معزز قارئین! ۔ اپنی جماعت ’’پاکستان تحریک انصاف ‘‘ کو مقبول بنانے کے لئے جب، چیئرمین عمران خان نے شروع شروع میں عوام کومسلسل ’’نیا پاکستان ‘‘ بنانے کی خُوش خبر (Good News) دینے کا پروگرام شروع کِیا تو، مَیں اکثر سوچتا تھا کہ ’’ 16 دسمبر 1971ء کو قائداعظم محمد علی جناحؒ کے پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد ، 20 دسمبر 1971ء کو چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی جنابِ ذوالفقار علی بھٹو نے جب( دُنیا کے پہلے) سِولین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدرِ پاکستان کی حیثیت سے اقتدار سنبھالا تو اُنہوں نے ’’ بچے کھچے پاکستان‘‘ کو ’’ نیا پاکستان‘‘ کا نام دِیا تھا۔ بھٹو صاحب کے بعد کئی فوجی اور منتخب حکمران آئے لیکن، وہ سب ’’ بچے کھچے پاکستان‘‘ کو پاکستان ہی کہتے رہے۔ سوال یہ ہے کہ’’ ہمارے پاس جنرل یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے طفیل ’’ نیا پاکستان‘‘ (New Pakistan) تو، موجود تھا۔ تو پھر وزیراعظم کی حیثیت سے جناب عمران خان پہلے سے موجود ’’نیاپاکستان ‘‘ (New Pakistan/پنجابی میں نواںؔ پاکستان کو ) ’’تجدیدی پاکستان ‘‘(Renewed Pakistan/ نواں نواؔں پاکستان) کا نام کیوں نہیں دیتے؟۔ یہی وجہ ہے کہ ’’ نواسۂ ذوالفقار علی بھٹو‘‘ اور پسرِ آصف علی زرداری بلاول بھٹو زرداری کو،18 نومبر کو ، وزیراعظم عمران خان کے ’’ نیا پاکستان‘‘ کے تصور کا مذاق اُڑانے کا موقع مِلا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے نام سے اُن کے نانا مرحوم جنابِ بھٹو کی یادگار انتخابی نشان تلوار ؔ (Sword) والی پاکستان پیپلز پارٹی (پی۔ پی۔ پی) تو رجسٹرڈ تھی لیکن، اُن کے بابا سائیں نے اپنے فرزندکو منع کردِیا تھا کہ ’’انتخابات میں صرف مخدوم امین فہیم کی یادگار (میری صدارت میں) ’’پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز ‘‘ (پی۔پی۔پی۔ پی) ہی حصہ لے گی۔ معزز قارئین!۔ کیوں نہ صدر جنرل محمد یحییٰ خان کے دَور میں 1970ء کے عام انتخابات کے بعد جنابِ ذوالفقار علی بھٹو کی ’’ نیا پاکستان‘‘ بنانے کی جدوجہد کا مختصر تذکرہ کردِیاجائے؟۔ 7 دسمبر 1970ء کے انتخابی نتائج کے مطابق مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب اُلرحمن کی عوامی لیگ کو قومی اسمبلی میں 151 نشستیں حاصل ہوئی تھیں اورجناب ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی کو 81 ۔ یعنی قومی اسمبلی میں سب سے بڑی پارٹی عوامی لیگ تھی اور دوسری بڑی پارٹی ’’پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ جسے حکومت کی تشکیل کے بعد حزبِ اختلاف کا کردار ادا کرنا تھا ۔ ’’متحدہ پاکستان ‘‘ کی تاریخ میں جنابِ بھٹو پہلے سیاستدان تھے جنہوں نے قومی اسمبلی میں دوسری بڑی پارٹی کو بھی اقتدار میں شامل کرنے کا مطالبہ کِیا، جس پر متوقع وزیراعظم شیخ مجیب اُلرحمن اور اُن کی پارٹی نے احتجاج شروع کردِیا ۔ جنرل محمد یحییٰ خان شیخ مجیب اُلرحمن کو وزیراعظم بنانے کا وعدہ / اعلان بھی کر چکے تھے لیکن، بھٹو صاحب کو یہ صورتحال قابل قبول نہیں تھی۔ 