ایک وقت ایسا تھا کہ لاہور اور کراچی کے درمیان کرکٹ کے نہیں بلکہ محبت کا مقابلہ بھی ہوا کرتا تھا۔ وہ محبت سوشل میڈیا کی طرح نقلی نہیں تھی۔ وہ محبت ادب کی طرح پاکیزہ اور اصلی تھی۔ اب تو ہمارے ان کافی ہاؤسز کو نظر لگ گئی ہے جہاں وقت رک جاتا تھا اور باتیں چلتی رہتی تھیں۔ ان کافی ہاؤسز میں کتنے نئے خیالات جنم لیتے تھے۔ ان کافی ہاؤسز میں کس طرح مختلف موضوعات مباحثوں کا باعث بنتے ہیں۔ ان کافی ہاؤسز میں صرف اشعار ہی نہیں بلکہ افسانے اور ناول بھی لکھے جاتے تھے۔ مگر جہاں کافی ہاؤسز تھے اب وہاں فاسٹ فوڈ شاپس ہیں اور کیوں نہ ہوں؟ جب بک اسٹورز والی دکانیںبوٹ ہاؤسز میں تبدیل ہوگئی ہیں تو پھر ہم اس بات کا غم کیوں کریں کہ: ؎ ان فلیٹوں کی جگہ تھیں؛ لہلہاتی کھیتیاں شہر کی وسعت پسندی کتنے گاؤں کھا گئی؟ شہر کی وسعت پسندی صرف گاؤں نہیں کھاتی اور بھی بہت کچھ کھا جاتی ہے۔ سب سے زیادہ ادب اور فن۔ شہر کی نظر میں ادب اور فن گھر کے اسٹور روم میں بھی رکھنے کے قابل نہیں ہوتے۔ مگر کیا ادب اور فن محض مصوری؛ موسیقی؛ رقص؛ شاعری؛ ناول اور افسانوں تک محدود ہے۔ ادب اور فن اگر واقعی ادب اور فن ہے تو پھر وہ ہماری اصل تاریخ ہے۔ ہماری وہ تاریخ جب ہم سے چھن جاتی تو ہم دونیا کے چوراہے پر اپنے گھر کا پتہ پوچھنے کی کوشش کرتے ہیں مگر عین اس وقت ہمیں معلوم ہوتا ہے تو ہم تو وہ زبان بھی بھول چلے ہیں جس زبان میں ایک وطن میں چڑیا چہچہاتی ہے۔ بلبل گاتی ہے۔ کلی پھول بنتی ہے اور پھول میں ہواؤں میں بکھر جاتا ہے۔ انسان کے اندر جو کشمکش ہوتی ہے۔ جو اسے رات کو سونے نہیں دیتی اور جو اسے اس قدر تھکا دیتی ہے کہ صبح کا جاگنا مشکل ہوجاتا ہے۔ وہ اس کشمکش میں بہت دور نکل جاتا ہے۔ وہاں جہاں سے اس کا سفر شروع ہوا تھا مگر وہاں تو کچھ نہیں ہے۔ یہ نفی کی کیفیت جو انسان کو اثبات کی صورت میں ملتی ہے وہ انسان کے اندر میں اس طرح جھانکتی ہے جس طرح کوئی گہرے کنویں میں جھانکے اور اس کو سطح آب پر اپنی صورت جھلملاتی نظر آئے۔ یہ کیفیت راقم الحروف نے ہمیشہ اس وقت محسوس کی ہے جب اس نے غالب کا دیوان کھولا ہے۔ یہ مسائل تصوف یہ تیرا بیان غالب تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا غالب کو پڑھنے میں بہت لطف آتا ہے مگر غالب کو جب ضیاء محی الدین کی آواز میں سننے کا موقع ملتا ہے تب مزہ دوبالا ہوجاتا ہے۔ ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا بن گیا رقیب آخر تھا جو رازداں اپنا ہم خوش نصیب ہیں کہ ہمارے لیے مرزا غالب نے لکھا اور ہم اور بھی خو ش نصیب ہیں کہ ہم نے غالب کو ضیاء صاحب کی آواز میں سنا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اب کہانی سنانا بھی ایک فن بن گیا ہے اور شاعری کو کچھ بھاری اور کچھ مترنم آواز میں پڑھنا بھی ایک اچھا تجربہ ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ساز کو ہر موسیقار اس طرح نہیں بجا سکتا جس طرح کوئی استاد بجاوے ہے۔شہنائی تو وہی ہے مگر جب یہ استاد بسم اللہ کے ہونٹوں سے بجتی ہے تب اس کی صدائیں ہی اور بن جاتی ہیں۔کوئی ایسی کفیت طاری ہوجاتی ہے جب ہم مرزا غالب کے الفاظ کو ضیاء محی الدین کی آواز میں سنتے ہیں۔ ضیاء صاحب مرزا غالب کو اس طرح پڑھتے ہیں جس طرح مرزا غالب نے لکھا نہیں بلکہ محسوس کیا تھا۔ یہ دل کا دل سے ناتا ہوتا ہے۔ ضیاء صاحب جو بھی کام کرتے ہیں وہ دل سے کرتے ہیں یا پھر نہیں کرتے۔ صاف کہہ دیتے ہیں ’’نہیں‘‘ کچھ عرصہ قبل انہوں نے جس طرح سندھ کے عظیم شاعر شیخ ایاز کے اردو کلام کو پڑھا اس وقت آرٹس کونسل کے ہال میں یا تو تالیاں تھیں یا خاموشی۔ ضیاء صاحب پیدائشی آرٹسٹ ہیں۔ وہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ تخلیق کا مطلب فائن آرٹس کی سرحدوں سے ماورا ہوتا ہے۔ ضیاء صاحب نے ہمیں اپنی ہر ادا سے اور ہر صلاحیت سے یہ بات سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ جو کام بھی محبت سے کیا جائے تو تخلیق بن جاتا ہے۔ پھر وہ خاموشی ہی کیوں نہ ہو۔ ضیاء صاحب جدید شاعری کو پسند کرتے ہیں مگر کلاسیکل شاعری سے انہیں جو لگاؤ ہے اس کی گہرائی صرف وہ ہی جان سکتے ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ضیاء صاحب اردو زبان کے اسیر ہیں۔ ضیاء صاحب جو اردو زبان سے والہانہ محبت ہے مگر وہ ایسے غواص ہیں جو صدف سے زیادہ گہر میں دلچسپی رکھتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ضیاء صاحب نے اپنے بارے میں کہا تھا کہ اگر انہیں تنہا کسی جزیرے پر بھیجا جائے اور انہیں صرف ایک کتاب اٹھانے کی اجازت ہو تو وہ شیکسپیئر کی کلیکشن اٹھائیں گے اور اگر انہیں ایک اور کتاب اٹھانے کی اجازت مل جائے تو وہ کتاب ہوگی غالب کے خطوط۔ نظم کو پڑھنا مشکل نہیں ہے۔ کیوں کہ نظم میں جو اندرونی موسیقی ہوتی ہے وہ پڑھنے والے کی مدد کرتی ہے۔ مگر نثر کو پڑھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ضیاء صاحب کا یہ کمال ہے کہ نثر کو بھی اس طرح پڑھتے ہیں گویا نظم ہو۔ ان کی یہ صلاحیت اس وقت درجہ کمال پر پہنچ جاتی ہے جب وہ مرزا غالب کے خطوط پڑھتے ہیں۔ مرزا غالب کے خطوط میں جوان کی کیفیت ہے جو ان کا اسلوب ہے ضیاء صاحب انہیں اپنی آواز کی مٹھی میں قابو کرکے ماحول کو جادو بھری گھڑی میں قید کردیتے ہیں۔ ہمارے لیے یہ بات بڑے فخر اور مسرت کی ہے کہ ضیاء صاحب مرزا غالب کے خطوط کو اپنے مخصوص انداز میں پڑھنے کے لیے ’’ناپا‘‘ (napa) کی طرف سے کراچی میں ایک پروگرام منعقد کر رہے ہیں جس پروگرام کا عنوان ہے ’’نوائے سروش‘‘ ؎ آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں غالب سریر خامہ نوائے سروش ہے مرزا غالب کے لیے اپنی محبت کا اظہار کرنے کے لیے یہ پروگرام جو ہو رہا ہے میری خواہش ہے کہ اس پروگرام میں بھرپور شرکت کی جائے۔ کیوں کہ یہ پروگرام ہمیں اپنے جڑوں سے جوڑنے کی بھرپور کوشش ہے۔ ہم تاریخ کے طوفان میں اکھڑی ہوئی روحیں ہے۔ ہم کو اپنی جڑوں کو تلاش کرنا ہے۔ اس طرح تلاش کرنا جس طرح شیخ ایاز نے لکھا ہے: ’’اے ہواؤ! انہیں بتاؤ کہ میں بوڑھے برگد کی چھاؤں سے کتنا/اپنے بچپن سے پیار کرتا ہوں/اپنی رگ رگ کو ریشے ریشے کو/ان جڑوں پر نثار کرتا ہوں/چاند جب چیت کے مہینے میں/اپنی کرنیں بکھیر دیتا ہے/کتنی صدیوں کی میں مسافت کو/ایک لمحے میں پار کرتا ہوں‘‘ وقت بہاؤ ہے۔ یہ بہاؤ کبھی نہیں رکتا۔ یہ چلتا رہا ہے۔ یہ چل رہا ہے۔ یہ چلتا رہے گا۔مگر اس بات کو دل میں اتارنے کی ترکیب جس طرح ہمیں ضیاء صاحب نے بتائی ہے اس کو بار بار سننا بھی ایک عظیم لطف ہے۔ ضیاء صاحب نے ساری زندگی فن کی خدمت کی ہے۔ ان کی پوری زندگی فیض صاحب کے اس شعر کی طرح گذری ہے: جو تیرے زلف کے اسیر ہوئے ان کو تشویش روزگار کہاں؟ درد بیچیں گے گیت گائیں گے اس سے خوش بخت روزگار کہاں؟ ضیاء صاحب نے اس روایت کو napa کی بنیاد میں رکھا ہے۔ یہ ادارہ ہمارے لیے ان کا تحفہ ہے۔ اس ادارے کی حفاظت صرف حکومت کا نہیں عوام کا بھی فرض ہے۔