بات زیادہ پرانی تو نہیں صرف 99کی ہے ۔ جنرل مشرف نے میاں نوازشریف کو قید میں ڈال دیا اور مسلم لیگ (ن) آج کی طرح خاصی کنفیوز ہونے لگی۔ اسے جنرل ضیاء اور ذولفقار بھٹو یاد آنے لگے۔ لیڈر شپ کا خلا پیدا ہو گیا اور بیگم کلثوم نواز اسے پرکرنے کے لیے آگے بڑھیں۔ میاں نوازشریف کی رہائی کے لیے کوششیں اور کاوشیں شروع ہو گئیں۔ آن دی ریکارڈ اور آف دی ریکارڈ سب رنگ لایا اور اٹک جیل سے جدہ یاترا تک جاپہنچی ۔ میاں شہباز کسی بھی طرح کی ڈیل کے بعد ملک چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے تھے مگر پورا پیکج تھا۔ انیس بیس کی گنجائش بھی نہ تھی۔ کلثوم نواز سیاست میں اپنی جگہ بنا چکی تھیں۔ اُن کا آخری الیکشن اُن کی بیماری کے دوران تھاجسکی انتخابی مہم مریم نوازنے چلا ئی۔ جب سارا شریف خاندان سرور پیلس جدہ میں تھا تو ایک صحافی خاتون مجید نظامی صاحب کے کہنے پر ان سب سے ملی۔ مریم سے بات ہوئی تو مریم نے اپنا رول ماڈل پاکستان کی ایک خاتون لیڈر کو بتایا۔ صحافی خاتون واپسی پر کہنے لگی کہ مریم سیاست آنے کے لیے پر تول رہی ہے۔ کسی نے اس بات پر توجہ نہ دی۔ مگر 2008 سے 2013 تک اور 2013 سے آج تک یہ بات درست ثابت ہوئی ۔ جب نواز شریف تیسری دفعہ وزیراعظم بنے تو پرئم منسٹر ہائوس میں پرویز رشید اور عرفان صدیقی نے مریم کی نظریاتی تربیت شروع کر دی اس میں کچھ کردار چڑیا والے جرنلسٹ کی اہلیہ کا بھی تھا۔ جب کلثوم نواز سیاست میں آ گئیں تو یہ سوال اٹھا کہ وہ کس حد تک سیاست میں آگے بڑھیں گی۔ یہاں فیصلہ میاں شریف صاحب کا تھا۔ حدود طے ہو گئیں۔ میاں شریف ، میاں نواز ؎شریف کا جانشین چھوٹے میاں صاحب کو دیکھنا چاہتے تھے۔ جب بڑے میاں صاحب 2013 میں وزیر اعظم بنے تو مریم نواز کے ٹویٹ سب کو حیران کرنے لگے۔ ان کا ایک ٹویٹ تو خاصا مشہور بھی ہواجب قمر باجوہ آرمی چیف اور ثاقب نثار چیف جسٹس پاکستان بنے ۔ پھر ڈان کے سِرل المیڈا سے فواد حسن فواد تک اور ڈان لیک سے پانامہ تک ایک لمبی کہانی ہے۔ نظریاتی ہونا ، جمہوریت پسند ہونا بہت ہی اچھی باتیں ہیں۔ مگر سحر کے وقت افطار اور افطار کے وقت سحر نہیں ہوتی۔ پاکستان کے اپنے زمینی حقائق ہیں۔پانامہ سے اب تک مسلم لیگ کے اندر مسلسل دو بیانیے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ ایک مریم کا اور ایک شہباز شریف کا ۔ مریم لگتا ہے کہ اس بے نظیر کی کاپی کرتی ہیں جو 1986 میں مینار پاکستان میں ضیاء الحق کو لتاڑ رہی تھی۔ مگر 1986 کے پاکستان میں اور 2021 کے پاکستان میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ بے نظیر کی اپنے باپ کی وجہ سے اداروں سے بہت تلخ یادیں وابستہ تھیں مگر آخرش کیا ہوا؟ پارٹی کے شہ دماغ ماڈریٹ سیاست کو پارٹی کی بقا سمجھتے ہیں۔ مسلم لیگ نون کبھی بھی اینٹی سٹیٹس کو جماعت نہیں رہی۔ بالکل ایسے ہی جیسے آپ لکی ایرانی سرکس کے پالتو شیر کو کہیں کہ وہ جنگل کے شیر کی طرح دھاڑنا شروع کر دے۔ مسلم لیگ کی کیمسٹری انقلابی بھی نہیں اور نظریاتی بھی نہیں، اس کے خمیر میں مڈل اور اپر کلاس تاجر طبقہ ہے جو اپنے اپنے مفادات کے نیٹ ورکس کو حکومتی حمایت سے چلاتا ہے۔ حکومت اور بزنس مین ایک دوسرے کے سہولت کار ہوتے ہیں۔ میاں نوازشریف کے سامنے دو بیانیے ہیں عقابی بیانیہ اور فاختائی بیانیہ ۔ پارٹی دو بیانیے ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ مشکل یہ ہے کہ اس پارٹی کی کیمسٹری اور بائیو کیمسٹری اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہے ہی نہیں۔ کہاں کا نظریہ، کہاں کا انقلاب ؟ ایسے میں چھوٹے میاں صاحب پارٹی کو وقت کی بے رحم موجوں سے ٹوٹ پھوٹ کے بغیر حفاظت سے ساحل پر لے جانا چاہتے ہیں۔ بڑے میاں صاحب کے سامنے مشکل چوائس ہے۔ انہیں ماضی کی تلخیوں سے نکلنا ہوگا، مریم کو سمجھانا ہوگاکہ پاکستان کا پاور سٹرکچر نہ نظریاتی ہے نہ انقلابی ۔ اس ساری صورت حال میں پارٹی کنفیوز ہے۔ آن دی ریکارڈ کچھ کہتی ہے اور آف دی ریکارڈ کچھ اور ۔ اگر ایک جانب خواجہ آصف ، ایاز صادق اور رانا تنویر فکر مند ہیں تو دوسری جانب خاقان عباسی ، احسن اقبال اور سعدرفیق بھی متفکر ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کا ایک ووٹ بنک ہے مگر پارٹی کی بد قسمتی اس میں دوبیانیے ہیں۔ میاں نواز شریف اس بات کو بخوبی جانتے بھی ہیں اور سمجھتے بھی ہیں۔ بنی بنائی پارٹی ہے۔ مریم سمجھتی ہیں کہ یہ میرے والد کا ووٹ بنک ہے۔ اس پر میرا حق ہے۔ موروثی سیاست میں شاید ایسا ہی ہوتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں نتائج تک پہنچنے میں اور ’’فیکٹرز ‘‘بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں ۔ ہمیشہ سے آج تک اور آج سے پھر کل تک فیکٹرز اگر ساتھ نہ ہوں تو احتجاجی سیاست تالی تو بجوا سکتی ہے مگر انتخابی سیاست کے گہرے پانیوں سے باہر نہیں نکال سکتی۔میاں شہباز بہت دور کی سوچ رہے ہیں مگر میاں نواز مایوس ہیں اور مریم رد عمل کی سیاست کر رہی ہیں جو پاکستان جیسے ملکوں میں سفرِ لاحاصل ہوتا ہے۔ آپ میاں شہباز کے حالیہ انٹرویو کو دیکھیں اور کچھ عرصہ پہلے خواجہ آصف کی ایوان میں تقریرسنیں ۔ دونوں ماڈریٹ لائن پر چلنے کے قائل نظر آتے ہیں۔ پارٹی میں بہت بڑے بڑے نام ایسے ہیں جو مریم نواز کے بیانیے سے شدید اختلاف رکھتے ہیں مگر پارٹی ڈسپلن کے خوف سے بات کرنے کو تیار نہیں ،مگر نجی گفتگو میں وہ اپنا دل کھول کر سامنے رکھ دیتے ہیں۔ وقت کا جبر ہے یا ،حسِین اتفاق کے عمران کی گورننس سے عوام بیزار ہیں مگر مسلم لیگ ن اسے کسی بھی قسم کا چیلنج دینے سے معذور ہے۔ وجہ ؟ اسٹیبلشمنٹ کا خوف یا پارٹی میں شدید اختلاف؟