سینئر سیاستدان اور دانشور قیوم نظامی نے نوجوانی میں سماج بدلنے کے لئے ذوالفقار علی بھٹو کا ساتھ دیا۔ بھٹو صاحب کے ساتھ جب گورنر ہائوس میں پہلی ملاقات ہوئی تو نظامی صاحب پیپلز پارٹی لاہور کے عہدیدار تھے۔ مجھے ان کی یہ بات اچھی لگی کہ انہوں نے دیگر سیاستدانوں کی طرح ایسی ملاقات کو اپنی کتابـ، جو دیکھا جو سنا ، میںبڑھا چڑھا کر بیان نہیں کیا۔ وہ طویل عرصہ اس جماعت کا حصہ رہے‘ مرکزی سیکرٹری اطلاعات مقرر ہوئے‘ وزیر مملکت کے مساوی عہدہ پایا ، نگران وزیر رہے۔ نظامی صاحب نے فاروق لغاری کی ملت پارٹی میں شمولیت اختیار کر کے ممکن ہے کچھ مثبت سوچا ہو لیکن یہ جماعت جلد ہی بے نشان ہو گئی۔ نظامی صاحب کو لگتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے اندر موروثی اور خاندانی قیادت کا تصور جمہوریت کی روح کے خلاف ہے۔ وہ سیاسی جماعتوں میں نامزدگی کی بجائے ووٹ کے ذریعے منتخب ہونے کے طریقہ کار کو رائج دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ جو بھی سیاسی جماعت عوام کی خدمت کے لئے سامنے آئے اسے اپنا منشور تیار کرکے عوام تک پہنچانا چاہیے۔ یہ کوئی پندرہ سولہ سال پہلے کی بات ہے جب نظامی صاحب نے مجھے جہانگیر بدر کی کتاب’’ہائو ٹی بی اے لیڈر‘‘ عطا کی۔ میں نے اس کتاب پر تبصرہ لکھا تو نظامی صاحب جہانگیر بدر مرحوم کو لے کر میرے دفتر آئے۔ جہانگیر بدر سے تعلق اور دعا سلام کی یہ ابتدا تھی۔ ایک بار میں ،فیصل میر اور بشیر ریاض صاحب جہانگیر بدر کے ہاں گئے تودیسی لباس میں ملبوس جہانگیربدر نے گرمجوشی سے استقبال کیا۔ ان کی بیگم نے فوراً پراٹھے بنا کر میز پر بھیجے۔ خیر ذکر قیوم نظامی صاحب کا ہو رہا تھا۔ نظامی صاحب سیاست سے کنارہ کش ہو کر تصنیف و تالیف کی طرف آئے۔ ان کی دلچسپی کا مرکز سیرت رسولؐ کے مختلف گوشے اور قائد اعظم محمد علی جناح کی جدوجہد ہے۔ اس دوران انہیں اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ پاکستانی نوجوانوں کو سیاسی طور پر مختلف گروہ استعمال کر رہے ہیں۔انہیں لگا کہ نوجوانوں کی توانائی خاندانی سیاست کی خدمت میں جھونک دی گئی ہے۔ان کی بھرپور قوت کو قومی اور ریاستی مفادات کے لئے استعمال نہیں کیا گیا، ہمیشہ سے نوجوانوں کو فعال دیکھنے کے آرزو مند قیوم نظامی نے کالموں کی شکل میں اپنے تجربات اور تجزیہ پیش کرنا شروع کیا۔ انہیں بہت سے نئے قاری اور قدر دان تو میسر آئے لیکن بھلا سوچ تبدیل کیسے ہوتی۔ الٹا ان کے کئی سابق ساتھی سیاستدان اور کارکن ان کی سیاسی جدوجہد اور موجودہ موقف پر اعتراض کرتے دکھائی دیتے۔ یہ صورت حال حوصلہ شکن ہو سکتی تھی لیکن پھر ہم نے دیکھا کہ قیوم نظامی صاحب نے اس بزرگی میں فیس بک پر جاگو تحریک کے نام سے پوسٹیں ڈالنا شروع کیں۔ چند ماہ پہلے تک یہ ساری تحریک قیوم نظامی کی تنہا ذات تھی مگر اب ہزاروں نوجوان اس کا حصہ بن چکے ہیں۔ لاہور ‘ شیخو پورہ‘ اوکاڑہ‘ قصور اور دیگر قریبی اضلاع میں تنظیم مقبول ہو رہی ہے۔ جاگو شعوری بیداری کی تحریک ہے۔یہ تحریک ایسے پر عزم افراد کو آگے آنے کا موقع دے رہی ہے جو خلوص نیت کے ساتھ صرف ملکی بہتری کا کام کرنا چاہتے ہیں۔ اس کا مشن عوام کی سیاسی‘ سماجی اور اخلاقی تربیت کرنا‘ عوام کو بیدار‘ باشعور اور منظم کرنا‘ سٹیٹس کو پر مبنی نظام کو تبدیل کرنا‘ علامہ اقبال اور قائد اعظم کے تصورات کے مطابق نظام کا نفاذ‘ اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق جمہوری اور فلاحی ریاست کا قیام‘ سماجی جمہوریت اور منصفانہ معیشت کا قیام ہے۔ جاگو تحریک کے منشور میں شامل ہے کہ صحت و تعلیم کی مفت معیاری سہولتیں فراہم کی جائیں گی‘ نوجوانوں کی تربیت اور ہنر اور توجہ دی جائے گی‘ خواتین کے لئے مساوی مواقع ہوں گے اور مزدوروں‘ کسانوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔ جاگو تحریک لاہور کے صدر شیراز الطاف ایک متحرک نوجوان ہیں۔ ملنے کے لئے آئے تو کئی معاملات پر گفتگو ہوئی۔ میں نے بتایا کہ نظامی صاحب نے برسوں پہلے مجھے ایک قیمتی قلم کا تحفہ دیا تھا،شیراز کی قیادت میں جاگو تحریک لاہور پریس کلب کے سامنے ایک پرامن مظاہرہ کر چکی ہے۔ وہ بتا رہے تھے کہ ہر روز نوجوان اس تحریک کا حصہ بن رہے ہیں۔ شیراز نے بتایا کہ وہ نوجوان جو سیاست اور عوامی بہبود کو ایک سنجیدہ کام سمجھ کر اپنا فعال کردار ادا کرنا چاہتے ہیں انہیں جاگو تحریک کے منشور اور طربقہ کار سے جلد اتفاق ہو جاتا ہے۔ کیا ستم ہے کہ ہماری حکومتیں نوجوانوں کے نام پر اپنے چہیتوں کو قرض ہڑپ کرنے کی چھوٹ دیتی رہی ہیں،نوجوانوں کی بہبود کی وزارت بنائی گئی لیکن اس کا کام اور کارکردگی اگر کسی کے علم میں ہو تو ضرور بتائے،موجودہ حکومت نے بھی ایک ساہوکار کو نوجوانوں کے امور سونپ رکھے ہیں۔انہوں نے ٹائیگر فورس بنانے کا اعلان کیا۔ پی پی ، ن لیگ ، جماعت اسلامی سے لے کر علاقائی جماعتوں تک کے پاس یوتھ ونگ ، طلبا ونگ ہیں لیکن آج تک یہ ونگ نعرے بازی اور بوقت ضرورت ہنگامی آرائی کے سوا کیا کر سکے۔بے سمت اور بنا مقصد کے کسی طاقت کا استعمال ایسے ہی ناکام نتائج دیتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ جاگو تحریک بہت جلد ایک قابل ذکر کردار ادا کرنے کے قابل ہو جائے گی۔ نوجوانوں کو کئی بزرگ اور سینئر سیاستدانوں کے علاوہ دانشوروں‘ محققین ،صحافیوں اور ریٹائرڈ سرکاری افسروں کے معلوماتی لیکچر سننے کو ملتے ہیں‘ سٹڈی سرکل کی طرز پر نوجوانوں کے سامنے ایک قومی مسئلہ رکھا جاتا ہے اور پھر اسے حل کرنے کے تمام قانونی طریقوں کو آزما کر نتائج اخذ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔جاگو تحریک کے روشن مستقبل کے لئے دعا گو ہوں ۔