجھے یہاں آنسو گیس کی بو آنے لگتی ہے۔‘‘ 1967ء میں امریکی استعماریت کا پردہ چاک کرتی ہوئی چومسکی کی پولیٹیکل تھنکر کی حیثیت سے پہلی کتاب منظر عام پر آئی اور اس کے بعد باغی نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ امریکی استعماریت، کارپوریٹ مافیا، میڈیا مافیا، ماحولیات، مڈل ایسٹ تنازع اور کمزور ملکوں پر مسلط امریکی جنگیں، نوم چومسکی کے خاص موضوعات ہیں۔ نوم چومسکی کی سو سے زیادہ کتابیں چھپ چکی ہیں۔ یہ 90 سالہ دانشور مسلسل کام کرنے پر یقین رکھتا ہے۔ آج بھی وہ MIT میں ماڈرن لینگوئج اینڈ لنگوسٹکس ڈیپارٹمنٹ میں خصوصی اعزاز اور درجے کے پروفیسر ہیں۔ دنیا بھر میں سفر کرتے ہیں۔ لیکچر دیتے ہیں، انٹرویو دیتے ہیں اور آئے دن امریکی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اپنے متنازعہ بیاانات سے خبروں کا حصہ بنے رہتے ہیں۔ امریکہ کے مین سٹریم میڈیا خصوصاً الیکٹرانک چینلز پر چومسکی جیسے نڈر اور سچے دانشور کے آنے پر پابندی ہوتی ہے اور یہ اس باغی پروفیسر کے لیے ایک اعزاز ہے۔ میڈیا پر آنے والی پہلی کتاب کا نام تھا: Menufacturing consent میڈیا کس طرح سے سچائی کو چھپا کر اپنے مطب اور مفاد کے سچ کو لوگوں کے ذہنوں میں انڈیلتا ہے۔ چومسکی اس کو بڑی بے باکی سے بے نقاب کرتا ہے۔ اس وقت نوم چومسکی دنیا بھر میں روایتی ماس میڈیا کا سب سے بڑا ناقد ہے۔ اس عمر میں جب قویٰ مضمحل ہو جاتے ہیں اور عناصر میں بے ترتیبی آ جاتی ہے۔ زندگی رکنے اور سستانے لگتی ہیں۔ یہ نوے سالہ باغی دانشور مگر آج بھی پوری قوت سے استعماریت کی ہر شکل کو للکار رہا ہے۔ وہ جھوٹ کی بھیڑمیں سچ کا چہرہ ہے۔ آنے والی نسلوں کے لیے چومسکی ایک داستانوی کردار ہوگا۔ ہم خوش قسمت ہیں نوم چومسکی کے عہد میں جی رہے ہیں۔