میاں محمد نوازشریف کوکل سے کوٹ لکھپت جیل کی قیدتنہائی ایک پھر کاٹنے کو دوڑے گی۔ عارضہ قلب، گردوں کی بیماری، ڈپریشن اور ہائی بلیڈ پریشر جیسے جان لیوا مریض کوقیدی نمبر 4470 کہہ کر پکارا اور لکھاجائے گا۔گزشتہ چھ ہفتوںکے دوران نون لیگ بظاہر خاموش رہی لیکن وہ مسلسل داخلی مشاورت اور تنظیمی معاملات کو حتمی شکل دینے میں مصروف رہی۔ شہباز شریف ‘جو پارٹی کے صدر ہیں لندن پرواز کرگئے۔ مبصرین کی رائے ہے کہ وہ لندن میں طویل قیام کریں گے۔ ’’قوم اور پارٹی‘‘ کی راہنمائی کا فریضہ وہاں سے ہی سرانجام دیں گے۔ سپریم کورٹ اگر چہ نوازشریف کی بیرون ملک علاج کی درخواست مستر د کرچکی ہے لیکن عدالت نے اپنے دروازے مستقل بند نہیں کیے۔ غالباًوہ اسلام آباد یا لاہور ہائی کورٹ میں علاج کی درخواستیں دیتے رہیں گے۔ ممکن ہے کہ رفتہ رفتہ حالات سازگار ہوجائیں اور وہ علاج کے لیے لندن سدھار جائیں۔ نون لیگ کی نئی لیڈرشپ منجھی ہوئی اور جہاندیدہ ہے۔پارٹی کمان عملاًشاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال کے ہاتھ آچکی ہے۔ مریم نوازاور حمزہ شہباز کو مرکزی نائب صدر بنا کر پارٹی پر خاندانی بالادستی کو یقینی بنادیاگیا ہے۔ خواجہ محمد آصف پارلیمنٹ میں قائدحزب اختلاف کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے کمر بستہ ہیں۔ پارٹی لیڈرشپ کے موجودہ بیانیہ میں کوئی قابل ذکر فرق پڑے گا۔ شاہد خاقان دھیمے مزاج اور پاکستان کے مقتدر حلقوں سے دوستانہ مراسم رکھنے والی شخصیت ہیں۔ تعلقات اور مراسم کے باوجود پرویز مشرف کے دور حکومت میں بھی انہوں نے شریف خاندان اور پارٹی کے ساتھ عہدوفا بخوبی نبھایا۔ نون لیگ کے برعکس بلاول بھٹو زرداری نے حیرت انگیز تیزی کے ساتھ ایک مضبوط موقف اور استدلال کے ساتھ حکومت کو سینگوں پر اٹھا لیا ہے۔یکم مئی کے موقع پران کی تقریر نہ صرف جارحانہ بلکہ متاثر کن بھی تھی ۔ اہم قومی ایشوز جن پر بڑے بڑے جغاداری سیاستدان بھی واضح پوزیشن لینے سے کتراتے ہیں بلاول بھٹو نے ان پر دوٹوک موقف اختیار کیا۔خاص طورپر کم عمر بچیوں کی شادی، انسانی حقوق کے ایشوز ، اٹھارویں ترمیم ،غیر سرکاری تنظیموں کی سرگرمیوں کی غیر ضروری نگرانی اور میڈیا پر لگنے والی قدغنوں کے خلاف بروقت آواز اٹھاکر انہوں نے ملک گیر سطح پر پذیرائی حاصل کی۔یہ وہ ایشوز ہیں جن پر ملک کے فعال طبقات میں سخت تشویش پائی جاتی ہے لیکن کوئی سیاستدان ان کی آواز بننے کے لیے تیار نہیںتھا۔ بلاول بھٹو کی سیاست کو سب سے بڑا فائدہ تحریک انصاف کی تیزی سے گرتی ہوئی مقبولیت نے بھی پہنچایا۔گزشتہ چند ماہ میں مہنگائی کا طوفان نہیں‘ سونامی آیا ۔ پٹرول ، بجلی کی قیمتیں اور آسمان کو چھوتے ہوئے اشیاء صرف کے نرخوں نے شہریوں کو سراپا احتجاج بنادیا ۔ ہماری طرح کے لوگ جنہیں تحریک انصاف سے توقع تھی کہ وہ عام شہریوں کی فلاح وبہبود کے لیے کام کرے گی ۔انہیں راحت پہنچائے گی نہ صرف سیخ پا ہیں بلکہ اب بغلیں جھانک رہے ہیں۔