ابھی کل تک ہم ابوبکر بغدادی کی بہت تعریف کیا کرتے تھے۔ ثابت کیا کرتے تھے کہ ہماری کتابوں میں جس کا تذکرہ ہے‘ وہ لمحہ آ گیا ہے۔ بتایا کرتے تھے کہ یورپ کی دوشیزائیں اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر مشرق وسطیٰ کا رخ کر رہی ہیں اور ہمارے ان عرب مجاہدوں پر مری جا رہی ہیں۔لگتا تھا نسیم حجازی کے ناولوں کے کردار اس مقدس سرزمین پر پھر گھومنا شروع ہو گئے ہیں۔اعلان ہو رہا تھا کہ خلافت اسلامیہ قائم ہو گئی ہے‘ اب گویا بیعت فرض ہے۔ رہے ملا عمر تو انہوں نے خلیفہ المسلمین ہونے کا دعویٰ ہی نہیں کیا تھا۔ وہ تو افغانستان کو امارات ہی کہتے رہے تھے۔ ویسے یوں کہہ لیجیے ایک امیر المومنین کا زمانہ گزر گیا ہے۔ وہ بھی بڑے آدمی تھے۔ اتنے برس امریکہ کو ناکوں چنے چباتے رہے۔ حالات نے پلٹا کھایا تو اب سب کی شان میں گستاخیاں ہونے لگی ہیں۔ یہ جو کتابوں کے ہم حوالے دیتے تھے۔ ان میں حدیث کی کتابیں بھی بتائی جاتی تھیں۔ مرے جیسے مشورے دیتے تھے۔ احتیاط کرو۔ بعض لوگوں نے تو آخری زمانے کا یوں نقشہ کھینچنا شروع کر دیا تھا کہ بعض اوقات تو یہودی‘ عیسائی اور مسلم روایات میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا تھا۔ امریکہ نے اسے نشانہ کیا بنایا ہے کہ اب اس کے خلاف زبانیں چلنے لگی ہیں۔ باتیں تو ہم نے کسی کے خلاف نہیں کیں۔ یہ جنرل قاسم سلیمانی کو کل تک ایک لیجنڈ کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ جب سعودی عرب اور یمن کی جنگ شروع ہوئی تو اس کی اہمیت مغربی میڈیا نے یوں بیان کی کہ ساری کارروائی کی نگرانی کرنے کے لئے جنرل قاسم سلیمانی یمن پہنچا ہواہے۔ ایسے ہی جیسے ہمارا ایک کمانڈر تھا بریگیڈئر ٹی ایم(طارق محمود) ایک لیجنڈ بتایا جاتا تھا۔ ہم کہتے تھے کہ انڈیا اس بات کی خبر رکھنے کی کوشش کرتا ہے کہ پاک فوج کا یہ سپوت اس وقت کہاں ہے۔ کہیں دلی کے گرد تو نہیں ہے۔ بریگیڈیئر صدیق سالک میرے بڑے دوست تھے۔ انہوں نے آج تک کسی کی شان میں ایسا قصیدہ نہیں پڑھا۔ جیسا ٹی ایم کی شہادت پر وہ بے ساختہ رطب اللسان ہوئے تھے۔ کچھ نہ کچھ تو صداقت ہو گی۔آج مگر جب یہ قاسم سلیمانی امریکہ کا نشانہ بنا ہے تو ہم اسے مقتول لکھ رہے ہیں۔ احتیاط کر رہے ہیں کہیں شہید کا لفظ نہ نکل جائے ایک زمانے میں ان کے خلاف اور حسن نصراللہ کے خلاف بعض افراد پروپیگنڈہ کرتے تھے خیال ہوا شاید مسلکی چڑ ہے۔ اب معلوم ہوا تز وینی معاملہ ہے۔ جو امریکہ کا مخالف‘ وہ اسلام کا دشمن بات میں نے ملا عمر سے شروع کی مگر ایک صاحب اسامہ بن لادن بھی تھے۔ وہ بھی جب ہماری سرزمین پر شہید ہوئے تو ہم گڑ بڑا گئے کہ ان کے بارے میں کیا کہیں۔ چند سال پہلے وہ ہمارے آئیڈیل تھے۔ امریکہ کے چہیتے تھے۔ اب صورت حال بدل چکی تھی۔ ہم نے اپنے حریت پسندوں کو کیسے کیسے رنگ بدل بدل کر دیکھا۔ القاعدہ دنیا کے لئے ہوّا تھی ہم طالبان‘ افغان طالبان‘ پاکستانی طالبان کو القاعدہ سے الگ کر کے دیکھتے تھے۔ القاعدہ کو دنیا کے لئے بہت بڑا خطرہ قرار دیتے تھے۔ انہیں نائن الیون کا ذمہ دار قرار دیتے تھے۔ پھر جب ابوبکر بغدادی کی خلافت کا چرچا ہوا اور ہم نے اسے عراق و شام کی دولت اسلامیہ کا نام دیااور داعش مخفف ٹھہرایا‘ تو اس کا ایسا رنگ جما کہ اس کی مخالفت میں القاعدہ کو بھی کھڑا کر دیا۔ ایمن الظاہری ‘ النصرہ اور جانے کیا کچھ سامنے آیا ‘کیسی خبریں تھیں کہ عراق سے تیل ان دہشت گردوں کی نگرانی میں نکالا جاتا ہے اور دنیا بھر میں جاتا ہے۔ کیا کیا رنگ دکھائے گئے پھر بتایا گیا کہ دشمن افغانستان میں آ گیا ہے۔ پاکستان میں بھی ان کے آنے کے امکانات ہے۔ سرکاری طور پر وضاحت کی گئی کہ نہیں پاکستان ان سے محفوظ ہے۔ پوچھنے والوں نے پوچھا یہ عراق و شام کی دولت اسلامیہ افغانستان میں کیا کر رہی ہے۔ جو شخص طالبان سے نکلتا‘ وہ دوسرا دھڑا بنانے کے بجائے پہلے القاعدہ میں ‘ پھر داعش میں منتقل ہو جاتا۔ تجزیہ کرنے والے کہتے‘ یہ وارداتیں ‘ ایک نہیں تو دوسرا سہی۔ پھر یہ خبریں آئی کہ یہ لوگ بھارت میں بھی پہنچ چکے ہیں۔ پتہ نہیں القاعدہ برصغیر کہلاتے ہیں یا داعش برصغیر۔ کسی نے اطلاع دی کہ یہ کشمیر میں سرگرم عمل ہو گئے ہیں۔ مگر اس کی جو نشانیاں بتائی گئیں‘ وہ تشویشناک تھیں۔ بتانے والے نے بتایا کہ یہ کہتے ہیں کشمیری اپنے شہیدوں کو پاکستانی پرچم کے بجائے ان کے پرچم میں لپیٹ کر دفن کریں۔ بتایا یہ گیا یہ لوگ اب قومیت کے ’’تنگ‘‘ حصار سے نکل کر ملت اسلامیہ کے حصار میں آ رہے ہیں۔لاحول ولاقوۃ۔ یہ بھی اطلاع ملی کہ یہ کہتے ہیں ہم نے عراق و شام میں خلافت قائم کر کے غلطی کی تھی۔ امریکہ نے ہمیں وہاں گھیر گھار کر مار دیا۔ اب ہم جغرافیہ کے اسیر نہیں ہوں گے۔ گویا گوریلا جنگ لڑیں گے۔ اسلامی چی گوریلا بنیں گے۔ ویسے تو اسلامی تاریخ میں گوریلا جنگ لڑنے والوں کی کمی نہیں۔ مگر آج کے نوجوانوں کو سمجھانے کے لئے ایسے کہہ لیتے ہیں۔ تب مجھے یہ احساس ذرا شدت کے ساتھ ہوا کہ کہیں یہ بات درست تو نہیں کہ امریکہ جہاں جاتا ہے‘ داعش کو ساتھ لے کر جاتا ہے۔ یہ اس کا ایجنڈہ ہے۔ کسی نے کہا کہ یہ سامراج کا ایجنڈہ ہے کہ مسلمانوں کو مسلح جدوجہد پر لگا دیں۔ مسلم دنیا کے بڑے مفکرین اس طریقہ کار کے خلاف رہے ہیں مثال کے طور پر سید مودودی اس رویے کے قطعاً حق میں نہیں تھے اور اس پر بدنامی بھی مول لی۔ مجھے نہیں معلوم کہ ہمارا کون سا رویہ درست ہے مگر یہ کیا منطق ہے کہ آج ہم جسے ہیرو بناتے ہیں‘ کل اسے ولن بنا کر پیش کر دیتے ہیں۔ شروع شروع میں تو ہم نے امام شامل ‘حاجی مراد کے قصے خوب چلائے‘ کتابیں تک لکھی گئیں۔ پھر ان کے بارے میں بھی تذبذب کا شکار ہونے لگے۔ برصغیر کے حوالے سے بھی یہی کیا۔ سید احمد بریلوی کے بارے میں چھوڑیے۔ ہم نے تو بخت خاں کا بھی مذاق اڑانا شروع کر دیا۔ ہاں‘ بھگت سنگھ کی خوب پذیرائی کی۔ جو نہیں کر رہا‘ اس کو لعن طعن کیا۔ ہمارا یہ رویہ کیا ہے۔ امریکہ نے جو کچھ ہمارے پڑوس میں کیا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنے رویے بدل لیں۔ اس لئے کہ امریکہ یہی چاہتا ہے ۔ایرانی قوم چالیس سال سے مرگ برامریکہ کے نعرے پر لگی ہوئی ہے اس کی تاریخ بھی سیدھی سادی نہیں۔ ڈاکٹر مصدق تک نہ جانیں۔ صرف آیت اللہ خمینی سے شروع کر دیں تو آیت اللہ شریعت مدار آیت اللہ منتظری سے لے کر بنی صدر اور قطب زادہ تک بہت اونچ نیچ آئی۔مگر اس بات کی داد دینا پڑتی ہے کہ جیسے ایرانی اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں یہ عزیمت کم قوموں کی نصیب ہوتی ہے۔ جنرل قاسم اس کی ایک علامت تھا۔ امریکہ اس پورے خطے میں جو کھیل کھیلتا آ رہا ہے وہ اپنی جگہ۔ ایران نے جو غلطیاں کی ہوں گی‘ وہ بجا۔ ہماری جو محدودات ہوں گی وہ بھی درست ذ مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ سامراجی عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اس خطے میں ایران ہی ہے اور جنرل قاسم سلیمانی ‘ بقول آیت اللہ خامنہ ای کے‘ اس کا ایک سپوت تھا۔ سامراج نے اس خطے کا حلیہ بدل کر رکھ دیا ہے۔ اوپر جن لوگوں کا ذکر کیا۔ یہ تو خیر صاف طور پر مجاہد تھے۔ ہم نے یہاں کیسے اپنے ہیروبدلے۔ مجھے یاد ہے جب صدام حسین میدان میں اترا اور شاید غلط اترا‘ اس وقت مسلم امّہ کا جو جو وفد ان سے مل کر آیا۔ اس نے اس کی عظمتوں کے گن گائے۔ اس کی بے باکی کی داستان میں نے کم از کم قاضی حسین احمد سے سنی ہے۔ ملک بھر میں اس کی تصویروں کے پوسٹر لگے۔ پھرکیا بنااس کا۔ قذافی ایک زمانے میں اتنا مقبول تھا کہ اس کی سبز کتاب مائوزے تنگ کی سرخ کتاب کے مقابلے میں چلتی تھی۔ بشار الاسد کا بھی اپنا ٹھاٹھ تھا۔ہم نے مصر کے منتخب لیڈر مرسی کے ساتھ کیا کیا۔ کیا ہم کسی کو ٹکنے نہیں دیں گے۔ دنیا میں نہ سہی کم ازکم اپنے دلوں ہی میں سہی۔ ہم امریکہ کے ساتھ آتے جاتے ہیں۔ کیا قیامت آ جاتی اگر ہم اسے شہید لکھ دیتے۔ امریکہ کے ہاتھوں مارا جانے والے کو شہید کہنا کیا کفر ہے یا قومی مفاد سے غداری۔ ایک بار یہ سوال ایک سیاسی جماعت کے سربراہ نے پاکستان میں پوچھ لیا تھا‘ بات کتنی دور تک گئی تھی۔ آج بعض رویے دیکھ کر دوبارہ دل کرتا ہے پوچھ لوں کہ اتنا بھی کیا ڈر۔ ویسے فرق نہیں پڑتا۔ قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے۔ کسی چھوٹے آدمی کا شعرنہیں ہے۔ کسی نے آج تک اس پر اعتراض نہیں کیا۔ لفظوں سے فرق نہیں پڑتا۔ مگر ہم اتنے ڈرے ہوئے کیوں ہیں اور اپنے لوگوں کے بارے میں اپنی رائے امریکہ کے ساتھ کیوں بدل لیتے ہیں۔ ظلم یہ کرتے ہیں اسے اسلام کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ جنرل ژوپ تو ہمیں بہت پسند ہے‘ مگر اپنا جرنیل جلد ہی نظروں سے اتر جاتا ہے‘ صرف امریکہ کے آنکھیں بدلنے کی دیر ہے۔