وزارت خزانہ نے تسلیم کیا ہے کہ رواں مالی سال کے دوران اقتصادی ترقی کی شرح اعشاریہ آٹھ فیصد رہنے کا امکان ہے ۔دو برس قبل وزارت منصوبہ بندی کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ملک کی 22 فیصد آبادی انتہائی غربت کی سطح پر زندگی بسر کر رہی ہے۔ اس وقت مہنگائی کی شرح 12 فیصد اور روپیہ کی ڈالر کے ساتھ شرح مبادلہ 129 روپے تھی۔ آج جب کہ مہنگائی کی شرح 47 فیصد سے بھی زائد ہے اور ایک ڈالر کی قیمت فروخت 292 روپے ہے تو پاکستان میں انتہائی غربت کی شکار آبادی کی شرح 42.5 فیصد تک پہنچ گئی ہے اور اس سال کے آخر تک دو کروڑ مزید افراد بے روزگاری، مہنگائی اور روپے کی قدر میں کمی سے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو جائیں گے ۔ غربت کی کوئی ایک تعریف کرنا ناممکن ہے ۔ ہر شخص، طبقے، ملک اور قوم کے لحاظ سے اس کا مفہوم مختلف ہے تاہم آسان الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ غریب وہ شخص ہے جو اپنی کمائی سے بنیادی ضروریات زندگی حاصل کرنے کے قابل نہ ہو۔ آج پاکستان کی 50 فیصد سے زیادہ آبادی انتہائی غربت کا شکار ہے اور ان کی ماہوار آمدنی اوسطاً پانچ افراد کے کنبے کے لیے 20 ہزار سے 35 ہزار ماہوار ہے ۔ پچاس سے اسی فیصد آبادی محض 2 ڈالرز روزانہ کماتی ہے اور معاشی ماہرین انہیں معمولی غربت کا حامل قرار دیتے ہیں۔ 80 سے 95 فیصد جسکی روزانہ آمدنی 5.5 ڈالر ہے۔ ہم اس 15 فیصد آبادی کو لوئر مڈل کلاس میں شمار کر سکتے ہیں۔ اس کلاس کے افراد کے لیے بھی بچوں کی تعلیم وتربیت اور ٹرانسپور ٹ کے ا خر اجات ان کی بساط سے باہر ہو چکے ہیں۔ باقی 5فیصد آبادی میں 3 فیصد اپر مڈل کلاس اور 2 فیصد بالائی اور بالادست طبقے اس ملک کی 90 فیصد دولت اور وسائل پر قابض ہیں اور ان کی دست برد سے تھوڑی بہت برتن کی کھرچن نچلے طبقے تک پہنچ جاتی ہے ۔ وہ بھی تبھی ممکن ہے کہ یہ لوگ حکومتی مراعات اور آسان قرضے حاصل کرکے کارخانوں اور فیکٹریوں کو چلائے رکھیں۔ کچھ برسوں سے مقامی بیروزگاری کی شرح 10 فیصد پر پہنچ گئی ہے۔جب سے پاکستان بنا ہے اس ملک کے کرتا دھرتا جاگیر دار، سرمایہ دار، اعلی سول اور فوجی حکام کے علاوہ ہمارے ملک کی معیشت، معاشرت اور سیاست کو کنٹرول کرنے والے مافیاز ہیں ۔ملک میں کوئی بھی حکومت ہو رئیل سٹیٹ، ڈرگز اور سٹاک ایکسچینج کے ٹا ئیکونز اور ان کی سپا نسرڈ قوتیں ہی پاور سٹرکچر پر قابض رہتی ہیں۔ یہ پاکستان بنا تو غریب اور عام لوگوں کو ہندوؤں کے معاشی تسلط سے آزاد کر انے کے لئے مگر عملاً ہوا اس کے برعکس۔ ہم انگریزوں اور ہندوؤں کی غلامی سے تو آزاد ہوئے مگر براؤن صاحب کے غلام بن گئے۔ دولت، اقتدار اور ذرائع پیداوار جائز اورناجائز طور پر چند ہاتھوں میں مرتکز ہو گئے۔ کسی زمانے میں بڑی کثرت سے شہر آشوب لکھے گئے۔ شاعر محمد رفیع سودا اور میر تقی میر نے اپنے شہر آشوب میں دلی کی تباہی اور بربادی، عوام کی بیروزگاری اور معاشی بد حالی کا ذکر کیا ۔ اٹھا رویں صدی میں نظیر اکبر آبادی نے اپنی شہرہ آفاق نظم شہر آشوب میں آگرہ کی تباہی، سیاست، معیشت اور معاشرت کی خراب حالت کا جس طرح تذکرہ کیا وہ آج اکیسویں صدی کے پاکستان کی حالت زار کی عکاسی کر رہا ہے ۔ بعینہ اسی طرح پی ڈی ایم نے گزشتہ سال وفاق پر قابض ہو کر پاکستانیوں کو دو وقت کی روٹی کا بھی محتاج بنا دیا ہے جس طرح اس وقت کے عوامی شاعر نظیر اکبر آبادی نے اپنی مشہور نظم شہر آشوب میں عوام کی حالت زار کی تصویر کشی کی ہے لگتا ہے کہ وہ آج کے کٹے پھٹے پاکستان کے لوگوں کی بات کر رہا ہے۔ شاعر کی نظم کا خلاصہ ہے "آگرے کے شہر میں ایسی مفلسی چھائی ہوئی ہے کہ شعراء اپنی شاعری بھول گئے ہیں، صبح شام لوگ اس پریشانی میں مبتلا ہیں کہ ان کی ضروریات زندگی کس طرح پوری ہونگی ،آگرے پر حملہ آوروں نے وہ تباہی مچا ئی ہے کہ میں اپنی شاعری بھول گیا ہوں، لوگ دانے دانے کو ترس رہے ہیں، مفلسی اس شہر میں اس طرح تیزی سے آئی ہے جیسے سیلاب میں پانی کا بند ٹوٹ جائے۔ لوگ روٹی روٹی کو محتاج دکھائی دے رہے ہیں، سیاسی، معاشی اور معاشرتی حالات ناگفتہ بہ دکھائی دے رہے ہیں، لوگ ہجرت پر مجبور ہیں، مالدار لوگ جو کبھی لوگوں کو قرض دیا کرتے تھے خود مقروض ہو گئے ہیں۔ جب کوئی بھکاری شرفا کے دروازوں پر بھیک کی صدا بلند کر تا ہے تو جواب آتا ہے پھر آنا یہ سن کر بھکاری تو مایوس ہو تا ہی ہے مگر وہ جو کبھی صاحب استطاعت تھا وہ بھی معاشی مجبوری کے ہاتھوں اپنے آپ سے شرمندہ دکھائی دیتا ہے آگرے شہر کا ہر شخص پی ڈی ایم کے پاکستانی کی طرح فکر روز گار میں ہلکان ہے۔آگرے میں مفلسی نے ڈیرے جما لیے ہیں جیسا آج ہمارے وطن عزیز میں ہے ۔کاروبار تباہ و برباد ہو گئے ہیں ۔ہر طرف غربت اور مفلسی ٹپکتی ہے ۔ کیا صراف، بنیے، ساہوکار سبھی کوڑی کوڑی کے محتاج ہو گئے ہیں لگتا ہے ہر شخص کی قسمت سو گئی ہے ۔نظیر کہتے ہیں کہ خدا دشمن کو بھی یہ دن نہ دکھا ئے۔ آج پاکستان کے غریب عوام کو حکمران طبقے کی لو ٹ مار اور نا اہلی کی وجہ مفلسی کے ہاتھوں جو مصاہب اور دکھ جھیلنے پڑ رہے ہیں اس کی نظیر کہیں نہیں ملتی ہے حالانکہ ہم پر تو کسی غیر ملک کی طاقتور فوج نے حملہ کر کے تاراج نہیں کیا ہے ہم پر تو ہمارے اپنے ہی ھلاکو خان او ر چنگیزخان ہی کشتوں کے پشتے لگا رہے ہیں ان کے ہوتے ہوئے دشمن کو ہم پر حملہ آور ہونے کی کیا ضرورت ہے : کیا کیا میں مفلسی کی خرابی کہوں نظیر وہ جانے جس کے دل کو جلاتی ہے مفلسی ٭٭٭٭