وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب و داخلہ امور شہزاد اکبر نے ہوم سیکرٹری پریتی پیٹل کو لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کو پاکستان کی جیل میں عارضی طور پر آٹھ ہفتوں کے لئے رہا کیا گیا تھا، برطانیہ انہیں ڈی پورٹ کرے۔برطانیہ میں مقیم پاکستان کو واپس لانے کی یہ پہلی کوشش نہیں۔ اس سے پہلے بھی بانی متحدہ کو پاکستان واپس لانے کی کوششیں کی گئیں جو محض اعلانات تک ہی محدود ہیں ۔ماہرین قانون کے مطابق برطانیہ میں مقیم مجرموں کو وطن واپس لانے میں حکومت کی ناکامی کی وجہ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان مجرموں کے تبادلے کا معاہدہ نہ ہونا ہے جس کا ادراک حکومتی اکابرین کو بھی بخوبی ہے۔ حکومت اگر واقعی مطلوب افراد کو قانون کے کٹہرے میں لانا چاہتی ہے تو پہلے برطانیہ سے قانون معاملات طے کر ے، پاکستان سے معاہدے کرنے کے لیے انسانی حقوق کی تنظیموں کو فعال کرنے کی بھی کوشش کی جائے تاکہ برطانوی حکومت پر قانونی معاہدے کے لئے دبائو بڑھایا جا سکے۔ خوش آئند بات یہ بھی ہے کہ برطانیہ میں بھی اس حوالے سے پاکستانی موقف کی تائید کے امکانات موجود ہیں جس کا ثبوت ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے سربراہ کا بیان ہے کہ برطانوی حکومت کو قانون کی بالادستی کے لیے پاکستان سے تعاون کرنا چاہیے ۔ضرورت ا س امر کی ہے کہ حکومت برطانوی حکومت سے قانونی معاملات طے کرنے کے ساتھ وہاں کی حکومت پر عوامی دبائو بڑھانے کی بھی کوشش کرے تاکہ پاکستان کے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