چلئے مڑ کر ایک نظر 2013ء کے انتخابات سے عین قبل کے ماحول پر ڈالتے ہیں اور کچھ سوالات کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سپریم کورٹ جوڈیشل ایکٹو ازم دکھا رہی تھی مگر سوال یہ ہے کہ اس جوڈیشل ایکٹوازم کا انتخابات سے کوئی تعلق تھا ؟ اس جوڈیشل ایکٹو ازم کا انتخابات سے کوئی لینا دینا نہیں تھا بلکہ مشرف کے قید کئے گئے ججز رہائی اور بحالی کے بعد سے مسلسل ایسے پرجوش سگنلز دے رہے تھے جیسے وہ اپنے خلاف کسی مزید ممکنہ اقدام کے خوف میں ہوں۔ چنانچہ ایک رات تو ایسی بھی آئی تھی جب دارالحکومت میں افواہ پھیل گئی کہ یوسف رضا گیلانی صدر زرداری کے اشارے پر کوئی اقدام اٹھانے جا رہے ہیں۔ اس روز سپریم کورٹ کے تمام ججز رات کو ہی سپریم کورٹ میں جا بیٹھے اور وہ صورتحال تب ٹلی جب وزیراعظم نے کسی اقدام کے امکان کو مسترد کردیا۔ اس دور میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا جس کے نتیجے میں وہ پانچ سال کے لئے نا اہل ہوگئے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یوسف رضا گیلانی پیپلز پارٹی کے قائد تھے جن کو راستے سے ہٹانا مقصود تھا ؟ نہیں ! یوسف رضا گیلانی پیپلز پارٹی کے اہم رہنما ضرور تھے لیکن وہ پارٹی کے قائد تھے اور نہ ہی پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک یوسف رضا گیلانی کا ووٹ بینک تھا۔ ان کا ووٹ بینک تو فقط ملتان کے اس حلقے تک محدود تھا جہاں سے وہ الیکشن لڑتے آئے تھے۔ خلاصہ یہ کہ وہ اپنی پارٹی کے عمران خان نہیں بلکہ شاہ محمود قریشی تھے۔ ان سے تو زیادہ اثر چوہدری نثار علی خان کا پنڈی ڈویژن میں ہے۔ لہٰذا نہ ان کے راستے سے ہٹنے پر پیپلز پارٹی کے ووٹ بینک پر کوئی فرق پڑنا تھا اور نہ ہی انہیں راستے سے ہٹانا سپریم کورٹ کو مطلوب تھا۔ اب سوال آجاتا ہے کہ کیا یوسف رضا گیلانی کے خلاف کوئی سالہا سال پرانا مقدمہ اچانک اٹھادیا گیا تھا ؟ کیا یوسف رضا گیلانی سے کسی اقامے کی باز پرس ہو رہی تھی ؟ کیا انہیں کسی احتساب کا سامنا تھا ؟ نہیں ! انہیں سپریم کورٹ نے سوئس حکام کو ایک خط لکھنے کا حکم دیا تھا اور وہ اس حکم کی تعمیل نہیں کر رہے تھے۔ اگر وہ اس حکم کی تعمیل کر دیتے تو سزا کی نوبت ہرگز نہ آتی۔ اس حکم کی تعمیل کے لئے سپریم کورٹ نے انہیں بار بار مہلت دی مگر انہیں توفیق نہ ہوئی۔ اب آجائیے اس وقت کے صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی جانب۔ کیا پیپلز پارٹی کی وہ حکومت اور پارٹی کے شریک سربراہ آصف علی زرداری کی مقبولیت نواز شریف کی موجودہ مقبولیت کا نصف چھوڑئے ایک تہائی بھی تھی ؟ نہیں ! وہ ملک کی کرپٹ ترین حکومت تھی جس کے کرپشن سکینڈلز کی میڈیا میں بھرمار تھی۔ حد تو یہ تھی کہ اس حکومت نے حج مشنز تک میں کرپشن کے ریکارڈز قائم کردیے تھے۔ اس دور کا ہر حج کرپشن کی نئی داستان لے کر آیا۔ چنانچہ اس حکومت کی غیر مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ انتخابات والے سال اس پورے کرہ ارض پر کوئی ایک بھی ایسا ادارہ نہ تھا جس نے یہ دعوی کیا ہو کہ پیپلز پارٹی 2013ء کا الیکشن بھی جیت جائے گی۔ پوری دنیا اس پارٹی کی بدترین شکست پر اتفاق کئے بیٹھی تھی۔ اس کی کار کردگی اتنی بری تھی کہ نون لیگ کی فقط پنجاب حکومت کی کارکردگی ہی اسے ناک آؤٹ کرنے کے لئے کافی تھی اور ہوا بھی ایسا ہی۔ یہی وجہ ہے کہ نہ آصف علی زرداری کو راستے سے ہٹایا جانا سپریم کورٹ یا کسی اور کو مطلوب تھا اور نہ ہی وہ ہٹائے گئے۔ صدر زرداری نے نواز دور میں اپنی مدت پوری کرکے ریٹائرمنٹ لی اور گارڈ آف آنر کے ساتھ رخصت ہوئے۔ اب آجائیے سب سے اہم سوال کی جانب۔ کیا اس وقت کی اسٹیبلیشمنٹ اور پیپلز پارٹی کی حکومت کے مابین کوئی کشمکش کی صورتحال نظر آتی تھی ؟ نہیں ! اس وقت کی اسٹیبلیشمنٹ اور حکومت کے مابین کوئی کشمکش نہ تھی البتہ اس وقت کی اپوزیشن اور اسٹیبلیشمنٹ کے مابین سخت تناؤ کی صورتحال تھی۔ قومی اسمبلی میں اس وقت کے قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان آئے روز ڈی جی آئی ایس آئی جنرل پاشا کے خلاف دھواں دھار تقریر کیا کرتے تھے۔ وجہ اس کی یہ تھی پی ٹی آئی کے غبارے میں ہوا بھری جا رہی تھی اور ہر طرف یہی چرچا تھا کہ ایسا نون لیگ کا راستہ روکنے کے لئے کیا جا رہا ہے۔ اس وقت کی اسٹیبلیشمنٹ جاتی ہوئی حکومت سے نہیں بلکہ آنے والی حکومت سے ایڈوانس میں لڑائی چھیڑ چکی تھی اور یہی لڑائی پورے تسلسل کے ساتھ آج بھی جاری ہے۔ گویا نون لیگ کو یہ امتیازی حیثیت حاصل ہے کہ جب اس کی حکومت ابھی قائم بھی نہ ہوئی تھی تو اس کے خلاف کھیل شروع ہوچکا تھا، حکومت قائم ہوئی تو کھیل تب بھی جاری رہا اور آج حکومت رخصت ہوچکی ہے مگر پھر بھی وہ نشانے پر ہے۔ کیوں ؟ اس لئے کہ وہی سوالات جو اس کالم میں پیپلز پارٹی کی 2008ء میں قائم ہونے والی حکومت، اس کے وزیر اعظم اور پیپلزپارٹی کے سربراہ کے حوالے سے اٹھائے گئے وہی نون لیگ، اس کی حکومت اور اس کے پارٹی قائد کے حوالے سے اٹھائے جائیں تو جوابات وہی نہیں ملتے بلکہ برعکس جوابات آتے ہیں۔ نواز حکومت کی مقبولیت کے حوالے سے بین الاقوامی ہی نہیں بلکہ مقامی اداروں کی بھی پیشنگوئی یہ ہے کہ یہ اب بھی مقبولیت میں سب سے آگے ہے۔ ملکی تاریخ کی سب سے بڑی لوٹا گاہ تحریک انصاف سے مایوسی کا ہی نتیجہ ہے کہ راتوں رات ’’جیپ‘‘ اہمیت اختیار کر گئی۔ یہ 2013ء کے الیکشن سے قبل ہی اس کے خوف کا شکار ہوچکے تھے۔ اس کے اقتدار میں بھی خوف کے اسیر رہے، پچھلے ایک سال سے عدالت کے کٹہرے میں وہ رہا اور خوف کا یہ شکار رہے، اب تو جیل میں بھی وہ رہے گا مگر نیندیں ان کی حرام رہیں گی !