اردو زبان کی ایک ضرب اُلمِثل کے مطابق ’’ جان ہے تو جہان ہے ، ’’ یعنی اگر رُوحِ زندگی ہے تو ، دُنیا کا سب کچھ ہے ۔ اُستاد شاعر میر تقی میر ؔنے نہ جانے اپنے کس پیارےؔ کو مخاطب کرتے ہُوئے کہا تھا کہ … مِیرعَمد اً بھی ، کوئی مرتا ہے؟ جان ؔ ہے تو، جہانؔ ہے پیارے! معزز قارئین!۔ موت برحق ہے ۔ ہر اِنسان کو ( ہر جاندار کو بھی ) ایک نہ ایک دِن مرنا ہوتا ہے لیکن، مرزا اسد اللہ خان غالبؔ نے شاید اپنے دَور کے مُغل (شاعر) بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو مُفت ؔمشورہ دِیا تھا … موت کا ، ایک دِن ، مُعّین ہے! نیند کیوں ؟ رات بھر نہیں آتی؟ عاشق رسول ؐ ، مصّور پاکستان ، علاّمہ اقبالؒ نے اپنی نظم ’’ایک حاجی ، مدینے کے راستے میں ‘‘ ۔ میں، جان کے خوف میں مُبتلا ایک اکیلے ( عازمِ حج ) کو مخاطب کرتے ہُوئے کہا تھا کہ … گو سلامت ، محمل ِشامی کی ہمراہی میں ہے! عِشق کی لذّت مگر ، خطروں کی جانکا ہی میں ہے! یعنی۔ ’’ فوج کی حفاظت میں مصر کے بادشاہ کے کجاوے میں بیٹھ کر جانے سے جان کی سلامتی ہے لیکن، کسی اکیلے عاشق رسولؐ کو خوف نہیں ہونا چاہیے۔ علاّمہ اقبالؒ کا یہی پیغام مسلمان ملکوں کے بادشاہوں ، صدور، وزرائے اعظم اور دوسرے حکمرانوں کے لئے تھا / ہے۔ معزز قارئین!۔ (کافی دِنوں سے ) تین بار وزارتِ عظمیٰ کا جھولا جھولنے والے ، اور سپریم کورٹ سے سزا یافتہ اور نااہل وزیراعظم میاں نواز شریف اور ’’ دامادِ بھٹو‘‘ سابق صدر آصف زرداری کی مختلف بیماریو ں ؔکا چرچا ہے اور انہیں جیل سے لاہور کے "Services Hospital" اور اسلام آباد کے "P.I.M.S" میں داخل بھی کروا دِیا گیا ہے اور … ’’بڑھا بھی دیتے ہیں،کچھ ، زیب ِداستاں کیلئے‘‘ کے مصداق ، بیمارگان کے بیٹوں ، بیٹیوں ،دوسرے رشتہ داروں اور اُن کی پارٹیوں کے قائدین اور کارکنوں نے اُن کے علاج معالجے میں کوتاہی ؔکا سارا ملبہ وزیراعظم عمران خان پر ڈال دِیا ہے ؟ اور علی الاعلان ، الیکٹرانک ، پرنٹ میڈیا "Social Media" اور "Anti Social Media" پر بھی پوری دنیا کو خبردار کردِیا ہے کہ ’’ اگر ہمارے قائدین کو ’’ خُدانخواستہ ‘‘ کچھ ہوگیا تو ہم ، وزیراعظم عمران خان کو نہیں چھوڑیں گے!‘‘۔ مجھے نہیں معلوم کہ ’’ چھوڑنے‘‘ کے معاملے پر اُستاد شاعر ’’ پہلوان سخن‘‘ امام بخش سیفیؔ کا یہ شعر صادق آتا ہے یا نہیں؟… بے قراری ، دشت ِ غُربت میں ،ہمارے ساتھ تھی! چھوڑ آئے کوچۂ جانا ںمیں، ہم بیماری کو! وزیراعظم عمران خان نے 23 اکتوبر کو (مرحومہ بیگم نصرت بھٹو کی آٹھویں برسی کے موقع پر ) اسلام آباد میں سینئر صحافیوں سے خطاب کرتے ہُوئے کہا کہ ’’ اگر نواز شریف کو کچھ ہوگیا تو مَیں ذمہ دار کیوں؟ کیا مَیں جج یا ڈاکٹر ہُوں ‘‘۔ اِس پر مجھے عالمِ اسلام کے ایک عظیم ہیرو مصر اور شام کے حکمران غازی صلاح الدّین ایوبی (1174۔ 1193ئ) یاد آگئے ، جنہوں نے صلیبی جنگوں میں برطانیہ ، جرمنی اور فرانس کو شکست دِی تھی۔ مَیں نے 1972ء میں لاہور کے ایک سینما گھر میں "Saladin" کے نام سے ایک انگریزی فلم دیکھی تھی۔ فلم میں ایک منظر یہ بھی تھا کہ ’’ سلطان صلاح الدّین ایوبی ، میدان جنگ میں ، ڈاکٹر کا بھیس بدل (کر) صلیبی جنگوں میں اپنے دشمن برطانیہ کے بیمار بادشاہ "Richard-I" المعروف ’’رچرڈ شیر دل‘‘ (Richard the Lionheart) کے خیمہ میں جا کر، اُس کا علاج کِیا تھا۔ وہ تو خیر فلم تھی ۔ ظاہر ہے کہ ’’ وزیراعظم عمران خان اگر ڈاکٹر کا بھیس بدل کر میاں نوازشریف یا آصف زرداری سے ملنے جائیں گے تو، پہچانے جائیں گے‘‘۔ بہرحال اُنہوں نے وفاقی اور حکومت پنجاب کو ہدایات جاری کردِی ہیں کہ ’’ میاں نواز شریف کے علاج میں کوئی کوتاہی نہ برتی جائے اور نہ ہی آصف زرداری کے علاج میں ‘‘۔ معزز قارئین!۔ اگرچہ میاں نواز شریف کی پاکستان مسلم لیگ (ن) کا انتخابی نشان ’’ شیر‘‘ تھا/ ہے لیکن موصوف ’’ شیر دِل‘‘ نہیں ہیں۔ نواز شریف صاحب کی طبیعت خراب ہوگئی تو، اُن کے داماد ۔ شیرؔ خُدا حضرت علی مرتضیٰ ؑکے صفاتی نام ’’صفدر‘‘ ( صفوں کو چیرنے والے ) کیپٹن (ر) محمد صفدر کی بھی طبیعت خراب ہوگئی ؟‘‘۔ جنابِ ذوالفقار علی بھٹو جب 8 سال صدر محمد ایوب خان کی حکومت کی رُکنیت چھوڑ کر عوامی سیاست میں آئے تھے تو، اُن کے بارے میں بھی اُن کے جیالے نعرا لگایا کرتے تھے کہ … ’’بھٹو ساڈا شیر اے ، باقی ہَیر پھَیر اے!‘‘ اگرچہ میاں نواز شریف اور آصف زرداری نے ’’ ثوابِ طاعت و زُہد ‘‘ ( عبادت اور پرہیز گاری) کی کبھی پروا نہیں کی۔ سیدھے سادھے سیاستدان ہیں لیکن،نہ جانے مرزا غالب ؔنے اپنے بارے میں یہ کیوں کہہ دِیا تھا کہ … جانتا ہُوں ، ثوابِ طاعت و زُہد! پر طبیعت ، اِدھر نہیں آتی؟ مرزا داغ دہلوی ؔکا نہ جانے کیا مسئلہ تھا ؟ ، جب اُنہوں نے کہا کہ … کہتے ہیں لوگ ، تیریؔ ! طبیعت اُلٹ گئی! یہ جانتے نہیں ، میریؔ قسمت اُلٹ گئی! معزز قارئین! ۔ سیاستدان خواہ اپنے حریفوں کی بحالی ٔ صحت کے لئے دِل سے دُعا نہ بھی کریں؟ لیکن بار بار ’’ پَھنیر‘‘ حکمرانوں /سیاستدانوں سے ڈسے جانے والے ،مفلوک اُلحال عوام ، اُن لوگوں کو معاف کرنے کے عادی ہیں؟۔ ریاست پاکستان کے چار ستونوں ( Pillers) میں سے دوسرا ستون "Judiciary" (جج صاحبان ) نے کبھی "Suo Moto" ۔ (از خود نوٹس) لے کر کرپشن کے مقدمات میں گرفتار اور بیمار کسی سابق حکمران سے نہیں پوچھا کہ ’’ اے قائدِ قوم ہونے کے دعویدار! تم نے اپنے دورِ حکومت میں قائداعظمؒ کے پاکستان میں کوئی ایسا ہسپتال کیوں نہیں قائم کیا، جس میں (سماجی اور سیاسی طور پر ) بڑے لوگوں (کے بقول )اُن کی ’’ جان لیوا‘‘ (Fatal,Deadly) اور مہلک (Destructive) بیماریوں کا علاج ہوسکتاتھا ۔ معزز قارئین!۔ بہادر شاہ ظفرؔ کے اُستاد محمد ابراہیم ذوق ؔنے ’’ از خود نوٹس ‘‘ لیتے ہُوئے نہ جانے کِس طبیب (Physician) سے پوچھا تھا کہ … بیمارِ عشق کا جو، نہ تجھ سے ہو علاج؟ کہہ اے طبیب تو ہی ، پھر کیا تیرا علاج! علاّمہ اقبالؒ جب وکالت کرتے تھے تو ، اپنی اور اپنے خاندان کی ضروریات کے مطابق مقدمات اپنے پاس رکھ لیتے تھے اور باقی مقدمات اپنے دوستوں ( وُکلاء اور شاگردوں) میں تقسیم کردیتے تھے۔ قائداعظمؒ نے بھی گورنر جنرل آف پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھاتے ہی ، اپنی ساری جائیداد کا ٹرسٹ بنا کر اُسے قوم کے نام کردِیا تھا۔ اِس کے باوجود عُلمائے سُو نے ’’ آپؒ کے خلاف کُفر کا فتویٰ دے کر رُسوائی حاصل کی‘‘ ۔ بقول ’’ شاعرِ سیاست‘‘ … اُن کی مرضی کی شریعت ؔ، آبروئے مُک مُکا! ارضِ پاکستان میں ، عُلمائے سُوئے مُک مُکا! پاکستان میں 1962ء سے ’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ قائم ہے اور 1980سے ’’فیڈرل شریعت کورٹ‘‘ لیکن، اُس کے کسی چیئرمین اور چیف جسٹس ، ارکان اور جج صاحبان نے سماجی اور سیاسی طور پر بالائی طبقے کے لوگوں کو قرآن پاک کی کے اِس فرمان سے آگاہ نہیں کِیا کہ’’ جو لوگ سونا، چاندی جمع کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں ( عوام کی بھلائی پر ) خرچ نہیں کرتے، تو قیامت کے دِن اُن کے جمع کئے گئے سونے اور چاندی کو ’’جہنم‘‘ کی آگ میں تپا تپا کر ، اُن کی پیشانیوں اور پشتوں پر داغا جائے گا‘‘۔ سونے ، چاندی ، مال اور زمانۂ اقبالؒ کو دولتؔ (Wealth) کہا جاتا ہے ۔ ’’دولت‘‘ ۔ سے علاّمہ اقبالؒ نے کہلوایا تھا کہ … خزینہ ہُوں ، چھپایا ،مجھ کو ،مُشتِ خاکِ صحرا نے! کسی کو کیا خبر ، مَیں کہاں ہُوں ، کِس کی دولت ہُوں! لیکن، کافی عرصہ سے "Money Laundering"کا دور ہے ، جن سابق حکمرانوں نے قومی دولت لُوٹ کر بیرونی بنکوں میں جمع کرائی اور وہ پکڑے بھی گئے تو، اُن کی صحت (Health) خراب کیوں نہیں ہوگی؟ ۔ مجھے یقین ہے کہ اِن دِنوں میاں نواز شریف اور آصف زرداری انگریزی زبان کی اِس "Phrase" (محاورے ) پر ضرور غور کر رہے ہوں گے کہ "Health is Wealth" ۔ ؟۔