سر نامہ کلام ،کسی حالیہ سیاسی تنائو یا مذہبی کچھائو کا شاخسانہ نہیں،بلکہ ایک اہم تاریخی روایت کا ابلاغ ہے ،جس کی روُ سے برصغیرکی سیاسی اور عمرانی تاریخ میں’’ ھنوز دلّی دور است ‘‘کی حیثیت ایک ایسی ضرب المثل کی ہے،جو صدیوں سے زبانِ زدِخاص و عام ہے ۔ مؤرخین نے اس کے گرد پوری پوری داستانیں آراستہ کیں،بالخصوص عہدِ مغلیہ کے مؤرخین نے اس واقعہ کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ۔ فرشتہ نے لکھا ہے کہ بنگال سے واپسی پر سلطان غیاث الدین تغلق نے سختی سے حکم دیا تھا کہ جب میں دلّی پہنچوں توشیخ نظام الدین اولیائؒ وہاں موجود نہ ہوں ۔حضرت شیخ ؒنے سلطان کو جواب دیا تھا کہ ’’دلّی تو ابھی دور ہے‘‘ اور جب سلطان دہلی کے قریب ، افغان پور پہنچا ،تو عارضی محل(کوشک )جواس کے استقبال کے لئے تیار کیا گیا تھا ،وہ گرا، اور سلطان اُس کے نیچے دب کر ہلاک ہو گیا ۔یحییٰ بن احمد سرھندی نے’’ تاریخ مبارک شاہی‘‘ میں یہ روایت یوں نقل کی ہے کہ جس وقت سلطان غیاث الدین تغلق لکھنوتی کی طرف روانہ ہورہا تھا تو شیخ نظام الدین اولیاء ؒنے فرمایا تھا : ’’دھلی از تو دور است ‘‘ جب سلطان تغلق فتح ونصرت کے ساتھ اپنی مہم سے کامیاب واپس آیا اور افغان پور (دہلی سے تین چار کو س کے فاصلے پر) پہنچا تواس نے فخریہ انداز میں کہا کہ ’’ بر سینۂ دشمن پائے دادہ بسلامت آمدم‘‘ یعنی میں دشمن کے سینے پر پاؤں رکھ کر، بخیر وعافیت واپس آگیا ۔یہ خبر حضرت شیخ ؒکے سمع مبارک (کانوں ) تک بھی پہنچی تو آپ ؒ نے فرمایا: ’’ دھلی از تو دور است ‘‘ یعنی ابھی دہلی تجھ سے دور ہے ‘‘۔ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ کے روحانی ارتکاز کے سبب ’’ دھلی ‘‘ کو بالخصوص چشتیہ سلسلہ کے مرکز اور صدر مقام کا درجہ حاصل ہوا۔ حضرت خواجہ قطب الدینؒ بختیار کاکی ، معین الحق وا لدّین ‘ عطائے رسول حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ کے نامور ‘ معتبر اور ممتاز ترین خلیفہ تھے ۔ انہوں نے تیس برس تک دھلی میں قیام فرمایا، اس قیام میں، بادشاہ وقت سے لے کر ایک عام زائر تک، آپ کے حلقۂ رشد وہدایت سے فیض یاب ہونے والوں میں شامل ہوئے ۔ یہاں تک کہ جب حضرت خواجہ غریب نواز ؒ کی آخری مرتبہ دھلی تشریف آوری پرسرکاری شیخ الاسلام نجم الدین صغریٰ نے خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کی عوامی پذیرائی اور بے پناہ مقبولیت پر اپنے کچھ’’ تحفظات ‘‘کا اظہار کیا تو اس پر حضرت خواجہ غریب نواز ؒنے نجم الدین صغر یٰ کوفرمایا:’’تم اطمینان رکھو میں قطب الدین کو اپنے ساتھ اجمیر لے جاؤں گا‘‘۔ جب دلّی والوں کو یہ معلوم ہوا کہ قطب صاحب اپنے پیر ومرشد کے ساتھ اجمیر کی طرف کوچ کر رہے ہیں تو سارے شہر میں کہرام مچ گیا ۔یہ دونوں بزرگ آگے آگے جارہے تھے اور ان کے پیچھے شہنشاہِ وقت سلطان شمس الدین التتمش اپنی آنکھوں میں آنسو لئے منّت سماجت کر رہا تھا اور اس کے ساتھ ساری خلقِ خدا گریہ کناں تھی ۔جب ایسا کہرام دیکھا تو حضرت خواجہ غریب نواز ؒنے خواجہ قطب الدین ؒسے فرمایا کہ ’’کسی ایک شخص کا دل رکھنے کے لئے خدا کی اتنی مخلوق کا دل توڑنا جائز نہیں ۔ تم دلّی ہی میں رہو‘‘۔ سیر الاولیاء اور سیر العارفین۔ دونوں کے مؤلفین نے بھی اس واقعہ کی تائید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ نے لوگوں کی وارفتگی اور محبت کے سبب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کو نہ صرف دہلی میں قیام کاحکم فرمایا بلکہ یہ تاریخ ساز ارشاد بھی جاری فرمایا : ’’ میں نے اس شہر کو تمہاری پناہ میں چھوڑا ہے ۔‘‘ تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ دہلی کو تاجِ شاہی کی بجائے اس صاحبِ فقر کی مسلسل حفاظت میسر رہی۔ شاہ سے لے کر گدا اور ادنیٰ سے لے کر اعلیٰ تک اس دَر کی حاضری کو اپنے لئے سعادت تصور کرتے تھے۔ سلطانِ وقت ہفتے میں ایک بار ،بذاتِ خود ان کے آستانہ پر حاضری دیتا ۔ حضرت خواجہ قطب الدین ؒ نے سلطانِ وقت شمس الدین التتمش کو ایک دفعہ ہدایت فرمائی :اے والیٔ دہلی ! تجھے چاہیے کہ غریبوں ، فقیروں ، مسکینوں کے ساتھ نیکی سے پیش آئے اور خلقِ خد اکے ساتھ نیکی کرے ،رعایا پرور ہو۔جو بھی اپنی رعیت کے ساتھ رعایت اور خلقت کے ساتھ نیکی کا برتاؤ کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت کرتا ہے اور اس کے دشمن (بھی) اس کو دوست سمجھنے لگتے ہیں ۔ چشتیہ سلسلے کو دھلی دار الخلافہ میں مضبوط مرکزیت عطا کرنے کے حوالے سے حضرت خواجہ قطبؒ کا دہلی میں تیس سالہ قیام ایک تاریخ ساز حیثیت کا حامل ہے۔ہندوستان کی سرزمین میں چشتیہ فیوض و برکات کا جو پودا حضرت خواجہ غریب نواز ؒنے اجمیر شریف میں لگایا تھا اس کی آبیاری حضرت خواجہ قطب ؒ نے دہلی میں خوب فرمائی ۔حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ کا وصال 14ربیع الاوّل 633ھ/ 1235ء میں ہوا۔آپ کے بعد،شیخ کبیر بابا فرید الدین گنج شکرؒ کو آپ کی جانشینی کی سعادت میسر آئی۔طریقت ومعرفت کا وہ شجرِ سایہ دار جس کی آبیاری خواجہ قطب ؒنے فرمائی ، بابا فرید ؒ کے عہد میں وہ ایسا چھتنار درخت بن گیا، جس کے سائے میں خلقِ خدا ۔۔۔کیا ہندو اور کیا مسلمان ،دونوں کو راحت میسر آئی ۔آپ کی خانقاہ غریبوں اور دکھی دلوں کی ایسی پناہ گاہ تھی جہاں آدھی رات تک آنے والوں کا تانتا بندھا رہتا ۔آپ بیک وقت حضرت خواجہ قطبؒ اورحضرت خواجہ غریب نواز ،ؒ دونوں کے فیضانِ معرفت و طریقت کے امین تھے ۔ خطۂ ہند وپاک میں آپ ؒ کی ذاتِ بابرکات سے اس سلسلے کو وسعت اور استحکام میسر آیا ۔ حضرت بابا فرید الدینؒ نے بھی دہلی میں کچھ عرصہ قیام کیا ،’’سیر العارفین‘‘ کے مطابق ’’ جب شہرِ دہلی میں آپ کی بہت شہرت ہوئی اور مخلوق نے اس صاحبِ کمال کے حال میں مزاحمت کرنی شروع کی تو قطب الملت والدین ؒ سے اجازت و رخصت لے کرآپ ’’ ہانسی ‘‘( ضلع حصار، بھارت کا ایک قصبہ ) چلے آئے اور وہاں سکونت اختیار کر لی ۔حضرت بابا فرید الدین ؒ کا وصال 1265 ء میں ہوا ۔دہلی کی وہ روحانی سلطنت جس کی بنیاد حضرت خواجہ قطب الدین ؒ نے اپنے پیر ومرشدخواجہ معین الدین چشتی ؒ کے فرمان سے رکھی ،اب اس کے عروج کا زمانہ آن پہنچا ۔ ’’ ولایتِ دہلی ‘‘ کے حوالے سے آبِ کوثر کی یہ روایت بھی بڑی دلچسپ اور حقیقت کشا ہے کہ: ’’ سلسلہ چشتیہ کی دو بڑی شاخیں ’’صابریہ‘‘ اور ’’نظامیہ‘‘ ہیں ۔ ان دونوں کے مؤسس حضرت بابا صاحب ؒ (فریدالدین مسعودؒ) کے مرید مخدوم علاؤ الدین صابرؒ اور حضرت سلطان المشائخ ؒ نظام الدین اولیأ تھے۔ ان کے علاوہ آپ کے ایک اور عزیز اور قدیم خلیفہ،خواجہ جمال الدین ہانسویؒ تھے،جنہوں نے قیامِ ہانسی کے دوران، آپ سے بیعت کی تھی ۔ان پر آپ کو اتنا اعتماد تھا کہ کوئی خلافت نامہ ان کی تصدیق و توثیق کے بغیر مکمل نہ سمجھا جاتا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک دفعہ انہوں نے مخدوم علاؤ الدین صابر ؒ کی’’ولایتِ دہلی ‘‘کی سند پھاڑ دی ۔جب بابا صاحب ؒکی خدمت میں اس کی شکایت کی گئی تو انہوں نے کہا کہ جمال کا پھاڑا ہوا فرید نہیں سی سکتا۔چنانچہ انہیں دہلی کی بجائے کلیر کا علاقہ مرحمت ہوا ۔‘‘حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء ،ؒسال 659ھ میں،سندِ خلافت حاصل کرنے کے بعد،اس کی توثیق کے لئے ،حسبِ روایت قطب الدین ہانسوی ؒ کے پاس پہنچے۔انہوں نے بڑی خوشی سے خلافت نامہ کی توثیق کی اور زبانِ مبارک سے یہ شعر پڑھا ۔ خدائے جہاں را ہزاراں سپاس کہ گوہر سپردا بگوہر شناس چنانچہ سندِخلافت کی توثیق کے بعد،آپ دہلی میں تشریف فرما ہوئے۔(جاری ہے)