’’دہلی کے نظام الدین اولیاء کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ایک جملہ ’ہنوز دلی دور است‘ کہا تھا۔جس میں ان کا اشارہ ایک حکمراں کی جانب تھا جو نظام الدین اولیا ء کو سبق سکھانے کے لئے دِلّی آنا چاہتا تھا۔اس حکمراں کو دلی آنے سے پہلے ہی قتل کردیا گیا۔میں دعا کرتا ہوں ہم اور ہمارا شہر تباہی سے بچا رہے۔‘‘ برصغیر پاک و ہند کے عظیم لکھاری اور صحافی خشونت سنگھ کی یہ تحریر 92نیوز کے میگزین میں پڑھتے ہوئے بے ساختہ اسلام آباد میں حضرت مولانا کے مارچ کی طرف خیال چلا گیا۔حضرت مولانا کواللہ تعالیٰ طویل حیاتی دے، اور ان کے نیک مقصد کے لئے بھی دعا گو ہوں۔مگر حضرت مولانا کے مارچ پر ادھر ہفتوں سے ہر ہر پہلو سے اتنے کالم پہ کالم سیاہ کئے جارہے ہیں کہ اس پر کوئی نئی بات نہیں سوجھ رہی تھی ۔۔ ۔ کہ کالم کا پیٹ کس طرح بھرا جائے ۔رات کے آخری پہر میں خشونت سنگھ کی اس سوانح نے پکڑ لیا: The Lessons from my Lifeخشونت سنگھ نے یہ سوانح 98سال کی عمر میں باہوش و حواس لکھی تھی۔ ساری دنیا میں بلا رنگ و نسل اور مذہب اُن کے پڑھنے والوں کی خواہش تھی کہ وہ اپنی سوویں سالگرہ یعنی centuryبھی دھوم دھام سے منائیں۔مگر افسوس کہ ہماری صحافت کی نابغہ روزگار شخصیت 99سال کی عمر کو پہنچ کر زندگی سے آؤٹ ہوگئی۔ادھر جو ہمارے ہاں، ابھی ساٹھ کی عمر کو پہنچتے نہیں،کہ سٹھیانے کی پھبتی اور عملی زندگی سے ریٹائر ہونے کی نوید سنائی دینے لگتی ہے۔خشونت سنگھ کے ساتھ ہی پنڈی سازش کیس فیم ظفر اللہ پوشنی یاد آگئے جو ستمبر میں ہونے والے اسلام آباد ادبی میلہ میں اپنی کتاب کی تقریب ِ رونمائی میں تیز تیز قدموںسے چلتے ہوئے اسٹیج پر کھڑے اپنی کراری آواز میں کہہ رہے تھے : "I am 94..." ’’اور میری اگلی کتاب کی آئندہ سال رونمائی کراچی کے ادبی میلے میں ہوگی۔‘‘ خشونت سنگھ کی زندگی سے بھرپور شخصیت اور ان کے ڈھیروں اور انکے ڈھیروں ڈھار کتابوں اور کالموں پر لکھنے کے لئے ایک کالم نہیں ۔ ۔۔ ایک کتاب بھی کم ہوگی۔مگر ان کی سوانح کا یہ باب تو لگتا ہے کہ جیسے وہ آج کے پاکستان کے حالات ِ حاضرہ پر لکھ ر ہے ہوں۔بڑے اور عظیم ادیبوں ،دانشوروں کی عظمت اور خوبی ہی یہ ہوتی ہے کہ ان کی تحریریں سالوں نہیں صدیوں زندہ جاوید رہتی ہیں۔خشونت سنگھ کے انتقال کو یہی کوئی پانچ سال ہونے کو آرہے ہیں۔مگر لگتا ہے کہ وہ آج کے پاک و ہند کے سیاسی اتار چڑھاؤ ،حکمرانوں اور معاشروں کی بے حسی اور گراوٹ کی منظر کشی کرر ہے ہیں۔خشونت سنگھ لکھتے ہیں: ’’اس وقت مجھے، سب سے زیادہ فکر ہے تو وہ ملک میں بڑھتی ہوئی عدم رواداری پر ہے۔ہم نصاب کی کتابوں میں اپنی مرضی کے مطابق تبدیلیاں کررہے ہیں۔ان صحافیوں کو پیٹتے ہیں جو ہمارے خلاف لکھتے ہیں۔اگر ہم اپنے ملک سے محبت کرتے ہیں تو ہمیں اسے فرقہ وارانہ قوتوں سے بچانا ہوگا۔اگرچہ لبرل یعنی آزاد خیال طبقہ سکڑ رہا ہے۔لیکن میں امید کرتا ہوں کہ موجودہ اور مستقبل کی نسلیں فرقہ وارانہ اور فاشسٹ پالیسیوں کو مکمل طور پر مسترد کردیں گی۔اگر ہمیں باقی رہنا ہے اور آگے بڑھنا ہے تو ہمیں فرقہ وارانہ بنیادوں پر کام کرنے والی پارٹیوں کو سیاسی میدان سے باہر کرنا ہوگا۔ہمیں ان لوگوں کی تعداد میں بڑے پیمانے پر کمی کرنے کی ضرورت ہے جو زعفرانی چولے پہنتے ہیں۔(عجیب اتفاق ہے کہ حضرت مولانا کے مارچ کے شرکاء کی ملیشیا کا رنگ بھی زردی مائل ہے)یہ پیرا سائٹ ہیں۔جو محنت کشوںکے پیسے پر پلتے ہیں۔