نوازشریف کے ممبئی حملے والے غیرضروری اور بے مقصد بیان نے ملکی سیاست میں تہلکہ مچادیا۔ ان کی مذمت ہرکوئی کررہاہے لیکن یہ اتنا سادہ مسئلہ نہیں جنتا بظاہر نظر آتاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے یہ جوابہت سوچ سمجھ کر کھیلاہے۔کرپشن اور بدعنوانی کے مقدمات کو سویلین بالادستی ، جمہوری نظام اور منتخب حکومت کی پالیسی سازی کے معاملات میںفیصلہ کن حیثیت کی جدوجہد کا عنوان دے کر انہوں نے عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کو مشکل صورت حال سے دوچار کردیا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کی لڑائی ہمیشہ محترمہ بے نظیر بھٹو لڑا کرتیں تھیں۔ عالمی طاقتیں اور دنیا بھر کے لبرل اور جمہوریت نواز طبقات ان کی پشت پناہی کرتے۔ آصف علی زرداری کی کرپشن کے قصے عام ہوئے تو ملکی اور غیر ملکی ہمدردوںنے مدد سے ہاتھ کھینچ لیا ۔ اس کے باوجو د مغرب میں بے نظیر بھٹو جمہوریت اور پسے ہوئے طبقات کی علامت تصور کی جاتیں تھیں۔آصف زرداری اس راز کو پا گئے کہ پاکستان میں اقتدار کے سارے راستے راولپنڈی سے گزرتے ہیں ۔چنانچہ ایک عملیت پسند سیاستدان کے طور پر انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے اور پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف ایک ہی کشتی کے سوار ہوگئے۔ایک ہی سکے کے دو رخ۔ نوازشریف جو کہ عدالتوں اور ’’اداروں‘‘ کے زیر عتاب ہیں انہوں نے سویلین بالادستی کا جھنڈا اٹھالیا۔ اس راستے پر چلنا پرخطر ہے۔ایک زیرک سیاستدان کے طور پر وہ جانتے ہیں کہ ان کے نام اور شہرت کو استعمال کرتے ہوئے شہباز شریف ملک کے وزیراعظم بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔وہ ان کے حریفوں میں چودھری نثار علی خان کی طرح ہی مقبول اور معتبر ہیں۔ شہبا ز شریف ایک بار وزارت عظمیٰ کی کرسی پر براجماں ہوگے تو اقتدار کا ہما پھر کبھی مریم نوازشریف کے سرپر نہ بیٹھ سکے گا۔ چنانچہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ٹکراؤ کو بڑھاتے جارہے ہیں حتیٰ کہ نون لیگ اقتدار کے کھیل سے ہی باہر ہوجائے ۔ وہ اور مریم نوازحزب اختلاف کی ایک مضبوط اور موثر آواز بن جائیں۔ باپ بیٹی میں حکومت مخالف سرگرمیوں کا دم خم بھی ہے اور مزاج بھی۔مغرب میں بھی اسٹیبلشمنٹ مخالف موقف کو نہ صرف پذیرائی ملتی ہے بلکہ ہاتھوں ہاتھ لیاجاتاہے۔ نوازشریف کے قریبی ساتھیوں کا تجزیہ ہے کہ اگر تحریک انصاف ، پیپلزپارٹی اور آزاد امیدواروں کے اشتراک سے وفاقی حکومت تشکیل دینے میں کامیاب بھی ہوجاتی ہے تو یہ چوں چوں کا مربہ ہوگا ۔ جو اپنے ہی تضادات سے زمین بوس ہوجائے گا۔ عمران خان کا بے لچک انداز سیاست مخلوط حکومت کو زیادہ دیراکٹھے نہ رکھ سکے گا۔اگلے ایک ڈیڑھ برس میں عسکری لیڈر شپ ہی نہیں بلکہ عدلیہ کے موجودہ ججوں کی بھی خاصی تعداد ریٹائرڈ ہوچکی ہوگی۔اسی دوران نون لیگ عمران خان کی حکومت کو دم نہیں لینے دے گی۔ پنجاب جو ملک کا سب سے بڑ اصوبہ ہے جہاں نون لیگ مقبول جماعت ہے‘تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کے ساتھ وہی سلوک کرے گا جو نوازشریف بطور وزیراعلیٰ محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ پارٹی رہنماؤں کا خیال ہے کہ اسٹیبلشمنٹ مخالف طرزسیاست اختیار کرنے کے باوجود نون لیگ کی سیاست قائم رہ سکتی ہے کیونکہ اس کی سیاست کی بنیاد پنجاب ہے۔نوازشریف جیسی گفتگو اگر پیپلزپارٹی کے کسی سندھی لیڈر نے کی ہوتی یا پھر خیبر پختونخوا یا بلوچ رہنماؤں نے تو آج ملک بھر میں انہیں سر چھپانے کی جگہ دستیاب نہ ہوتی لیکن نوازشریف کے جلسوں میں لوگوں کی تعداد کم ہورہی ہے اورنہ ووٹروں کا جوش وجذبہ۔ دہائیوں سے اعلیٰ پائے کے سیاسی دانشوروں کی پختہ رائے ہے کہ پاکستان میں جمہوریت اسی وقت جڑپکڑے گی جب ملک کے بالادست طبقات جنہیں اشرافیہ بھی کہاجاتاہے جمہوریت اور سویلین بالادستی کا علم بلند کریں گے۔خاص طور پر پنجاب کے اندر یہ کشمکش برپاہونے سے اگرچہ توڑ پھوڑ کا بہت امکان ہے لیکن اس کے علاوہ جمہوریت کے ارتقائی سفر کا راستہ کوئی دوسرا نظر نہیں آتا۔ پنجاب اگر جمہوریت کے لیے قربانیاں دینے پر آمادہ ہوتویہ سفر تیز ترہوسکتاہے۔پنجاب کے سیاستدان اور اسٹیبلشمنٹ کے ٹکراؤ سے ملک کمزور نہیں بلکہ سیاست میں مستقل ٹھہراؤ آنے اور رولز آف گیم طے ہونے کے امکانات روشن ہیں۔ نوازشریف اور ان کے ہمرکاب سینئر سیاستدانوں کو اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ پاکستان میں جمہوریت یا سویلین بالادستی کا خواب محض اس لیے شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا کہ قومی سلامتی کے اداروں نے اس کی راہ میںروڑے اٹکائے بلکہ اس کا ایک سبب سیاستدانوں کی نااہلی اور ملکی سلامتی، ترقی اور وقار کے مقابلے میں ذاتی، خاندانی اور گروہی ترقی اور خوشحالی کو ترجیح دینا بھی ہے۔حب جاہ ومال کا یہ عالم تھا کہ سیّد یوسف رضا گیلانی جیسا شخص جس کا سارا خاندان عشروں سے اقتدار میں شراکت دار رہاہے ۔بیرون ممالک سے ملنے والے سرکاری تحائف گھر لے جاتاہے۔ اور تو اور شوکت عزیز جیساارب پتی بھی کوئی زیادہ مختلف نہیں ۔ بیرون ممالک سے ملنے والے تحائف کو سرکاری توشہ خانے میں جمع کرانے کے بجائے انہیں معمولی قیمت پر خرید لیتاہے۔ نوازشریف ہوں یا آصف علی زرداری انہیں یہ احساس ہونا چاہیے کہ سیاستدان کو عوامی اعتماد کے بحران کا سامنا ہے۔اگر شہری ان کی لیڈرشپ اور ساکھ پر اعتماد رکھتے ہوتے تو پھر کسی ادارے میں یہ جرأت نہ تھی کہ وہ منتخب قیادت کے راستے میں دیوار بن کر کھڑا ہوجاتا۔سیاسی جماعتوں کو ذاتی اور کاروباری کمپنیوں کی طرح چلانے کی وجہ سے یہ حال ہے کہ منتخب نمائندے ہوا کا رخ دیکھ کر اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اصول اور نظریہ نام کی شہ بازار سیاست میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔ وہی لوگ جو کل تک نوازشریف کے جاتی امراء کا طواف کرتے تھے آج عمران خان کے لشکر میں شامل ہوکر بدعنوانی کے خلاف جہاد کرنے نکلے ہیں۔ پیپلزپارٹی کی مرکزی لیڈر شپ کا ایک پورادستہ تحریک انصاف کی صف اوّل میں کھڑا تبدیلی کا پرچم لہرا رہاہے۔ ان لیڈروں کے بیانات کے ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر مفت دستیاب ہیں۔ ایک ہی شخص جو چند ہفتے یا ماہ قبل نوازشریف کو مسیحا قراردیتاتھا اب عمران خان کو نجات دہندہ کہتاہے۔ جو کل تک پیپلزپارٹی کو اپنی ماں قراردیتاتھا آج تحریک انصاف کے اسٹیج سے عمران خان کو چرچل سے بڑا لیڈر کہتاہے۔خود عمران خان جن لوگوں کو چپڑاسی رکھنے کے روادار نہ تھے۔آج وہ ان کے مشیر خاص ہیں۔ نوازشریف روتے کیوں ہیں؟یہ سب کچھ محترمہ بے نظیر بھٹو پرگزر چکاہے۔اکتوبر1990 ء کی بات ہے راقم الحروف ایک دوست کے ہمراہ لاہورالیکشن مہم دیکھنے گیا۔ موچی گیٹ پر حافظ سلمان بٹ کا جلسہ تھا۔ کونسی گالی تھی جو موصوف نے بے نظیر کو نہ دی ہو۔ان دنوں حافظ سلمان بٹ نوازشریف کی آنکھ کا تارہ تھے۔ چند دن بعد لیاقت باغ میں شیخ رشید نے آئی جے آئی کا جلسہ رکھا تھا۔ جناب شیخ کی تبرہ بازی اور گالم گلوچ کی کوئی حدنہ تھی۔ میاں نوازشریف اور قاضی حسین احمد نے بیک زبان بے نظیر بھٹو کو وطن دشمن، یہودیوں کا ایجنٹ اور پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ قراردیا۔ آج وہ مناظر آنکھیں کے سامنے گھوم جاتے ہیں جب نوازشریف محترمہ بے نظیر بھٹو کی سیاست کی قبر کھود کر اپنی سیاست کی عمارت اٹھا رہے تھے۔یہ مکافات عمل ہے۔ یقین نہیں آتا کہ یہ سب کچھ اس قدر جلدی اور ہمارے سامنے ہی ہوجائے گا۔