14 مارچ 1971ء کو نشتر پارک کراچی میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہُوئے جنابِ بھٹو نے کہا تھا کہ ’’ قومی اسمبلی میں اکثریتی پارٹی عوامی لیگ کو اقتدار منتقل کرنے کے بجائے مشرقی اور مغربی پاکستان کی اکثریتی پارٹیوں کو اقتدار منتقل کِیا جائے ؟ ۔ اُنہوں نے کہا تھا کہ ’’ اگر عوامی لیگ کو مشرقی پاکستان میںاکثریت حاصل ہے تو، ’’ پاکستان پیپلزپارٹی ‘‘ کو یہاں ( مغربی پاکستان) میں اکثریت حاصل ہے‘‘۔ اُس پر جنابِ بھٹو کے حوالے سے لاہور کے روزنامہ ’’ آزاد‘‘ کی شہ سُرخی تھی کہ ’’ اُدھر تم اِدھر ہم ‘‘۔ جنرل محمد یحییٰ خان گھبرا گئے۔ اُنہوں نے پورے ملک میں سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگا دِی ۔ عوامی لیگ کو خلافِ قانون قرار دے دِیا گیا اور پاکستان کی مسلح افواج کو حکم دے دِیا کہ ’’وہ مشرقی پاکستان میں حکومت کا حکم بحال کریں ‘‘۔ 22 نومبر 1971ء کو بھارت کی پیدل اور بکتر بند فوج نے بین الاقوامی آداب کو پامال کرتے ہُوئے مشرقی پاکستان پر بھرپور حملہ کردِیا۔ 23 نومبر کو صدر جنرل یحییٰ خان نے ملک بھر میں ہنگامی حالات کا اعلان کردِیا۔ 4 دسمبرکو صدر جنرل یحییٰ نے مسلح افواج اور پاکستانی عوام سے خطاب کرتے ہُوئے کہا کہ ’’ وہ آگے بڑھیں اور مکار دشمن پر اللہ اُکبر کی ضربِ کاری لگائیں۔ 10 دسمبر کو جنرل یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان سے مسلم لیگ کے ایک رہنما جناب نور اُلامین کو وزیراعظم اور ’’فخر ایشیا ‘‘ اور ’’ قائد عوام ‘‘ کہلانے والے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ ‘‘ نامزد کردِیا تھا ۔ وزیر خارجہ کی حیثیت سے ذوالفقار علی بھٹو نے عوامی جمہوریہ چین کا دورہ کِیا اور واپسی پر اعلان کِیا کہ ’’ اب ’’دما دَم مست قلندر‘‘ ہوگا۔ سیاسی مبصرین اور میڈیا کے بڑے چھوٹوں میں یہی گفتگو ہو رہی تھی کہ ’’ امریکہ کا ساتواں بحری بیڑا مشرقی پاکستان کو بچا لے گایا شاید عوامی جمہوریہ چین مشرقی پاکستان کو بچانے کے لئے بھارت کے خلاف کوئی بہت بڑا قدم اُٹھانے والا ہے ‘‘ لیکن ، جب 16 دسمبر 1971ء کو پاکستان کے لیفٹیننٹ جنرل مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر زون بی اور کمانڈر ایسٹرن کمانڈ پاکستان ، امیر عبداللہ خان نیازی نے بھارت کے لیفٹیننٹ جنرل آفیسر کمانڈنگ انچیف افواج ہندوستان سردار جگجیت اروڑہ کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے تو پتہ چلا کہ ’’ مصّور پاکستان علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کا پاکستان دولخت ہوگیا‘‘۔ 20 دسمبر 1971ء کو صدر جنرل محمد یحییٰ خان اپنے عہدے سے مستعقی ہو گئے اور ذوالفقار علی بھٹو نے اُن کی جگہ سولین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹر اور صدرِ پاکستان کا منصب سنبھال لِیا۔ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نے ’’ نیا پاکستان‘‘ کے چاروں صوبوں میں جو ، گورنر ز مقرر کئے وہ اپنے اپنے صوبے کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھے ۔ اُن کے دَور میں سیاسی مخالفین سے کِس طرح کا سلوک کِیا وہ، ایک الگ بات ہے ؟۔ صدر چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو نے 21 اپریل 1972 ء کو مارشل لاء ختم کر کے ملک میںہنگامی حالات کا اعلان کردِیا۔ صدر جنرل یحییٰ خان کے دَور میں عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ مجیب اُلرحمن کو گرفتار کر کے لاہور کے شاہی قلعے میں قید کرلِیا گیا۔ تین جون 1972ء کو صدر پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے نشتر پارک کراچی میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہُوئے حاضرین / سامعین سے شیخ مجیب اُلرحمن کی رہائی کی اجازت طلب کی تو، اُنہوں نے اجازت دے دِی۔ پھر شیخ مجیب اُلرحمن اور اُن کے ایک ساتھی ڈاکٹر کمال حسین کو رہا کر کے براستہ لندن ڈھاکا روانہ کردِیا گیا۔ روانگی سے قبل شیخ مجیب اُلرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو کے مابین ڈاکٹر کمال حسین اور ملک غلام مصطفی کھر کی موجودگی میں چار گھنٹے تک بات چیت ہُوئی (کیا بات چیت ہُوئی ؟ ) لندن پہنچ کر شیخ مجیب اُلرحمن نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہُوئے اعلان کردِیا تھا کہ ’’اب ہم پاکستان کے ساتھ نہیں رہ سکتے‘‘ لیکن، بنگلہ دیش تو بن چکا تھا ۔ معزز قارئین!۔ صدر ، چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو ، پھر اُن کی بیٹی وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور داماد صدر آصف علی زرداری کے دَور میں بھی عوام کو روٹی ، کپڑا اور مکان مہیا کرنے کا وعدہ پورا نہیں کِیا جاسکا۔ حکومت پاکستان پیپلز پارٹی ( پی۔ پی۔ پی) کی رہی اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز (پی۔ پی۔ پی۔ پی) کی بھی۔ لیکن، مفلوک اُلحال عوام کو جنابِ بھٹو اور اُن کے سیاسی جانشینوں کا ’’ نیا پاکستان‘‘ مفلوک اُلحال عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان نہیں دے سکا۔ ہر دَور میں ایوانِ صدر اور وزیراعظم ہائوس کی طرف منہ کر کے لوگ یہی کہا کرتے تھے کہ … روٹی، کپڑا بھی دے ، مکان بھی دے ! اور مجھے جان کی امان بھی دے ! …O… مَیں کئی بار عرض کر چکا ہُوں کہ ’’ پاکستان کے بھوکے، ننگے عوام سے کئے گئے وعدے نہ پورے کرنے پر جنابِ بھٹو ، اُن کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو اور دونوں بیٹے ، شاہنواز بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو غیر فطری موت کا شکار ہُوئے۔ تین بار منتخب ہونے والے وزیراعظم نواز شریف اور اُن کے خاندان کے قریبی اور دور دراز کے رشتہ داروں کے ساتھ خُدا کی بے آواز لاٹھی کیا سلوک کررہی ہے وہ بھی چشم فلک دیکھ رہی ہے ۔ اب تو،غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے پاکستان کے 60 فی صد عوام کی ضرورت ہے ’’ نیا پاکستان/ نواں پاکستان‘‘ (کے بجائے) ’’ نواں نواں پاکستان‘‘ یا ’’نواں نکور پاکستان ‘‘ ۔