اسلام آباد(خبر نگار)سپریم کورٹ نے ا لعزیزیہ سٹیل ملز میں سزایا فتہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی ضمانت میں توسیع اور بیرون ملک علاج کی غرض سے جانے کی اجا زت دینے کی نظرثانی درخواست مسترد کرتے ہوئے آبزرویشن دی ہے کہ درخواست گزار کے طرز عمل (کنڈکٹ) سے ظاہر ہوتاہے کہ ان کی زندگی کو کوئی خطرہ نہیں صرف خدشات ہیں۔چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس یحییٰآفریدی پر مشتمل3رکنی بینچ نے نواز شریفکی نظر ثانی درخواست پر سماعت کی ۔ چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے ریما رکس دیئے کہ ہم نے درخواست گزار کی زندگی کو لاحق خدشات کی وجہ سے انہیں علاج کیلئے 6 ہفتوں کاپورا پیکیج دیا تھا لیکن اس دوران انھوں نے علاج نہیں کرایا بلکہ 6 ہفتے صرف ٹیسٹ کراتے رہے ۔فاضل چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ5میڈیکل بورڈز اور 31ڈاکٹروں نے فوری انجیو گرافی کی سفارش کی تھی جس سے یہ تااثر ابھرا کہ درخواست گزار کی زندگی کو فوری خطرہ لاحق ہے اسلئے ہم نے علاج کیلئے انھیں ضمانت پر رہا کردیا لیکن اس دوران ان کی انجیو گرافی نہیں ہوئی۔چیف جسٹس نے کہا کہ ضمانت میں توسیع کیلئے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کی آبزرویشن تحریری آرڈر میں اسلئے شامل نہیں کیا کیونکہ ہم نہیں چاہتے تھے کہ مستقبل کے ممکنات پر کوئی فیصلہ دیں۔چیف جسٹس نے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مزید داد رسی کیلئے قانون کے مطابق راستے موجود ہیں،بطور وکیل اپنے موکل کو مشورہ دینا آپ کاکام ہے ہم کوئی تجویزنہیں دیں گے لیکن اگر بعد میں پیدا ہونے والے حالات کی وجہ سے فیصلوں پر نظر ثانی ہو تو پھریہ سلسلہ کبھی ختم ہی نہیں ہوگا ،جس مقصدکیلئے ضمانت دی گئی ہو اگر وہ پورا نہ ہو تو ضمانت واپس بھی لی جاسکتی ہے ۔دوران سماعت چیف جسٹس نے نواز شریف کی ضمانت کے فیصلے پر ہونے والی تنقید پر بھی ناگواری کا اظہار کیا اور کہا کہ بدنیتی سے عدالتوں کو بدنام کیا جاتا ہے ،سزا یافتہ ملزمان کو ضمانت پر رہا کرنا کوئی انہونی نہیں ،سینکڑوں فیصلے موجود ہیں جن میں سزا یافتہ ملزن کو ضمانت پر رہا کیا گیا۔ خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت کے فیصلے کے مطابق6 ہفتے بعد ان کے موکل نے جیل جانا ہے جبکہ مزید ضمانت کیلئے ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کا زبانی آرڈر تحریری آرڈر میں شامل ہی نہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ جب تک فیصلے پر دستخط نہ ہوں اس میں تبدیلی کی جاسکتی ہے ،لیکن پھر بھی ہم ہر عذر سننے کیلئے تیار ہیں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ ضمانت کے بعد ان کے موکل کی صحت مزید بگڑ گئی ہے ،ایک شریان 60فیصد اور دوسرا 50 فیصدسکڑ گیا ہے ،دماغ کی رگوں میں خون جم گیا ہے ،ان کے والد میاں شریف کی موت بھی اس سے واقع ہوئی تھی۔خواجہ حارث نے کہا کہ ملک میں کارڈیک ایم آر آئی کی سہولت موجود نہیں اور میڈیکل بورڈ نے کارڈیک ایم آر آئی کی تجویز دی ہے ۔خواجہ حارث نے اپنے دلائل کے حق میں غیر ملکی ماہرین طب کی رپورٹس کا حوالہ دیا تو چیف جسٹس نے کہا کہ اس سے آپ کیلئے مسائل پیدا ہو نگے کیونکہ یہ کسی ڈاکٹر عدنان کے خط کے جواب میں غیر ملکی ڈاکٹروں کے لکھے گئے خطوط ہیں ۔وکیل نے کہا کہ ڈاکٹر عدنان کا بیان حلفی موجود ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ غیر ملکی ڈاکٹر نے تو یہ لکھا ہے کہ اگر مریض کو اپنے ڈاکٹر پر اعتماد ہے توا س سے علاج کرائے ۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ جب میڈیکل بورڈ کی رپورٹ موجود ہے تو انفرادی رائے کی کوئی حیثیت نہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ میڈیکل بورڈ کی رپورٹ میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا گیاہے کہ علاج پاکستان میں نہیں ہوسکتا ۔چیف جسٹس نے وکیل سے استفسار کیا کہ کوئی مثال موجود ہے کہ ایک سزا یافتہ ملزم کو ملک کی حدود سے باہر بھیجا گیاہو،علاج تو جیل میں بھی ہوسکتا ہے ۔