وفاقی کابینہ نے مسلم لیگ ن کے بیمار قائد میاں نواز شریف کو بیرون ملک علاج کی مشروط اجازت دیدی ہے۔ مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ سابق وزیر اعظم کو انسانی ہمدردی کی بنا پر مخصوص وقت کے لئے باہر جانے کی اجازت دی گئی تاہم انہیں اس رعایت سے فائدہ اٹھانے کے لئے عدالت کی طرف سے سزا کے ساتھ عائد جرمانے کی رقم کے برابر شورٹی بانڈ جمع کرانا ہوں گے۔ سردست مسلم لیگ ن کی طرف سے حکومتی شرط نہ ماننے کا عندیہ دیا گیا جس پر بات چیت تادم تحریر جاری ہے۔ کچھ چیزیں پاکستان میں پہلی بار قانونی انداز سے طے ہو رہی ہیں۔ میاں نواز شریف العزیزیہ کیس میں سزا یافتہ ہیں۔ بیماری کی وجہ سے معزز عدالت انہیں قبل ازیں مرضی کے ہسپتال اور ڈاکٹر سے علاج کے لئے چھ ہفتے کی رخصت دے چکی تھی۔ اس دوران میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی جاتی امرا کی رہائش گاہ پر رہے۔ ان کے ذاتی معالجین ان کی نگہداشت کرتے رہے۔ حالیہ دنوں میاں نواز شریف کے خون میں پلیٹ لیٹس کی تعداد یکایک کم ہونے کی رپورٹس آنے لگیں۔ حکومت نے انہیں جیل سے سروسز ہسپتال منتقل کیا۔ میاں نواز شریف کی تیمار داری کا اگرچہ سرکاری و غیر سرکاری تمام انتظام تھا مگر ان کی صاحبزادی کو جیل سے ان کے ساتھ والے کمرے میں منتقل کر دیا گیا۔ حکومت نے ہر وہ رعایت فراہم کی جو کسی سزا یافتہ قیدی کو انسانی ہمدردی کے نام پر دی جا سکتی تھی بلکہ بسا اوقات یہ تاثر بھی ملا کہ میاں نواز شریف کی سیاسی حیثیت کے باعث ان کی کچھ ایسی فرمائشیں بھی تسلیم کی جا رہی ہیں جنہیں ماننے کا جواز نہیں تھا۔ نواز شریف کے وکلاء نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ معزز عدالت نے انہیں علاج کے لئے جیل سے نکال کر پرائیویٹ علاج کرانے کی اجازت دیدی۔ عدالت نے قانون میں موجود گنجائش کے عین مطابق فیصلہ کیا۔ میاں نواز شریف کو جیل سے ذاتی رہائش گاہ پر منتقل ہوئے دو ہفتے ہو چکے ہیں۔ ان کی لمحہ بہ لمحہ تشویشناک ہوتی صحت تقاضا کرتی تھی کہ انہیں ہسپتال منتقل کیا جاتا مگر انہوں نے ذاتی رہائش گاہ پر طبی سہولیات حاصل کرنے کو ترجیح دی۔ جاتی امرا میں میاں نواز شریف کی عیادت کرنے والی سیاسی شخصیات اور ان کی جماعت کے کارکنوں کی آمدورفت یقینا ان کی صحت کے لئے بہتر نہیں۔ میاں نوازشریف کی جیل سے جاتی امرا منتقلی پر مسلم لیگ ن اور ان کے خاندان کی طرف سے جو ردعمل آیا اس میں سلمان شہباز کا وہ ٹویٹ اہم ہے جس میں انہوں نے اپنے والد شہباز شریف کو کریڈٹ دیا کہ وہ اپنے بھائی کو جیل سے نکال لانے میں کامیاب ہوئے۔ اس دوران مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کا بیان سامنے آیا کہ میاں شہباز شریف نواز شریف کے حوالے سے معاملات کو مینج کر رہے ہیں۔ یہ صورت حال ان لوگوں کے لئے بڑی مایوس کن تھی جو انسانی ہمدردی کے نام پر میاں نواز شریف کے لئے رعایت کے حق میں تھے۔ غالباً یہی سوچ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بھی کھل کر سامنے آئی جب وزیر اعظم نے وزراء سے نواز شریف کو بیرون ملک علاج کی خاطر بھیجنے کی اجازت پر رائے لی۔ اکثریت کی رائے ہے کہ نواز شریف کی صحت خراب ہے تو ان کے خاندان اور جماعت کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ حکومت کی سابق رعایتوں کا اعتراف کئے بغیر اس معاملے کو سیاسی انداز میں پیش کریں۔ پاکستان ایک ایسی ریاست رہی ہے جہاں طاقتور کو قانون سے ماورا سمجھا گیا۔ یہ روش اس قدر عام ہوئی کہ عوام کی بڑی تعداد اب بھی ریاستی وسائل کی لوٹ کھسوٹ کو جرم نہیں سمجھتی۔ جن لوگوں نے عوام کو لوٹا انہوں نے پسماندہ لوگوں کے ذہن میں ڈال دیا کہ احتساب کا حق صرف عوام کو ہے۔ ایسا ہے تو پھر پولیس اور عدالتیں کس مقصد سے ہیں۔ میاں نواز شریف کو اللہ صحت یاب کرے۔ انہوں نے اگر واقعی بیرون ملک علاج کے بعد پہلے کی طرح واپس آ جانا ہے تو پھر شورٹی بانڈ جمع کرانے میں تردد کیوں؟ ایسی رپورٹس سامنے آئی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ نواز شریف نے شورٹی بانڈ والی شرط قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔ یہ ضد ان کی بگڑتی صحت کے لئے اچھی نہیں۔ زندگی رہی تو سیاست ہوتی رہے گی۔ صحت جیسے معاملے پر سیاست کرنا ٹھیک نہیں۔ حکومت اگر میاں نواز شریف کے معاملے میں احتیاط سے کام لے رہی ہے تو اس کی ٹھوس وجوہات موجود ہیں۔ حسین حقانی‘ پرویز مشرف اور اسحق ڈار جیسی کتنی ہی شخصیات ہیں جو پاکستان کے اداروں کو مطلوب ہیں مگر انہیں واپس لانے میں مشکلات حائل ہیں۔ نواز شریف کے سمدھی اسحق ڈار‘ ان کے دوسرے داماد علی عمران ان کے دونوں بیٹے حسن اور حسین نواز سب کسی نہ کسی قانونی سقم اور کمزوری کے باعث بیرون ملک بیٹھے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کو جیل سے باہر علاج کی سہولت دی ہے مگر بیرون ملک جانے کا فیصلہ بہرحال حکومت کا اختیار ہے۔ اسی لئے ن لیگ کے نمائندے کابینہ کی ذیلی کمیٹی کے روبرو پیش ہو کر ان تفصیلات پر بات کرتے رہے ہیں جن کے ذریعے نواز شریف کو بیرون ملک بھیجنا ممکن ہو سکے۔ یہ پہلی بار ہے کہ حکومت اور ریاست ایک کھلا اور قانونی راستہ اپنانے میں دلچسپی لے رہی ہیں ورنہ قبل ازیں شریف خاندان راتوں رات خفیہ معاہدہ کر کے ایک بار جدہ جا چکا ہے۔ ہم سب کی خواہش ہے کہ پاکستان میں قانون کی عملداری ہو۔ انسانی ہمدردی کو قانونی دائرے میں رکھا جائے تو اس سے قانون پسندی کی ایک اعلیٰ مثال قائم ہو سکتی ہے۔