ہمارے ہاں ’’سیاست‘‘ کا لفظ ایک گالی کی سی حیثیت اختیار کرچکا ہے اور اس کوچہِ خراباں میں نوجوانوں کا قدم دھرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ تاہم کچھ عرصہ سے پاکستان میں یہ تصور پنپ رہا ہے کہ مقتدر اشرافیہ ملک میں سیاسی سماج کی تشکیل پر یقین رکھتی ہے اور اس مقصد کے لیے وہ نوجوانوں کو متحرک کرنے اور ان میں بیداریِ شعورپیدا کرنے پر مائل نظرآتی ہے۔ دوسری طرف یہ رائے بھی سامنے آتی ہے کہ یہ سچ ادھورا ہے، مقتدر اشرافیہ سیاست پر یقین ضرور رکھتی ہے لیکن وہ اسے مخصوص طبقات تک محدود رکھنا چاہتی ہے۔ پاکستان کا سیاسی میدان ایسے مختلف النوع نظریاتی، مذہبی اور سیاسی آرا و خیالات کے لیے کھلا ہے جو مقتدر اشرافیہ کے مفادات سے میل کھاتے ہیں، لیکن متبادل، ترقی پسند اور تنقیدی نظریات و افکار کے لیے یہاں جگہ انتہائی محدود ہے۔مقتدراشرافیہ کے نزدیک سیاست اپنی عملداری کو یقینی بنانے اور اختیار و اقتدار مستحکم کرنے کا نام ہے جسے عوام کے سیاسی حقوق اور سیاسی مضبوطی و استحکام سے کوئی ناطہ نہیں ہے۔ ان کے نزدیک ’’حقوق کی سیاست‘‘ دراصل دشمنوں کی چال ہے جس سے ریاست کے خلاف نسل در نسل مخاصمت کا رجحان جنم لیتا ہے۔ طلبہ یونینز ہوں یا تجارتی انجمنیں، حقوق کے نام پر سیاسی عمل میں حصہ لینے والی تمام تر قوتوں کو کھڈے لائن لگا دیا گیا ۔ طاقتور اشرافیہ کا خیال ہے کہ ان کی اس کوشش سے لوگ ایک جیسا سوچنے لگیں گے اور ان میں اشرافیہ مخالف رویے جنم لیں گے۔ ذرائع ابلاغ کے بعد تعلیمی ادارے ایسی جگہیں ہیں جہاں مقتدر اشرافیہ اپنا تسلط قائم کیے ہوئے ہے۔ واقفانِ حال جانتے ہیں کہ اسلام آباد یا دیگر صوبائی دارالحکومتوں کے اعلیٰ سطحی پالیسی ساز اجلاسوں اور مکالموں میں طلبہ یونینز کی بحالی کا موضوع گویا حرام ہے۔ بیوروکریسی سے لے کر تعلیمی اداروں کے منتظمین و اساتذہ، سبھی طلبہ کی طاقت کے تصور سے سہم جاتے ہیں۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ انہی طبقات کو مذہبی، سیاسی اور کالعدم جماعتوں کی طلبہ تنظیموں سے کوئی مسئلہ نہیں ہے اور وہ تعلیمی اداروں میں کھلے عام سرگرم ہیں۔ ایک نقطہِ نظر کے مطابق یہ تنظیمیں انتظامیہ یا اساتذہ میں موجود ہم خیال افراد کی شہہ پر کام کرتی ہیں۔ یہ خیال بھی پیش کیا جاتا ہے کہ مقتدر اشرافیہ کو بھی ان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے کیوں کہ مذکورہ تنظیمیں ان کے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے یا ان مفادات کو زک پہنچائے بغیراپنی بقا قائم رکھنے کا ہنر سیکھ چکی ہیں۔ متفقہ قواعد و ضوابط کی بنیاد پر مناسب طرح سے منظم اور فعال طلبہ یونینزکا وجود نوجوانوں میں انتہا پسندی کے عمل کو روکنے کے لیے کارگر ثابت ہوسکتا ہے۔ اسی طرح اگر صوبائی حکومتیں اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کو یقینی بناتی ہیں تو اس سے بھی متعلقہ میدانوں میں نوجوانوں کی ضروریات کی تکمیل کا سامان بہم پہنچایا جا سکتا ہے بعض تنظیموں کی موجودگی نے تعلیمی اداروں میں انتہا پسندی کو پروان چڑھانے میں کردار ادا کیا ہے، جبکہ اس کے برعکس متفقہ قواعد و ضوابط کی بنیاد پر مناسب طرح سے منظم اور فعال طلبہ یونینزکا وجود نوجوانوں میں انتہا پسندی کے عمل کو روکنے کے لیے کارگر ثابت ہوسکتا ہے۔ اسی طرح اگر صوبائی حکومتیں اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کو یقینی بناتی ہیں تو اس سے بھی متعلقہ میدانوں میں نوجوانوں کی ضروریات کی تکمیل کا سامان بہم پہنچایا جا سکتا ہے۔ طلبہ یونینز کی بحالی کے منفی نتائج و مضمرات کے حوالے سے مقتدر اشرافیہ کا موقف کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ ان کے نزدیک طلبہ یونینز کی بحالی سے تشدد اور تعلیمی اداروں کے ماحول میں خرابی جنم لیتی ہے۔ دوسری طرف کا موقف بھی انتہائی واضح اور موزوں ہے جو 80ء کی دہائی میں جنم لینے والی اسلحہ ثقافت اور سیاست سے متعلق فوجی آمروں کے مخصوص نقطہِ نظر کا حوالہ فراہم کرتا ہے۔ تاہم اصلاحِ احوال کے ذرائع و مواقع موجود ہیں۔ طلبہ کو سیاست میں شمولیت پر مائل کرنے کے لیے متعدد تنظیمیں تعلیمی اداروں میں کام کررہی ہیں۔ وہ طلبہ یونینز کے لیے نئے قواعد و ضوابط بھی سامنے لے آئی ہیں تاکہ تعلیمی اداروں کے سیاسی ماحول کوآزاد و خود مختار اور محفوظ بنایا جا سکے۔ سرکاری تعلیمی اداروں کی سکیورٹی کے عمل اور نجی تعلیمی اداروں کے کاروباری رجحانات نے ملک میں طلبہ سیاست کی بحالی کی بحث کو مزید مشکل بنا دینے میں کردار ادا کیا ہے۔ پاکستانی نوجوانوں میں تین طرح کے سیاسی رجحانات نے جنم لیا ہے۔ اولاً پبلک سیکٹر تعلیم کے بارے میں ان کی خوش فہمی کو ختم کیاہے۔ گذشتہ تین دہائیوں میں نوجوان عسکریت پسندی اور انتہا پسند جماعتوں کاآسان ’’ہدف‘‘ رہے ہیں۔ وہ عسکریت پسندی اور قوم پرستی کے غلط بیانیوں کا بری طرح شکار رہے ہیں، جس سے ان کی ذات کو کوئی فائدہ پہنچا ہے نہ ہی ریاست کو ان سے کچھ حاصل ہو پایا ہے۔ اس کے برعکس شاید یہ بے سمت نوجوان مذہبی و سیاسی جماعتوں کیلیے سیاسی سرمایہ کاری کا بہترین میدان رہے ہیں۔ 90ء کی دہائی کے اوائل میں جماعتِ اسلامی نے نا انصافی کے خلاف نوجوانوں کو ’’پاسبان‘‘ کے پلیٹ فارم سے اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی، تاہم اس تحریک کو وہ انتخابی کامیابی میں تبدیل کرنے میں ناکام رہی۔ طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک بھی اسی نوعیت کی ایک مثال ہے۔ ان جماعتوں کے بیانیے مگرسیاسی سرمائے کے طور پر اسٹیبلشمنٹ کے لیے بے حد سود مند رہے۔ان جماعتوں کے کئی رہنما اور قائدین 90ء کی دہائی میں اسٹیبلشمنٹ کی پروردہ سیاسی جماعتوں میں شامل رہے۔دوسرا رجحان طلبہ مدارس کے اندر موجود رہا ۔ طلبہ مدارس کی موجودہ نسل سیاسی گنجائشوں اور مواقع کی جانب متوجہ ہوئی ہے۔ ممکن ہے انہیں اس بات سے غرض نہ ہو کہ انہیں یہ سیاسی مواقع کون فراہم کرتا ہے لیکن جمعیت علماے اسلام (ف) ان کی نبض پر ہاتھ رکھ چکی ہے۔ تیسرا سیاسی رجحان 90ء کی دہائی کے اواخر اور اکیسویں صدی کے پہلے عشرے کے اوائل میں نجی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل نوجوانوں میں پیدا ہوا جن کے والدین کو مابعد نائن الیون پاکستان میں شعبہ خدمات ِ عامہ کے پھیلائو سے کافی فائدہ پہنچا تھا۔ موجودہ حکمران جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کو اس رجحان کے باعث سب سے زیادہ فائدہ پہنچا۔ عمران خان حالیہ پاپولسٹ رجحانات کے گرویدہ متوسط طبقہ کے لیے سیاسی رومانویت کا استعارہ بن کر سامنے آئے۔ یہ طبقہ سیاسی طور پر خود مختار اور ثابت قدم پاکستان دیکھنا چاہتا ہے۔ یہ طبقہ کسی بھی ذمہ داری اور باہمی تعامل کے بغیر عالمی تعلقات سے فائدہ اٹھانے کی آرزو رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ لوگ عالمی گنجائشوں اور مواقع کی مدد کی موجودگی کے ساتھ خود انحصار معیشت کی تمنا کریں گے لیکن عالمی حوالے سے جذباتی ردِ عمل اور اپنی کوتاہیوں کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالنے کی نفسیات سے باہر نہیںآئیں گے۔ پاکستان کی حالیہ سیاسی تاریخ انہی تین طرح کے رجحانات کے گرد گھومتی ہے۔ ہم صرف یہ تمنا ہی کر سکتے ہیں کہ پاکستان میں سیاسیآوازوں اورآرزوئوں کے ساتھ سیاسی طریقے سے معاملات طے کرنے کا رجحان پیدا ہو سکے۔