یار لوگ خوش ہیں اور کچھ تو مسرت سے بغلیں بجا رہے ہیں کہ تیل نکل آیا ہے اور وزیراعظم خوشخبری سنائیں گے۔ ایک صاحب نے تو یہاں تک بتایا کہ کنوئوں سے کویت سے زیادہ تیل نکلے گا۔ یادش بخیر جن دنوں ہم جسارت میں کالم نگاری کیا کرتے تھے، خبر آئی تھی کہ عزیز آباد میں تیل کا ایک کنواں دریافت ہوا ہے، بڑی خبریں چھپی، ہم نے کالم باندھا کہ اب کراچی میں بھی خلیجی ریاستوں کی طرح کشورہ اور توپ پہنے شیخ گھوما کریں گے۔ ہاتھ میں تسبیح ہوگی، بازو پہ کوئی باز بیٹھا ہو گا۔ ہمارے بھی وارے نیارے ہو جائیں گے۔ واہ ری قسمت کہ یہ خوشی بھی راس نہ آئی اور تحقیق پر معلوم ہوا کہ کنویں میں تیل قریبی پٹرول پمپ کے پائپوں سے رس رس کر جمع ہوگیا تھا۔ ہم گمانوں رہنے والے لوگ ہیں۔ امید کی چھوٹی سی کرن نظر آئی اور ہم دور کی خبر لے آئے۔ حاشا و کلا یہ مراد ہرگز نہیں کہ اب کے جو خبر آئی ہے وہ بھی جھوٹی نکلے گی۔ کیا پتا سچ مچ ایسا ہی ہو۔ عرصے سے سن رہے ہیں کہ بلوچستان کی طرف کی زمینیں معدنی دولت سے مالا مال ہیں اور تو اور سونے چاندی اور ہیرے جواہرات کے دفینے بھی ہیں۔ یہ بھی سننے کو آیا کہ چینی کمپنیاں اس علاقے میں ٹھیکے پر کام بھی کر رہی ہیں۔ اب اگر اتنے عرصے سے اسی طرح کی خبریں سننے کو ملتی رہی ہیں تو کچھ نہ کچھ سچائی تو ہو گی۔ دھواں وہیں سے اٹھتا ہے جہاں چنگاری ہوتی ہے اور یہاں تو معدنی وسائل کے انبار در انبار کا تذکرہ ہے۔ اگر ایسا ہوگیا تو ہمارے اسد عمر کا کام آسان ہو جائے گا جن سے معیشت سنبھلنے کا نام نہیں لے رہی۔ مہنگائی ہے کہ اوپر سے اوپر چلی جا رہی ہے اور وہ تو خدا کا شکر ہے کہ ہمارے عمران خان سے عوام امیدیں لگائے بیٹھے ہیں کہ آج نہیں تو کل وہ عوام کی حالت سدھار دیں گے۔ بس یہی سال دو سال کی بات ہے۔ ملک میں پہلا وزیراعظم ایسا آیا ہے جس کی نیند قوم کے غم میں اڑی ہوئی ہے۔ تئیس مارچ کے پریڈ میں ہم نے انہیں قومی ترانہ سنتے ہوئے دیکھا تو ان کا چہرہ کم خوابی سے بوجھل اور تھکاوٹ کا شکار نظر آیا جبکہ صدر مملکت ہمیشہ کی طرح ہشاش بشاش مزے میں جیپ میں سوار معائنے کا لطف اٹھا رہے تھے۔ سارا معاملہ اختیارات اور ذمہ داریوں کا ہے۔ صدر کے پاس تقریریں کرنے اور سلامی لینے کے علاوہ کام ہی کیا ہے چونکہ پیشہ بھی دنداں سازی کا رہا ہے۔ اس لیے قوم کو کوئی اور نہیں تو دانتوں کی صفائی کی نصیحت کو ضروری سمجھا اور دانتوں کے عالمی دن کے موقع پر فرمایا کہ قوم کو روزانہ کم سے کم تین مرتبہ برش ضرور کرنا چاہیے۔ ہم نے ان کی بات دانتوں سے پکڑلی اور روزانہ تین مرتبہ دانت صاف کرنے میں جت گئے ہیں۔ اس سے کچھ اور نہیں ٹوتھ پیسٹ کا خرچا بڑھ گیا جس کے دام پہلے ہی چڑھ گئے ہیں۔ ویسے تقریر تو ہمارے وزیراعظم بھی زور دار کرتے ہیں۔ صدر نے تئیس مارچ کو لکھی ہوئی تقریر پڑھی اور بار بار اٹکے، تلفظ کی غلطیاں بھی جی بھر کرکیں لیکن ہم نے برا نہیں مانا کہ وہ پہلے ہی اپنی کمزور اردو کا رونا رو چکے ہیں۔ ایک روز اتفاق سے خواتین کے حقوق پر وہ بھی عالمی دن کے موقع پر ان کی تقریر بہ زبان انگریزی سنی۔ ایسی رواں دواں انگریزی کیا حالیہ برسوں میں کسی صدر کی رہی ہوگی۔ اوپر سے خواتین کے حقوق پر ان کی دل سوزی نے ہمیں آبدیدہ بھی کیا۔ سچی بات یہ ہے کہ اس تقریر سے پہلے ہمیں کب معلوم تھا کہ ہماری عورتوں کے حقوق اس طرح پامال ہورہے ہیں۔ اب کوئی کہے کہ تقریروں سے کیا ہوتا ہے۔ کون سے حقوق بحال ہو جاتے ہیں۔ ہمارا کہنا ہے کہ بھئی صدر نے گڑ بے شک نہ دیا لیکن گڑ جیسی بات تو کی اور ہمارے وزراء ہوں یا صدر و وزیراعظم گڑ جیسی باتیں تو ہمیشہ کرتے ہیں۔ گڑ اس لیے نہیں دیتے کہ مہنگا ہے۔ 21 کروڑ لوگوں میں گڑ بانٹنا شروع کردیا تو خزانے میں بچے گا کیا۔ اب جب سے سعودی شہزادہ سلیمان بن محمد آئے ہیں اور ملک میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے، امید بندھ چلی ہے کہ جلد ہی اس سرمایہ کاری سے معیشت مضبوط ہو گی اور قیمتوں کے چڑھنے کا جو رونا لوگ رو رہے ہیں اس میں کمی آئے گی۔ ہمیں تو مہاتیر بن محمد کا آنا یا یوں کہیں کہ ان کی تشریف آوری سے بھی لگا کہ ملک کا وقار کم سے کم سے مسلم ملکوں میں بحال ہو چلا ہے اور یہ جو بڑی بڑی شخصیات قطار باندھ کر چلی آتی ہیں تو انہیں کچھ تو ہمارے وزیراعظم اور ہمارے ملک میں نظر آیا ہوگا ورنہ خالی خولی، بلاوجہ کون آتا ہے۔ اب تو ٹرمپ صاحب نے بھی ایک اچھا سا بیان ہمارے ملک کے بارے میں دیا ہے، مودی سرکار نے بھی یوم پاکستان پر مبارک باد کا پیغام بھیجا ہے۔ یہ سارے آثار اچھے ہی ہیں اور تیل نکلنے کی خبر تو ایسی ہے کہ طبیعت ابھی سے فضول خرچی پر مائل ہورہی ہے۔ کیونکہ روایت اسی کی ہے۔ خلیجی ریاستوں کے شہزادوں کی فضول خرچی اور داد عیش دینے کی اتنی داستانیں سن اور پڑھ رکھی ہیں کہ ادھر تیل نکلا اور ادھر… مگر شاید ایسا نہ ہو کہ جب ہمارے وزیراعظم نے اربوں کی دولت سے تعمیر شدہ وزیراعظم ہائوس میں قیام کرنا پسند نہ کیا۔ وہاں کی ساری گاڑیاں نیلام پہ اٹھوا دیں جس سے اتنا یقینی ہو چلا ہے کہ وہ پچھلے وزرائے اعظم کی طرح اپنے عہد اور مراعات کے مزے اٹھانے اقتدار میں نہیں آئے، آئے ہوتے تو پنجاب اسمبلی میں ممبروں کی تنخواہوں میں اضافے اور وزیراعلیٰ کو تاحیات بنگلہ دینے کے فیصلے پر برافروختہ نہ ہوتے اور نہ اس فیصلے کو ڈانٹ ڈپٹ کرتے۔ ہم نے جب سے وزیراعظم صاحب کا ٹینس چہرہ دیکھا ہے، افسوس ہوا کہ خواہ مخوا بغیر کسی مشورے کے ملک و قوم کو بنانے کی ذمہ داری اپنے سر لے لی۔ کرکٹ میں ورلڈ کپ جیت کر، کینسر ہاسپٹل اور ایک عدد یونیورسٹی بنا کر مطمئن ہو جانا چاہیے تھا کہ قوم کی اچھی خاصی خدمت کرلی۔ اب باقی زندگی یاداللہ میں گزار دیتے۔ یہ بات ہم اس لیے کہہ رہے ہیں کہ ہم نے جب دیکھا، انہیں ہاتھوں میں تسبیح لیے دیکھا، سیاست و حکومت میں بھلا اس کا کیا کام۔ یہ تو آخری عمر کے مشغلے ہیں اور اسی عمر میں ریٹائرڈ لوگ تسبیحوں سے دل بہلاتے ہیں۔ شاید اس قوم کو دعا اور دوا دونوں کی ضرورت ہے اور و زیراعظم دونوں محاذوں پر ڈٹے ہیں۔ ہم بھی ان کے لیے دعا ہی کرسکتے ہیں۔ کیونکہ واسطہ ان کو ایسی قوم سے پڑا ہے جس میں شاید ہی کوئی ایسی بیماری ہو جس میں وہ مبتلا نہ ہو۔ لیکن وزیراعظم کو جس بیماری سے خدا واسطے کا بیر ہے، وہ کرپشن ہے۔ وہ جب اپوزیشن ہی تھے تو کہتے تھے کہ حکومت میں آ گیا تو ان سارے کرپٹ اور بے ایمان لوگوں کو جیل بھجوائوں گا۔ اب حکومت ملی ہے تو انہیں اندازہ ہو گیا ہے کہ جیل بھجوانا خالہ جی کا گھر نہیں۔ (جاری ہے)