فرض کریں کہ ایک شام آپ گھر بیٹھے ٹیلی وژن پر کوئی ٹاک شو دیکھ رہے ہیں اور غیظ سے بھرے کف بہ دہن تجزیہ نگاروں سے ملکی مسائل کا حل سن کر محظوظ ہورہے ہیںاور اتنے میں دروازے کی گھنٹی بجتی ہے ۔آپ اُٹھ کر باہر جاتے ہیں تو آپ کے محلے کی بڑی مارکیٹ والا کریانہ فروش کھڑا ہے، وہی جس سے آپ ہر ماہ راشن خریدا کرتے ہیں۔ آپ کو دیکھتے ہی کہتا ہے ’’ میاں!گزشتہ سے پیوستہ ماہ آپ مجھ سے جو مہینے بھر کا خشک راشن خرید کر لائے تھے، اس کا بل آپ نے سترہ ہزار روپے ادا کیا تھا۔ آج بیٹھ کر میں نے حسا ب کیا ہے، میری دکان کے اخراجات میں اُس مہینے خاصا اضافہ ہوا تھا۔چنانچہ آپ کا وہ بل سترہ ہزار کے بجائے، انیس ہزار دو سو چھپن روپے بنتا ہے۔ چلئے! جیب ڈھیلی کیجئے اور مبلغ دو ہزار دو سو چھپن روپے مزید ادا کیجئے۔‘‘ ابھی وہ کھڑا ہے کہ دودھ والا اپنی پرانی ٹوسٹروک موٹرسائیکل پر پھٹ پھٹ کرتا آن رکتا ہے۔ وہ جلدی میں ہے سو کہتا ہے ’’ دو مہینے پہلے جو آپ نے دودھ کا بل ادا کیا تھا، وہ سات ہزار روپے تھا۔ اب مجھے یاد آیا کہ اسی مہینے تو اتحادی حکومت نے تیل کے نرخوں میں پے در پے اضافہ کیا تھا۔ مجھے تو وارے نہیں آتا چنانچہ آپ موجودہ بل کے ساتھ ساتھ دو مہینے پہلے والے بل کی مد میں اٹھارہ سو روپے مزید ادا کیجئے‘‘۔ ان مطالبات کے جواب میں آپ کیا کریں گے؟ اُسے سمجھائیں گے کہ بھائی اُس مہینے جو نرخ تم نے رکھا تھا، میں نے اس کے مطابق ادا کردیا، اب اُس میںاضافے کا تقاضا کرنا بیوپار کے اصولوں کے خلاف ہے۔ نہیں مانے گا تو آپ جھگڑا کریں گے، کسی محلے کے معزز کو بیچ میں ڈالیں گے مگر اضافی رقم ادا نہیں کریں گے اور آئندہ کے لئے کسی دیگر دکان کا رُخ کریں گے۔ مگر صاحب! ہمارے ہاں ایک بیوپاری ایسا ہے جو انڈرورلڈ کے کسی ڈان سے بھی بڑھ کے ہے۔ وہ اکتوبر میں اعلان کرتا ہے کہ میں نے اپنے مال کے نرخ بڑھادئیے ہیں اور یہ اضافہ شدہ نرخ جولائی سے لاگو ہوں گے۔ پچھلے چار مہینوں میں جو مال خرید کر آپ استعمال بھی کرچکے ہیں، یہ اضافہ اُن پر بھی ادا کرنا ہوگا۔ خریدار کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوتا ۔نہ وہ کسی بڑے کو بیچ میں ڈال سکتا ہے اور نہ شور واویلے کا بیوپاری پر کوئی اثر ہوتا ہے۔خریدار مجبور ہے کہ گزشتہ چار مہینوں میں استعمال شدہ مال جس کی قیمت بھی ادا کی جاچکی ہے، اس کے بڑھے ہوئے نرخ ادا کرے۔ یہ بیوپاری واپڈ ا اور اس کی ذیلی برق فروش کمپنیاں ہیں۔ آپ دکان دار بھی نہیں بدل سکتے۔ اس لئے کہ بجلی اور کہیں سے دستیاب ہی نہیں۔ ایک ہی ساہوکار ہے اور ایک ہی دکان۔ خرید سکتے ہو تو ٹھیک وگرنہ اندھیرے میں بیٹھے رہو۔ معاشیات کے ماہر بھی یہی کہتے ہوں گے لیکن ایک سیدھا سادہ اصول بھی یہی ہے کہ اگر آپ کے وسائل کم ہیں توآپ بچت کرنا شروع کردیتے ہیں۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آپ کی دست رس سے باہر ہونے لگیں تو آپ اُن کا استعمال کم سے کم کردیتے ہیں مگر ہماری برق فروش کمپنیوں کے معاملے میں یہ فارمولا بھی بالکل ناکام ٹھہرتا ہے۔ حال ہی کی مثال لیجئے۔ جون میں گھر کا بل چوبیس ہزار آٹھ سو سولہ روپے آیا تو ہم نے بجلی کا استعمال ممکنہ حد تک کم کردیا۔ اے سی کا ٹائم مقرر ہوگیاکہ رات کو اتنے گھنٹے اور دوپہر میں اتنا وقت چلے گا۔ میری سب سے چھوٹی بیٹی امامہ بڑی ہی کفایت شعار ہے۔ اس بچت مہم میں سب سے بڑھ کر فعال وہی رہی۔ کسی کمرے میں کوئی بیٹھا ہے اور دو روشنیاں جل رہی ہیں تو وہ ایک بند کردے گی۔ ٹی وی چل رہا ہے اور ناظر اپنے موبائل پر نگاہ رکھے ہوئے ہے تو اسے ڈانٹ پڑے گی’’ جب آپ دیکھ نہیں رہے توٹی وی بند کیوں نہیں کردیا، خواہ مخواہ بجلی ضائع ہورہی ہے‘‘۔ امامہ کی اس سختی کا خاطر خواہ اثر ہوا اور جولائی کے مہینے میں ہم نے 159یونٹ بچائے۔ جون میں ہم نے 907یونٹ استعمال کئے تھے جبکہ جولائی میں 748۔ تاہم جون کا بل چوبیس ہزار آٹھ سو سولہ روپے تھا اور جولائی میں 160یونٹ کم استعمال کرنے کے باوصف بل اٹھائیس ہزار آٹھ سو چھیاسی روپے آیا۔اب یہاں بندہ کیا کرے؟ بل کا مطالعہ کیا تو قیمت بجلی چودہ ہزاراٹھہترروپے تھی۔ اس پر فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ (ایف پی اے) کے پانچ ہزار نو سو نوے روپے۔ موجودہ بل جو لکھا تھا، وہ انیس ہزار آٹھ سو اکسٹھ روپے تھا۔ اس میں نو ہزار پچیس روپے مزید جمع کئے گئے ایف پی اے کی مدمیں۔ یوں واجب الادا بل بنا اٹھائیس ہزار آٹھ سو سولہ روپے۔ میپکو والوں سے رابطہ کیا کہ کہ یہ ایف پی اے دو دفعہ کیوں لگا ہوا ہے اور کس خوشی میں؟ جواب ملا یہ جو نو ہزار پچیس روپے ہیں یہ مئی کے مہینے کا ایف پی اے ہے۔یہ تو دینا پڑے گا۔ کر لو جی بچتیں۔دفتر میں جو ذکر کیا تو سبھی کہنے لگے کہ یہ دوسرا ایف پی اے ہمیں بھی لگا ہے۔ عامر کا چھوٹا سے گھرانہ ہے ، میاں بیوی اور ایک بچہ۔ اس نے کہا ’’ سر جی!پچاس یونٹ خرچ ہوئے، اس مہینے۔ سات سو روپے کا کرنٹ بل(حالیہ بل) تھا، اُس پر مئی کے ایف پی اے کی مد میں چھ سو روپے ڈالے گئے۔ تیرہ سو روپے بل ادا کیا ہے، اس ماہ…پچاس یونٹ کا‘‘۔