عدالت عظمیٰ کی جانب سے نواز شریف کو سات سال قید اور جرمانے کی سزا سنانے والے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کے حوالے سے ویڈیو اسکینڈل کا فیصلہ سامنے آ چکا ہے فیصلے میں اس کے باوجود جج ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل پر تحقیقاتی کمیشن بنانے کی استدعا مسترد کر دی گئی ہے کہ کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے یہ ریمارکس بھی دیے تھے کہ جج ارشد ملک کے ’’مس کنڈکٹ‘‘ سے ہزاروں ججوں کے سر شرم سے جھک گئے ہیں، یہ ریمارکس بھی سامنے آئے کہ مریم نواز کی جانب سے مبینہ ویڈیو کی ریلیز کے بعد جج کی تردید اور بیان حلفی اسی کے خلاف فرد جرم ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭٭٭٭٭ ہمارے کئی’’جید‘‘ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے جمعہ کے روز سنائے جانے والے فیصلے سے نواز شریف کو مستقبل میں کوئی عدالتی ریلیف نہیں ملے گا اور وہ سزا پوری کرکے ہی جیل سے باہر نکل سکیں گے، لیکن میں اس فیصلے کو مختلف انداز میں دیکھ رہا ہوں، میرا وہم کہہ رہا ہے کہ نواز شریف کو ریلیف مل چکا، اور اس ریلیف کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی بین السطور میں دیکھا اور محسوس کیا جا سکتا ہے۔۔ ٭٭٭٭٭ ن لیگ اور مریم نواز کی خاموشی اعلان کر رہی ہے کہ وہ لوگ اگلی ’’سازش‘‘ کے تانے بانے بننے میں مصروف ہیں اور اچانک دوبارہ اسکرین پر’’ان‘‘ ہوں گے، کیونکہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں ان کے پاس مشاورت کے لئے وقت بھی، آپ کہیں گے کہ عدالت عظمی نے کیس کو صرف واپس اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھجوایا ہے اس کے سوا شاید اور کچھ بھی نہیں، لیکن میں اس سارے فیصلے کو ماضی اور مستقبل کے تناظر میں دیکھ رہا ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ تاریخ اس فیصلے کو اپنے کون سے خانے میں فٹ کرے گی؟ جج ارشد ملک نے ن لیگ کے خلاف بلیک میلنگ کے جو الزامات عاید کئے ہیں، ان الزامات کا نتارا کرنے کے لئے ایک جے آئی ٹی قائم کرنے کا مشورہ بھی دیا جا سکتا تھا، مریم نواز کے پاس ارشد ملک اور دوسرے ججوں کی جو آڈیو، ویڈیوز ہیں ان کی برآمدگی کے لئے اقدامات بھی تجویز کئے جا سکتے تھے، مریم نواز اور ن لیگ کو پابند کیا جانا چاہئیے تھا کہ وہ سارا مواد عدالت میں جمع کرائیں، ایف آئی اے نے ابھی تک مبینہ ویڈیو، آڈیوز کا فرانزک ٹیسٹ کیوں نہیں کرایا، قوم کو میڈیا کے ذریعے بتایا جاتا رہا کہ متعلقہ لوگ گرفتار کئے جا چکے ہیں، ریکارڈنگ کے آلات برآمد کر لئے گئے ہیں، اس کام کے لئے چھاپے پہ چھاپے مارے گئے لیکن ایف آئی اے والے عدالت میں اب تک کوئی ایک رپورٹ تک جمع نہ کرا سکے، کیا اس سُستی اور نا اہلی پر سپریم کورٹ کو کچھ نہیں کرنا اور کہنا چاہئیے تھا؟ ٭٭٭٭٭ اگرچہ میں فیصلے پر نکتہ چیں ہوں، لیکن میں قانون کا ماہر یا طالبعلم بھی تو نہیں ، میرے سارے خیالات غیر آئینی اور جذباتی بھی تو ہو سکتے ہیں، کم از کم دوران تحریر اپنے ایک سوال کا جواب تو ملا اور وہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ کسی جج کے کنڈیکٹ کو ازخود نہیں دیکھ سکتی، اگر یہی صحیح ہے تو پھر ایک سوال اٹھتا ہے کہ ان حالات میں عدالت عظمی نے جج کے کنڈیکٹ پر سماعت خود کیوں کی؟ ہمارے اداروں نے کبھی ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا، ہر دور میں ماضی کو دہرایا جاتا رہا ہے، ذوالفقار علی بھٹو کو متنازعہ مقدمہ قتل میں تختہ دار تک پہنچانے والا ایک جج نسیم حسن شاہ کھلے عام اعتراف کر لیتا ہے کہ اس نے بھٹو کو دباؤ کے تحت غلط سزا سنائی تھی۔ میں نے آج کے کالم کی ابتدائی سطور میں اپنی ذاتی رائے دی کہ میرے خیال میں،،،، نواز شریف کو ریلیف مل چکا ہے،،،،، یہ ایک شاعرانہ خیال ہے، حقیقت یہی ہے کہ ’’ہنوز دلی دور است‘‘ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نواز شریف کیس کے ری ٹرائل کا فیصلہ کر سکتی ہے، ماہرین قانون اس نکتے پر کہتے ہیں کہ اگر ری ٹرائل ہو بھی جائے تو نواز شریف کو ریلیف کا پھر بھی دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا کیونکہ شہادتیں تو اپنی جگہ جوں کی توں ہیں، ن لیگ اور شریف خاندان نے اس کیس میں جو مجرمانہ بلنڈر کئے، وہ اس بات کا ثبوت تھے کہ ان کے پاس دفاع کے لئے کچھ بھی نہیں، ہمارے دوست سینئر ایڈووکیٹ اور تجزیہ نگار اظہر صدیق تو اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ ری ٹرائیل کی صورت میں نواز شریف کی سزا سات سال سے بڑھ کر چودہ سال ہو سکتی ہے، سات سالہ سزا پر بہت سارے ماہرین قانون نے اس وقت بھی حیرت کا اظہار کیا تھا،،،،، سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ویڈیو ریکارڈ کرنے والے کو عدالت میں پیش کرنا ضروری ہے، لیکن اصل ملزم ناصر بٹ ملک سے فرار ہو چکا ہے، مریم نواز اب اس ویڈیو سے لا تعلقی اختیار کر چکی ہیں تو دوستو! لگ یہی رہا ہے کہ نواز شریف جہاں ہیں وہیں رہیں گے۔ ٭٭٭٭٭ اور اب ایک واقعہ اس دور کا جب مجھے کئی بے بنیاد مقدمات میں ملوث کرکے شاہی قلعہ میں کئی مہینوں سے رات دن ٹارچر کا نشانہ بنایا جا رہا تھا، ایک دن میں نے سوچا کہ کیوں نہ سارے نہ کردہ گناہوں کا اعتراف کر لیا جائے، کم از کم اس عقوبت خانے سے تو نجات مل جائے گی اور مجھے مقدمہ چلانے کے لئے جیل منتقل کر دیا جائے گا ، شاہی قلعہ کے عقوبت خانے کا انچارج تھا سابق ڈی آئی جی چوہدری سردار جو قیدیوں پر ٹارچر کے دوران کبھی نماز پڑھنا نہیں بھولتا تھا، اور بے گناہوں کو ٹارچر کرکے ضیاء الحق کا اسلام پھیلا رہا تھا،، عظمت نامی ایک حاضر سروس ایس پی بھی تشدد کے کئی گر جانتا تھا، جو بھی اس کی انوسٹی گیشن میں جاتا، لاشہ بن کر واپس سیل میں آتا، اس عقوبت خانے کے انتظامی امور جنرل رانی کے بہنوئی چوہدری بشیر کے ہاتھ میں تھے، ولی نامی ایک تیسرا تفتیشی افسر بھی تشدد کے بہت ہنر جانتا تھا، چھتر مارنے،مارشل لاء مخالفین کو تیز روشنی میں ساری رات کھڑا رکھنے، بیڑی ڈنڈا لگانے،برف کی سل پر لٹا کر تفتیش کرنے جیسے کئی ہتھکنڈے ڈی آئی جی خواجہ احمد علی کو بھی آتے تھے، جب میرے جیسے قیدی بے سدھ ہوجاتے تو انہیں 364 کے اقبالی یا اعترافی بیان کے لئے مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیاجاتا، مجھے فوجی حکومت نے جن نام نہاد الزامات پر چارج شیٹ کیا، ان کو قبول کرنا خود اپنے لئے سزائے موت تجویز کرنا تھا، شاہی قلعہ سے نجات کے فیصلے کے بعد میں ہتھکڑیوں میں مجسٹریٹ کے سامنے کھڑا تھا، بدن لاغر ہو چکا تھا، مجسٹریٹ کے چہرے پر بھی شاہی قلعے کے جلادوں جیسی شیطانیت تھی، اس نے مجھ سے سوال کیا،،،،،کیا تم اپنے جرائم قبول کرتے ہو؟ کون سے جرائم ؟؟؟ میں اعتراف جرائم کا جو فیصلہ کرکے آیا تھا، مجسٹریٹ کے سامنے پھر منحرف ہو گیا میرا جواب سن کر ضلع کچہری میں بیٹھے ہوئے مجسٹریٹ درجہ اول نے مجھے عدالت میں لانے والے شاہی قلعہ کے اہلکاروں سے کہا۔۔۔۔۔۔ اس کا دماغ ابھی ٹھیک نہیں ہوا،، جب اس کا دماغ اچھی طرح درست کر لو تو پھر لے آنا میرے پاس۔۔۔