اسلام آباد(خبر نگار)سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم نوازشریف،مریم نواز کی سزامعطلی کے ہائیکورٹ کے فیصلہ کے خلاف نیب کی اپیل باقاعدہ سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے فریقین کے وکلا کو اٹھائے گئے قانونی سوالات کو معروضات کی شکل میں جمع کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 12 دسمبر تک ملتوی کردی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ فریقین کے معروضات کا جائزہ لینے کے بعد مقدمے کی سماعت کے لئے لارجر بینچ تشکیل دینے کے معاملے کا فیصلہ کیا جائے گا۔چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔چیف جسٹس نے کہاعدالت اپیل باقاعدہ سماعت کیلئے منظور کرے گی اوراس کے بعد ممکن ہے لارجر بینچ بناناپڑے ۔نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا انسداد دہشتگردی کے مقدمات میں بھی سزائیں معطل ہوئیں ۔چیف جسٹس نے کہا میرے ذہن میں 3 بنیادی سوال ہیں،دہشتگردی کا مقدمہ فوجداری کیس ہوتا ہے ،موجودہ کیس نیب قانون کا تھا،اصل سوال ضمانت نہیں، سزا معطلی کا ہے ،اگر ماضی کے عدالتی فیصلوں میں تضاد ہے تو لارجر بینچ بھی بن سکتا ہے لیکن لارجر بینچ کے حوالے سے فریقین کے وکلا معاونت کریں، انصاف کے تقاضوں کے مطابق جو بہترین فیصلہ ہوا وہ کریں گے ۔چیف جسٹس نے کہا کیوں نہ اپیل سماعت کیلئے منظور کر لیں اورمیرے لندن کے دورے کے بعد اپیلوں کو سماعت کیلئے مقرر کر دیا جائے ،ڈاکٹر نے بتایا ہے جب خواجہ حارث پیش ہوتے ہیں تو میرے دل کی دھڑکن بڑھ جاتی ہے ۔چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے سوال کیاکہ کیا آپ جسٹس کھوسہ کے فیصلے پر انحصار کر رہے ہیں؟ لیکن اگرآپکو اعتراض نہ ہو تو جسٹس کھوسہ کو بینچ کا حصہ بنا لیں۔ چیف جسٹس کے سوال پر خواجہ حارث نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں ، جس پر چیف جسٹس نے کہا سپریم کورٹ پر اعتماد کرنا ہوگااوربد اعتمادی کی بیماری سے چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا۔تحریری آرڈر میں 17 سوالات اٹھاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کیا نیب مقدمات میں ضمانت کا معاملہ عام فوجداری مقدمات کی طرح دیکھا جاسکتا ہے اور کیا نیب کیس میں ضابطہ فوجداری کی سیکشن 497 اور 498 کے تحت ضمانت کا معاملہ زیر غور لایا جا سکتا ہے ۔ تحریری آرڈر میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ کیا ضمانت کے مقدمے میں 41 صفحات کا فیصلہ لکھا جا سکتا ہے ، کیا نیب کے مقدمے میں ضمانت عمومی نوعیت کے مقدمات کی طرح ہو سکتی ہے ۔ مزید سوالات میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ جب سزا کے خلاف اپیلیں سماعت کے لئے مقرر تھی تو کیا اسلام آباد ہائیکورٹ سزا معطلی کی درخواستوں پر سماعت کرنے کی مجاز تھی ۔