آج کل میاںشہباز شریف اور ان کے اہل خا نہ کی اربوں روپے کی مبینہ کرپشن حکومت کے اعصاب پر سوار ہے۔ اپوزیشن رہنماؤں کا میڈیا ٹرائل تو خاصے عرصے سے شدومد سے جاری ہے لیکن موجودہ ٹائمنگ اس لحاظ سے قابل غور ہے کہ اب میاں شہبازشریف دوبارہ بلکہ سہ بارہ ٹارگٹ کیوں؟۔ٹی وی چینلز اور پریس کانفرنسوں میں ان پر تابڑ توڑ حملے ہو رہے ہیں۔ مبصرین اس نئی حکمت عملی کا ناتا ملک کی تیزی سے بدلتی ہو ئی سیاسی صورتحال سے جوڑتے ہیں کیونکہ ماضی قریب کے برعکس اب چھوٹے میاں صاحب کا کلیدی رول حکمران جماعت کو غالبا ً کھٹک رہا ہے۔ شہبازشریف نے کبھی اس بات کو نہیں چھپایا کہ وہ مقتدراداروں جنہیں عرف عام میں اسٹیبلشمنٹ کہا جاتا ہے، کے ساتھ صلح جوئی کی پالیسی کے حامی اور موئید ہیں ان کی بطور ایڈمنسٹریٹر حسن کارکردگی کا بھی ان حلقوں میں برملا اعترا ف کیا جاتا ہے لیکن ان کی سب سے بڑی ناکامی یہی تھی کہ وہ بڑے بھائی جان کو اپنے ڈھب پر نہ لاسکے۔ نوازشریف 2017ء میں سپریم کورٹ سے صادق و امین نہ رہنے کے بعد ’مجھے کیوں نکالا‘کا نعرہ مستانہ بلند کرتے ہوئے جی ٹی روڈ کا روٹ لے کر لاہور پہنچے تھے،ان کی صاحبزادی مریم نواز ’بڑے میاں توبڑے میاںچھوٹے میاں سبحان اللہ ‘میاں صاحب سے بھی زیادہ جوشیلی اور عقابی نکلیں،لیکن انہی معروضی حالات کی بنا پر کہ شہبازشریف جب تک اپنے بھائی اور بھتیجی کو اپنی لائن پر نہیں لاتے ان کی خداداد صلاحیتوں کا کیا فائدہ؟۔ اسی لیے عام انتخابات سے بہت پہلے ہی ان کو فارغ کر دیا اورعمران خان کو وزیر اعظم بنانے کے لیے پاپڑ بیلنا شروع کردیئے گئے لیکن اب صورتحال بدل گئی ہے۔ میاں نوازشریف بظاہر تو خان صاحب کو جُل دے کر بغرض علاج لندن پد ھارچکے ہیں اور اس معاملے میں ساری منصوبہ بندی شہباز شریف کی ہی تھی۔ بعض حلقے یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ میاں صاحب شدید بیمارتھے لیکن ان کے ٹیسٹ کی رپورٹس کو ایک سوچے سمجھے منصوبے اور ملی بھگت سے آگے پیچھے کیا گیا۔ معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے سارا ملبہ پنجاب کی وزیر صحت محترمہ یاسمین راشد جو نہ صرف خود میڈیکل ڈاکٹر ہیں بلکہ ڈاکٹروں کی لیڈر بھی ہیں پر ڈالنے کی کوشش کی۔ جب تحقیقات کی گئی کہ میاں صاحب اچانک 22اور23اکتوبر کی شب سروسزہسپتال لاہور کیسے پہنچے تو منکشف ہواکہ ایک نجی لیبارٹری سے ان کے پلیٹ لیٹس ٹیسٹ کرائے گئے تو وہ گر کر دس ہزار کی خطرناک سطح تک آچکے تھے جس پر نیب نے انھیں رات ساڑھے بارہ بجے سروسز ہسپتال منتقل کردیا۔ اس کہانی کے پیچھے کتنا سچ اور کتنا افسانہ ہے لیکن یہ قرین قیاس ہے کہ میاں صاحب کسی وسیع ترانڈرسٹینڈنگ کے تحت ہی بیرون ملک گئے ہیں اور یہی غم خان صاحب اور ان کے حواریوں کو کھائے جا رہا ہے۔ بہت سے یوٹرن لینے کے باوجود تحریک انصاف کے سربراہ اپنے اس عزم کاسختی سے اظہارکر رہے ہیں کہ وہ ان چوروں (پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن) کو نہیں چھوڑیں گے اور انھیں ’این آر او نہیں دونگا‘کا نعرہ بلند کرتے رہتے ہیں۔ اس پر اپوزیشن کا یہ استدلال ہے کہ این آر او مانگ کون رہا ہے اور آ پ دینے والے کون ہوتے ہیں۔ میں نے جون میں92 نیوزپر اپنے پروگرام میںخبر بریک کی تھی کہ’’70فیصد کے قریب ڈیل ہو چکی ہے‘ فی الحال عمران خان متفق نہیں ہیں اور اس ڈیل میں امیر قطر کا کلیدی رول ہے‘‘۔ وطن عزیز میں این آر او ہو یا ڈیل ہمیشہ غیر جمہوری ادوار میں فوجی آمر ہی کرتے رہے ہیں۔ 2000ئمیں بھی جب شریف خاندان اپنے خانساماؤں اور ڈھور ڈنگروں کے ساتھ سعودی عر ب پدھار گئے تویہ خفیہ ڈیل تحریری طور پر جنرل پرویز مشرف، سعودی عرب اور شریف فیملی کے درمیان ہوئی تھی۔ بعدازاں جب پرویزمشرف کمزور پڑ گئے تھے تو 2007ء میں این آر او جنرل صاحب نے ہی دیا تھا جس کے تحت پہلے بے نظیر بھٹو اور پھر میاں نوازشریف عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے وطن واپس آئے تھے۔ اب بعض حلقوں کا دعوی ہے کہ منتخب وزیر اعظم سے بالا بالا ہی کوئی ڈیل ہو گئی ہے جس کے تحت نواز شریف اڑن چھو ہو گئے۔ اسی بنا پر خان صاحب غصے میں ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد اور ان کی شعلہ نوا سیاسی جانشین مریم نواز کی خاموشی بھی معنی خیز ہے۔ ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا ہونے سے پہلے انھوں نے اپنے انتہائی زوردار اور جارحانہ انداز سے حکمرانوں کو زچ کر دیا تھا لیکن اب یہ حال ہے کہ وہ اس حد تک گوشہ نشین ہیں کہ پارٹی رہنماؤں سے بھی نہیں ملتیں۔ موبائل فون بھی ان کے پاس نہیں ہوتا حتیٰ کہ ٹویٹس بھی بند ہو گئی ہیں، یقیناً دال میں کچھ کالا ہے۔ یہ واضح ہے کہ اب پارٹی میں چچا جان کی لائن کو شرف قبولیت حاصل ہے اور اسی لیے شہبازشریف اب کرکٹ کی زبان میں اسی پچ پر کھیل رہے ہیں جس پر پہلے مہربان امپائر کی موجودگی میں بولر، بیٹسمین اور فیلڈر سب کچھ عمران خان ہی تھے۔ ان کے لیے گھبراہٹ کا باعث یہ ہے کہ اب اس پچ پر شہبازشریف بھی کھیل رہے ہیں اور یہ خان صاحب کے لئے باعث تشویش ہے۔ مائنس ون فارمولہ جس کے بارے میں، میںنے کئی ماہ پہلے ذکر کیا تھا اب وہ بلی بھی تھیلے سے باہر آ گئی ہے۔ شہبازشریف جو بات نجی محفلوں میں کرتے تھے اب انھوں نے برملا کہہ دیا ہے کہ ’’ہمیں عمران خان نیازی سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا نیزیہ کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ہمارے لیے قابل قبول ہیں‘‘۔ چند روز قبل چینل 92 پرمیرے پر وگرا م ’ہوکیا رہا ہے ‘ میں سینیٹرشیری رحمن نے بھی یہی موقف اختیارکیا۔ بلاول نے بھی چند روز قبل کہا تھا اب بات چیت اور مذاکرات صرف نئے وزیراعظم سے ہونگے۔ دوسری طرف پی ٹی آ ئی حکومت کی حلیف جماعتیں بھی آنکھیں دکھانے لگی ہیں۔ چودھری برادران جو پولے منہ سے یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم دامے درمے سخنے تحریک انصاف کے سا تھ ہیں لیکن عمران خان کے رویئے سے سخت شاکی ہیں۔ گزشتہ روز حلیفوں کے ساتھ ایک ملاقات میں انھوں نے گلہ کیا حکومت سازی کے وقت پی ٹی آئی کے ساتھ ہونے والے تحریری معاہدے میں طے پایا تھا کہ مونس الٰہی کو وفاق میں وزارت دینے کے علاوہ حلقوں کے لیے ترقیاتی فنڈز دیئے جائیں گے لیکن یہ وعدے پورے نہیں ہوئے۔ چودھری شجاعت کے لیے تو شروع ہی سے شریف برادران کا نرم گوشہ تھا لیکن اب پرویزالٰہی سے بھی ان کی صلح ہو گئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ق) کی لیڈر شپ ایک دوسرے کے سا تھ رابطے میں ہیں اور پارلیمنٹ میں تال میل بھی بڑھایاجا رہا ہے۔ بی این پی کے سربراہ اختر مینگل بھی آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ ایک حالیہ انٹرویو میں مینگل صاحب کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ دن پورے کر رہی ہے، بیساکھیاں چھینی گئیںتو گر جائے گی، حکومت کا ساتھ ہم نے دیا لیکن حکومت نے ہمارا ساتھ ابھی تک نہیں دیا۔ 2018ء کے عام انتخابات سے قبل مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے علاوہ بعض حواری گروپوں اور نام نہاد الیکٹ ایبلزکو تحریک انصاف میں شامل کرایا گیا تھا، وہ اسی سرعت کے ساتھ اشارہ ملنے پر پی ٹی آئی کوچھوڑ سکتے ہیں جس تیز رفتاری سے انھوں نے اپنی پارٹیوں کو خیربادکہا تھا۔ آرمی چیف کے حوالے سے سپریم کورٹ کے حکم پر چھ ماہ میں توسیع کے حوالے سے قانون سازی یا آئینی ترمیم کے لیے حکومت اور اپوزیشن کو مل کر بیٹھنا چاہیے لیکن خان صا حب نوشتہ دیوار پڑھنے سے یکسر عاری نظر آ تے ہیں۔