نوخیز و نو آموز سیاست برخوردار بلاول بھٹو کے ٹرین مارچ کی اخبارات میں تصویریں دیکھ کے ہمیں ان کے نانا مرحوم بھٹو کا ٹرین مارچ یاد آ گیا۔ اپنے سیاسی ڈیڈی صدر ایوب سے اختلاف کے بعد جب وہ وزارت خارجہ سے علیحدہ کردیئے گئے تو عوامی رابطہ مہم کے لیے انہوں نے بھی پنڈی سے ٹرین پر بیٹھ کے ہی اپنی سیاسی تحریک کا آغاز کیا تھا۔ ٹرین جن جن اسٹیشنوں پر رکی عوام نے قائد عوام کا جوق در جوق پرجوش استقبال کیا۔ پھر اس کے بعد کیا ہوا، یہ تاریخ کی کتابوں میں رقم ہے۔ اسے دہرانے کی ضرورت نہیں۔ اقتدار کے عروج کے دن دیکھنے کے بعد جب بھٹو صاحب زوال سے دوچار ہوئے خصوصاً ’’کرسی چھن‘‘ گئی اور سہالہ ریسٹ ہائوس میں نظر بندی کے بعد جب انہیں رہا کیا گیا تو ایک بار پھر انہیں عوام سے رابطہ مہم کے لیے ٹرین ہی یاد آئی۔ خوش قسمتی دیکھیے کہ جن بھٹو صاحب کے خلاف نظام مصطفی کی ملک گیر تحریک چلی تھی جس کے دوران عجیب عجیب ناشائستہ نعرے وضع کئے گئے تھے، اسی عوام نے ایک بار پھر بھٹو صاحب کا ریلوے اسٹیشنوں پر پرجوش استقبال کیا جس نے صدر ضیاء کو فکر مند کردیا تھا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ٹرین اور بھٹو خاندان کا ساتھ کوئی آج کا نہیں بہت پرانا ہے۔ یوں تو ٹرین سفر کا استعارہ ہے۔ ریلوے اسٹیشنوں پر لوگ باگ اپنے پیاروں کو الوداع کہنے آتے ہیں۔ ٹرین آتی ہے، رکتی ہے اور مسافروں کو لے کر سیٹی بجاتی چل دیتی ہے۔ رخصت کے لیے آنے والے ہاتھ ہلاتے بلکہ ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔ اس لیے ہمارے خیال میں ٹرین مارچ کی سیاست کوئی نیک شگون نہیں، جب یہ بھٹو جیسے فخر ایشیا کو راس نہ آئی تو ان کے نواسے کو کیا راس آئے گی۔ ایک تصویر کا منظر کچھ یوں تھا کہ عوام اسٹیشن پر جمع ہو کے بلاول بھٹو کو دیکھ کے ہاتھ ہلا رہے ہیں۔ یہ نہ معلوم ہو سکا کہ وہ ان کا استقبال کر رہے ہیں یا انہیں خدا حافظ کہہ رہے ہیں۔ عوام کا کیا بھروسہ۔ کبھی کسی کے ساتھ ہوتے ہیں اور کبھی کسی کے ساتھ۔ جسے کندھوں پر پیار سے بٹھاتے ہیں، اسے کندھے سے اتار پھینکنے میں بھی دیر نہیں لگاتے۔ اس لیے اگر سندھی عوام نے برخوردار بلاول کا اسٹیشنوں پہ پرجوش استقبال کیا بھی ہے تو اس سے انہیں کسی خوش فہمی میں مبتلا نہ ہونا چاہیے۔ جس طرح ٹرین رکنے کے لیے نہیں جانے کے لیے ہوتی ہے اسی طرح سیاست میں مقبولیت اور عروج وغیرہ بھی آنی جانی شے ہے۔ جو لیڈر آج عوامی ہر دلعزیزی کے باہم عروج پر ہوتا ہے کل کلاں کو گوشہ گمنامی کا حصہ بن جاتا ہے۔ بھٹو صاحب بھی جب سزائے موت کی کال کوٹھڑی میں بند تھے اور دن بھر سگار پھونکتے گہری سوچ میں ڈوبے انتظار کرتے رہتے تھے کہ کب ان کے محبوب عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر آئے گا اور جیل کی دیواروں کو گرا کر اور سلاخوں کو پھاند کر انہیں ڈیٹھ سیل سے رہا کرا لے جائے گا لیکن ان کا انتظار انتظار ہی رہا۔ یہاں تک کہ جب انہیں پھانسی دی گئی تو چند غریب جیالوں کی خود سوزی تک ہی معاملہ محدود رہا۔ عوام سڑکوں پہ نہ آئے نہ کوئی ٹرین مارچ ہوا اور نہ وہ عوامی سیلاب بہہ نکلا جو بھٹو صاحب کے جلسوں میں بے پناہ طریقے سے آتا تھا اور جئے بھٹو کے فلک شگاف نعرے لگاتا تھا۔ بھٹو صاحب کو بچانے کے لیے عوام نے کوئی کوشش نہ کی۔ ہاں ان کی رخصتی کے بعد ہر گھر سے بھٹو نکلے گا، تم کتنے بھٹو مارو گے کی طفل تسلی عوام کو ضرور دی گئی۔ بھٹو تو کسی گھر سے نہ نکلا، ہاں بلاول بھٹو نکل آئے وہ بھی اپنی والدہ کی شہادت کے بعد۔ بلاول بھٹو سیاست میں خود آئے، یا لائے گئے، اس بارے میں بھی کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ یہ بھٹو خاندان کے کارڈ کا آخری پتہ ہے جو سیاست کی میز پر پھینکا گیا ہے۔ یہ پتہ ترپ کا پتہ ثابت ہوتا ہے یا نہیں، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ ہمیں تو بھٹو فیملی میں سب سے دانش مند صنم بھٹو لگتی ہیں جنہوں نے سیاست کے تذکرے سے ہمیشہ کانوں کو ہاتھ لگایا ہے۔ وہ واحد اولاد ہیں بیگم نصرت بھٹو کی جنہوں نے اپنے خاندان کے سیاست میں آنے کے انجام سے سبق سیکھا ہے۔ والد کی الم انگیز پھانسی، والدہ کی حیرتناک بیماری کے بعد موت، دو بھائیوں کی پراسرار طریقے سے ہلاکت اور پھر اپنی بڑی بہن کی شہادت اور بہنوئی کی بدنامی نے انہیں سکھایا کہ زندگی اقتدار، شہرت اور دولت کی خاطر اپنے چین و سکون کو لٹا دینے کا نام نہیں۔ زندگی خدا نے اس لیے دی ہے کہ اسے اطمینان قلب اور آسودگی کے ساتھ بسر کیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے سیاست میں شمولیت کی ہر پیش کش اور دبائو کو قبول کرنے سے انکار کیا اور خاموشی سے رہنا پسند کیا۔ وہ بنگلہ دیش کی حسینہ واجد ہی تھیں جو اپنے خاندان کے بہیمانہ اور عبرتناک قتل کے بعد سیاست میں اس لیے آئیں کہ انتقام لے سکیں۔ وہ انتقام کی آگ میں جل کر بھسم ہورہی ہیں اور ہر اس سیاسی کارکن اور رہنما کو تختہ دار تک پہنچا رہی ہیں جنہوں نے بنگلہ دیش کے مقابلے میں پاکستان کا ساتھ دیا تھا۔ بات ہورہی تھی بلاول بھٹو کے ٹرین مارچ کی۔ وہ نوخیز ہیں، سیاست میں نو آموز ہیں، ان میں خطابت کی صلاحیت بھی ہے لیکن ان میں بھی اپنے نانا والی خوبی یا خرابی پائی جاتی ہے۔ اقتدار ہر قیمت پر۔ حال ہی میں انہوں نے دہشت گردوں کی پشت پناہی کی ذمہ داری حکومت پر ڈال کے بھارتیوں کے موقف میں جان ڈالنے کی جو کوشش کی ہے، وہ اقتدار کی بھوک ہی تو ہے۔ اس معاملے میں اس میں اور برادر حسین حقانی میں فرق ہی کیا ہے، وہ بھی بھارتی حکومت کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں اور پاک فوج اور اپنے ہی وطن کی جڑیں کھودنے میں کوئی کمی اور کسر نہیں چھوڑتے۔ مفاد پرستی او رخود غرضی پہ آدمی اتر آئے تو اس کی بھی کوئی انتہا نہیں ہوتی۔ اچھا بھلا آدمی بھی میر جعفر اور میر قاسم بننے میں دیر نہیں لگاتا۔ ہم بلاول برخوردار کو اس صف میں تو شامل نہیں کرتے، وہ محب وطن ہیں، تعلیم یافتہ ہیں اور کم سے کم اپنے والد کی طرح ان کا دامن بدعنوانیوں سے داغدار نہیں۔ لیکن کیا مضائقہ ہے کہ بیان داغتے ہوئے اس کا آگا پیچھا یعنی اس کے اثرات کی بابت بھی سوچ لیا کریں۔ ہماری قومی سیاست جس بھنور میں پھنسی ہوئی ہے وہاں سے اسے نکالنا ہمارے سیاستدانوں ہی کی ذمہ داری ہے۔ سیاست دان حضرات اگر ذمہ دار، سمجھ دار ہو جاتے تو ملک و قوم کی یہ درگت تو نہ بنتی۔ اس ذمہ داری کو پیدا کرنے کے لیے صرف اتنا ہی کرلیا جائے کہ سیاست دان بیان بازی سے توبہ کرلیں۔ حکومت اپنے وزراء کو روک دے۔ ہر وزیر سے کہہ دیا جائے کہ میاں چپ بیٹھوا ور چپ چاپ اپنا کام کرتے رہو۔ یہ جو اخبارات کی سرخیوں اور چینلوں کے خبرناموں میں اپنے نام سننے اور بیان چھپا دیکھنے کا شوق ہے اسی نے پچانوے فیصد خرابیاں پیدا کی ہیں۔ سیاست کو پراگندگی سے بچانے کا سب سے اچھا طریقہ یہی ہے۔ ہم نے مغربی اخبارات میں کبھی وہاں کے سیاست دانوں اور وزیروں کے بیانات کا جمعہ بازار لگتے نہیں دیکھا۔ شاید وجہ یہ ہو کہ وہ یہ سوچتے ہیں کہ فقط گفتار ہی کرتے رہے تو کام کیا ہوگا ہمارے سیاست دانوں کو تو یہ بھی سوچنے کی توفیق نہیں کہ میں اکثر سوچتا ہوں کہ میرا انجام کیا ہوگا؟ گفتار کے انجام پہ غور کرلیا جائے تو بیان بازی کی نوبت ہی کیوں آئے۔ اب اگر یہ ضرورت اخباروں اور چینلوں کی ہے تو الگ بات ہے۔ اخبار والا سوچے کہ بیانات نہ ہوں گے تو ہم کیا چھاپیں گے اور کیا نشر کریں گے۔ بس جس دن میڈیا والوں نے یہ سوچنا شروع کردیا کہ کیا چھاپہ جائے اور کیا نہ چھاپہ جائے، اس دن اصلاح کا عمل میڈیا میں بھی شروع ہو جائے گا۔ بے چارہ سیاستدان چپ بھی ہو تو رپورٹر اپنا سوالنامہ لے کر پہنچ جاتا ہے۔ سیاست او رصحافت یعنی میڈیا دونوں کو ایک ساتھ سدھرنا ہوگا، اگر قوم کو سدھارنا ہے تو ورنہ جس بھنور میں ہم پھنسے ہیں پھنسے ہی رہیں گے۔