مذہبی بنیادوں پر کام کرنے والے رائے عامہ حتیٰ کہ حکومت تک پہ اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ہم قوم کے طور پر تو ہم پسندی کا شکار ہیں۔حتیٰ کہ ذہین لوگ بھی اہم فیصلے کرنے کے لئے شبھ گھڑی کے لئے مہورت نکالتے ہیں پنڈتوں سے رجوع کرتے ہیں۔(عجیب اتفاق ہے کہ ہمارے آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ وزیر اعظم عمران خان بھی پیری مریدی سے رغبت رکھتے ہیںبلکہ اسے کامیابی کی کنجی سمجھتے ہیںاور جو خوش قسمتی سے انکے ہاتھ بھی آگئی)۔ ‘‘ خشونت سنگھ لکھتے ہیں: ’’ہر سیاسی پارٹی کا منشور ہوتا ہے ،جس میں وہ اقتدار میں آنے کے بعد اپنے منصوبوں کا اظہار کرتی ہے۔جیسے غریب کو اوپر اٹھانا،صاف پانی کی فراہمی ،ناخواندگی کا خاتمہ ،روٹی ،کپڑا اور مکان فراہم کرنا اور ہمسایوں سے تعلقات بہتر بنانا۔ ۔ ۔ تاہم یہ منشور شائع ہونے اور الیکشن ختم ہونے کے بعد پارٹی کے آرکائیوز میں رکھ دیا جاتا ہے جہاں ان پر گرد جمع ہوتی رہتی ہے ۔اگلے الیکشن پر ان کو دوبارہ نکالا جاتا ہے اور الیکشن کے بعد پھر واپس رکھ دیا جاتا ہے۔ ۔ ہمارے ہاں سیاسی اخلاقیات کی کوئی پرواہ نہیں کرتا ۔یہی وجہ ہے کہ ہوشیار ترین تجزیہ کار بھی الیکشن کے حوالے سے اپنی پیش گوئیوں میں غلط ثابت ہوجاتا ہے۔اقتدار کی بھوک اور پیسے کا لالچ Horse tradingکی وجہ بنتا ہے۔وہ سیاست دان جو ایک دوسرے پر تنقید کرتے نہیں تھکتے تھے، ایک دوسرے سے گلے ملتے دکھائی دیتے ہیںکیونکہ سیاسی پارٹیوں کو اتحاد کی ضرورت ہوتی ہے ۔ساری صورتحال میں بے چارہ سادہ لوح عام آدمی کیاکرے۔ہم ہمیشہ سے اپنے ملک میں کرپشن کا رونا روتے رہے ہیں۔ہم دنیا کے دس کرپٹ ترین ملکوں میں سے ایک ہیں۔کرپشن ہمہ جہت ہے،ہر طرف ہے۔یہ ایک ایسی بیماری ہے جو مدتوں سے ہمیں لگی ہوئی ہے اور اس کا کوئی معجزاتی علاج بھی نہیں۔لیکن ہم خود کو یہ کہہ کر تسلی دیتے ہیں کہ بھارت میں حالات اس سے زیادہ خراب ہیں۔کرپشن کا جو نمونہ ہے اس میں دونوں ملکوں میں قابلِ ذکر حد تک فرق دکھائی دیتا ہے۔انڈیا میں حکومت کی بالائی تہہ یعنی عدلیہ اور بیوروکریسی نسبتاً دیانت دار ہے۔جبکہ نچلی سطح میں سب سے زیادہ کرپشن ہے۔اور یہ سب سے زیادہ بے ایمان ہے۔پاکستان میں صورتحال اس کے برعکس ہے۔اس کی مرکزی اوپری سطح سب سے زیادہ بددیانت ہے۔جبکہ درمیانی اور نچلی ترین سطح پر کرپشن بہت کم ہے۔اس طرح پاکستا ن میں بھارت کے مقابلے میں کرپشن سے منسلک جرائم بھی زیادہ ہیں۔‘‘ یہاں تک پہنچا ہوں تو حضرت مولانا کے مارچ کو کہیں دور پیچھے چھوڑ آیا۔مگر اس وقت بھی جب یہ تحریر لکھ رہاہوں توحضرت مولانااسلام آباد تو پہنچ چکے ہیں مگر بقول شخصے۔ ۔ ۔ ایوان ِ اقتدار کے بارے میں وہی جملہ دہراؤں گا کہ ۔ ۔ ۔ ہنوز اسلام آباد دور اَست تاہم یہ تو اپنی جگہ حقیقت ہے کہ تحریک انصاف کے کپتان وزیر اعظم جو انتہائی حقارت سے حضرت مولانا کو’’ مولانا ڈیزل ‘‘ کا طعنہ دے کر درخور اعتنا نہیں گردانتے تھے ۔ ۔ ۔ آج اس بات پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اُنکی صفِ اول کی ٹیم مولاناکی دہلیز پر ایڑیاں رگڑ رہی ہے۔اور دیکھیں کام بھی کس سے لیا جارہا ہے۔انہی چوہدری برادران سے کہ جو کبھی کے سیاست میں بارہویں کھلاڑی ہوچکے تھے۔یہ کہنا مشکل ہے کہ جب اگلا کالم لکھ رہا ہونگا تو حضرت مولانا کا مارچ پسپا ہوچکا ہوگا یا فتح مندی سے کامیابی حاصل کرچکا ہوگا۔اکثر لکھتا رہا ہوں کہ سیاست میں معجزے نہیں ہوتے۔لیکن حضرت مولانا کی کامیابی تو سیاسی معجزہ ہی کہلائے گی۔