مدرسہ ڈسکورسز کے نام پر جاری فکری مشقِ ستم کا حاصل ایک بنیادی سوال ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے تہذیبی اداروں کی فکری تشکیل نو، کیا اب نوٹرے ڈیم یونیورسٹی کی سرپرستی میں ہو گی؟ وہ یونیورسٹی جس کا تعارف محض مسیحی یونیورسٹی ہونا نہیں بلکہ کیتھولک کی فرقہ وارانہ شناخت بھی جس کے ہمراہ ہے؟ فکر کی دنیا میں جمود کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔اداروں کی تشکیل نو بھی ایک فطری عمل ہے اور ضرورت محسوس ہو تو اس کا انکار نہیں کیا جانا چاہیے۔شعور ِ انسانی بھی مشترکہ انسانی ورثہ ہے اور علم کی دنیا میں کسی غیر ملکی یونیورسٹی سے اشتراک کار بھی کوئی عیب کی بات نہیں۔ لیکن فقیہانِ عصر کے ’ مدرسہ ڈسسکورسز‘ کا معاملہ الگ ہے اور خاصا سنگین ہے۔ اس واردات سے محض اس لیے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا کہ یہ مدارس کا معاملہ ہے اور ہم اہل مدرسہ نہیں۔سچ یہ ہے کہ یہ محض مدارس کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ ہماری تہذیبی روایت کا مسئلہ ہے۔تہذیبی روایت اور شناخت کے بارے میں حساسیت ایک فطری عمل ہے ۔ اس حساسیت کی نفی میں کسی کی یہ دلیل کافی نہیں کہ یہ ’’ ہمارا ‘‘ مسئلہ ہے اور ہمارے ’’ جملہ حقوق محفوظ‘‘ ہیں۔ جس تہذیب میں ’ فری لنچ‘ کا کوئی تصور نہیں اس تہذیب کی ایک نمایاں کیتھولک مسیحی یونیورسٹی کی آخر ہمارے مدارس میں کیا دلچسپی ہے؟ مدارس کی فکر میں وہ کون سی اصلاح ہے جو حضرت مولانا سرفرازخان صفدر جیسے اکابرین کر سکے نہ مولانا زاہد الراشدی جیسے صاحب علم اوراب ایک کیتھولک مسیحی یونیورسٹی کو فکری تشکیل نو کا بھاری پتھر اٹھانا پڑ رہا ہے۔یہ ہمارے تہذیبی اداروں کی کیسی تشکیل نو ہے جس کا خیال ہمارے اکابرین کو تو نہ آیا مگر ایک کیتھولک مسیحی یونیورسٹی اس ’ نیک کام‘ کے لیے بے قرار ہو گئی؟ مولانا سرفراز خان صفدر کوئی معمولی شخصیت نہ تھے۔ خود مولانا زاہد الراشدی کی علمی و فکری وجاہت بھی مسلمہ ہے۔ان کی فکری مسند بھی موجود ہے اور میراث بھی۔ حلقہ اثر بھی معمولی نہیں اور الشریعہ کی شکل میں ایک معتبر جریدہ بھی موجود ہے۔پھر کیا وجہ ہے کہ فکر کی تشکیل نو کے لیے یہ شخصیات خود سامنے نہیں آئیں اور نوٹرے ڈیم یونیورسٹی کو یہ کام کرنا پڑا۔ یہ کام اگر ضروری تھا تو ہمارے اپنے اکابرین نے کیوں نہیں کیا؟ان کے پاس وسائل بھی تھے ، حلقہ اثر بھی تھا اور علمی وجاہت بھی۔کیا ہی اچھا ہوتا یہ کام ہمارے اکابرین خود کرتے۔ علم کی دنیا میں غیر ملکی جامعات سے اشتراک کار میں کوئی برائی نہیں۔لیکن مدارس کا معاملہ الگ ہے۔ نوٹرے ڈیم یونیورسٹی کی اس معاملے میں دلچسپی سوالات پیدا کر رہی ہے کیونکہ مدرسہ مسلم تہذیب کا معاملہ ہے ۔مغرب اداروں کی سرپرستی میں اس قماش کے جتنے منصوبے بھی سامنے آئے ان کا بنیادی ہدف ’ ویسٹرنائزیشن آف مسلم سوسائٹیز ‘ رہا۔ یہ سوال پیدا ہونا فطری امر ہے کہ اب کیا مدارس کی ’ ویسٹر نائزیشن‘ کا عمل شروع ہو چکا ہے؟ کیاایک نیا رجحان سامنے آ رہا ہے ؟مغرب نے مسلم سماج کی فکری سمت پر اثر انداز ہونے کے لیے این جی اوز پر بہت سرمایہ کاری کی لیکن یہ مطلوبہ نتائج مہیا نہ کر سکی۔ان کی حرکتوں سے ایک رد عمل پیدا ہوا۔ تو کیا اب براہ راست مذہبی طبقے پر سرمایہ کاری کی جا رہی ہے اور کیا اب اسلامی این جی اوز متعارف کرائی جا رہی ہیں تا کہ براہ راست معاملہ کیا جائے؟ہم جیسے لوگ سوال اٹھائیں تو جواب آ ئے : ہمارے مدرسہ ڈسکورسز پراہل مدرسہ کو تو کچھ تشویش نہیں ، آپ کو اتنی تکلیف کیوں ہے؟ اہلِ مذہب کے تضادات بھی نمایاں ہیں۔ پاکستان کی حکومت کو تو یہ حق نہیں دیا جاتا وہ مدارس یا اس سے متصل نظام کے بارے میں کوئی مداخلت کرے لیکن ایک کیتھولک مسیحی ادارے کو یہ مکمل آزادی ہے کہ اس کے پاس اگر وسائل موجود ہیں تو ’ مدرسہ ڈسکورسز‘ پورے جذبہ مجتہدانہ کے ساتھ آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ مذہبی حلقوں کی باہم محبت کا یہ عالم ہے کہ ہر مکتب فکر کا اپنا مدرسہ بورڈ ہے ، یہ مل کر ایک امتحان تک نہیں لے سکتے،لیکن دوسری طرف وارفتگی کا عالم یہ ہے کہ ایک کیتھولک مسیحی ادارے کے ڈسکورسز پر یہ جی جان سے فدا ہیں۔ ایک عام نوجوان کو دار الاسلام اور دارالحرب کی بحثوں میں الجھایا جاتا ہے، حکومت کا ہر اقدام مغربی سازش قرار دے کر رد کیا جاتا ہے ، ہر حکومت یہودو نصاری کی ایجنٹ قرار پاتی ہے ، غریبوں کے بچوں کو فاقے کے فضائل یاد کرائے جاتے ہیں لیکن اکابرین کو جب موقع ملتا ہے یہ مغرب اور اس کے اداروں کے ساتھ اشتراک عمل کر لیتے ہیں۔ اس تضاد کو کیا نام دیا جائے۔ اس میں کسی مکتب فکر کی کوئی تخصیص نہیں۔ مغرب کو جی بھر کر گالیاں دینے کے بعد جس جس مذہبی رہنما کو مغرب کے ساتھ باہمی دلچسپی کے امور طے کرنے کا موقع ملا اس نے کسی نہ کسی مغربی ادارے سے اشتراک کیا تا کہ پورے سکون کے ساتھ علم کی تشکیل نو فرمائی جا سکے۔ جس حکومت کو پاکستان میں طاغوت کہا جاتا رہا ان حکومتوں میں اہم اداروں کی سربراہی بھی لے لی جاتی ہے ۔مشرف کی حکومت بھلے سے مغرب کی آلہ کار ہو لیکن پرویز الہی اگر لاہور میں ایک ادارہ بنا دیتے ہیں تو جید علمائے کرام اس کی سربراہی قبول کرنے میں بد مزہ نہیں ہوتے۔حکومت کو اپنے معاملات میں مداخلت کا حق نہیں دینا لیکن حکومتی منصب سے یوں ہم آغوش رہنا ہے کہ کبھی کوئی ان منصب پر تنقید کر لے یا اتنا ہی پوچھ لے کہ قبلہ آپ کی ریٹائرمنٹ کا چاند کب طلوع ہونا ہے تو حضرات بد مزہ ہو کر جواب الجواب میں دیوان لکھ دیتے ہیں۔ ہم این جی اوز کو روتے تھے کہ کتنی این جی اوز ہیں ، کہاں کہاں سے فنڈ آ رہا ہے ، ایجنڈا کیا ہے ، فنڈ کہاں استعمال ہو رہا ہے اب مغرب نے مذہبی این جی اوز متعارف کروا دی ہیں۔اب کیتھولک مسیحی یونیورسٹی پاکستان کے مدارس کی فکری تشکیل نو فرمائے گی۔ ابن انشاء نے شاید درست ہی کہا تھا : ’’ معلوم ہمیں سب قیس میاں کا قصہ بھی سب ایک سے ہیں ، یہ رانجھا بھی ، یہ انشاء بھی فرہاد بھی جو اک نہر سی کھود کے لایا ہے سب مایا ہے ‘‘