یہ سوال دل ودماغ میں مسلسل چبھ رہاہے کہ متبادل لیڈر شپ میں کون ہے جو بھنور میں پھنسی اس کشتی کو ساحل پر اتار نے کی صلاحیت رکھتاہے؟عالم یہ ہے کہ عوامی مفاد کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے حکومت وسائل فراہم نہیں کررہی لہٰذا ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں خاندانوں کے چولہے ٹھنڈے ہوچکے ہیں۔یہ طالب علم کئی برسوں سے لکھتارہاہے کہ تحریک انصاف کرپشن کے خاتمے کے نام پر ووٹ تو لے سکتی ہے لیکن کرپشن ختم کرپائے گی نہ وائٹ کالر جرائم کا سراغ لگا نے اور لوٹی ہوئی دولت واپس لانے میں کامیاب ہوسکے گی۔ کرپشن کا خاتمہ اور وائٹ کالر جرائم روکنا ایک طویل المعیاد حکمت عملی اور پھر تسلسل کے ساتھ کئی عشروں تک اس پر کاربند رہنے سے ممکن ہوپاتاہے۔یہ بہت صبر آزما اور تحمل سے کیا جانے ولاکام ہے۔اس سے عوام کو کوئی فوری ریلیف نہیں مل سکتا۔ ہنگامہ مچانے، خوف وہراس پیدا کرنے سے سرمایہ دار ہاتھ کھینچ لیتاہے۔ روزگار ختم ہونے لگتے ہیں۔ کارخانوں کی چمنیاں بجھ جاتی ہی۔بے روزگاری مزید بڑھ جاتی ہے۔معیشت کا پہیہ جام ہوجاتاہے تو حکومت کو روزمرہ کے اخراجات کے لیے بھی مزید قرضے لینے پڑتے ہیں۔ یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں جو تحریک انصاف سمجھ نہ سکتی لیکن وزیراعظم عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے آئیڈیل ازم نے ملک کی ایک مقبول ترین جماعت کا یہ حال کردیا کہ اس کے حامی اس کے دفاع سے قاصر ہیں۔2012ء میں عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت فی بیرل 142ڈالر تھی۔ اس وقت پاکستان میں حکومت 111روپے فی لیٹر پٹرول فراہم کرتی تھی۔ آج عالمی مارکیٹ میں فی بیرل قیمت ستر ڈالر ہے اور ہمیں 108روپے فی لیٹر خریدنا پڑتاہے۔ کہتے ہیں کہ گزشتہ حکومتوں نے خزانہ خالی چھوڑا تھا۔ کالم نگار آصف محمود نے درست لکھا کہ پیپلزپارٹی نے خزانے پر چھاڑو پھیر کر حکومت نون لیگ کے حوالے کی۔ انہوں نے بھی عالمی اداروں کوقرض لوٹایا لیکن پی پی پی اور نون لیگ عوام پر قہر بن کر نہیں ٹوٹیں ۔ حکومت کو درست راستہ پر گامزن رکھنے اور عوام دوست پالیسیاں اختیار کرنے پرمجبور کرنے کے لیے ملک کو مضبوط اور بالغ نظراپوزیشن کی ضرورت ہے۔ جونکتہ چینی ہی نہیں بلکہ جائز کاموں پر حمایت بھی کرے ۔خاص کر قانون سازی کے معاملات پر پارٹی وابستگی سے بالاتر ہوکر حکومت کی مدد کی جانی چاہیے۔ بلاول بھٹو نے پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ کے باہر حزب اختلاف کا کردار بھرپور طریقہ سے ادا کرنا شروع کردیا ہے۔ مریم نوازشریف بھی اگر میدان میں اتریں تو پھر تحریک انصاف کی حکومت کو عوام دوست پالیسیاں اختیار کرنے پر مجبور کیا جاسکتاہے۔ ابھی صرف وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک عالمی مالیاتی اداروں کے پسندیدہ شخصیات کے حوالے کیے گئے ہیں کل پوری معیشت ان کی جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی لاٹھی بن جائے گی۔