لاہور سے روزنامہ 92 نیوز کی رپورٹ کے مطابق قاتل ڈور سے ہلاکتوں کے بعد پتنگ فروشوں کی پکڑ دھکڑ تو ہوئی ہے لیکن پتنگ سازی کا کاروبار اب بھی عروج پر ہے۔ اس گروہ نے پتنگ بازی کا سامان آن لائن فروخت کرنا شروع کردیا ہے۔ پتنگ اور قاتل ڈور تیار کرنے کا یہ مذموم دھندہ صوبہ خیبر پختونخوا کے کئی اضلاع میں ہورہا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ پتنگ فروشی اب ایک مافیا کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اس غیرقانونی دھندے میں ملوث گروہ نہ صرف پنجاب کے بڑے شہروں میں موجود ہیں بلکہ اب یہ دیگر صوبوں میں بھی سرایت کر چکا ہے۔ اگرچہ قاتل ڈور سے ہونے والی حالیہ اموات کے بعد پولیس پتنگ بازی روکنے کے لیے متحرک ہوئی ہے لیکن پتنگ بازوں نے بھی اپنا دھندا جاری رکھنے کے لیے نت نئے حربے اختیار کر لیے ہیں۔ اب پتنگ کی ڈور کی چرخیاں نجی کوریئر کمپنی اور پتنگیں نجی بسوں کے ذریعے خیبرپختونخوا سے خرید کر لائی جا رہی ہیںجبکہ ان سودوں کے لیے انسٹاگرام‘ فیس بک‘ واٹس ایپ استعمال کئے جا رہے ہیں۔ بنظرغائر دیکھا جائے تو پتنگ مافیا کے یہ ہتھکنڈے ریاست کے لیے چیلنج بن چکے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ان کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈائون کرنا چاہیے تاکہ اس کاروبار کو جڑ سے اکھاڑا جائے۔پولیس کو چاہیے کہ وہ ڈرون کیمروں کے استعمال کو موثر بنائے اور ان کے ذریعے نہ صرف پتنگ بازوں اور پتنگ سازوں کو پکڑا جائے بلکہ ان کے خلاف مقدمات چلا کر انہیں سزا دی جائے تاکہ مزید لوگوں کی گردنیں قاتل ڈور سے کٹنے سے بچ سکیں۔
پتنگ ساز مافیا کا نیا مذموم دھندہ
منگل 07 جولائی 2020ء
لاہور سے روزنامہ 92 نیوز کی رپورٹ کے مطابق قاتل ڈور سے ہلاکتوں کے بعد پتنگ فروشوں کی پکڑ دھکڑ تو ہوئی ہے لیکن پتنگ سازی کا کاروبار اب بھی عروج پر ہے۔ اس گروہ نے پتنگ بازی کا سامان آن لائن فروخت کرنا شروع کردیا ہے۔ پتنگ اور قاتل ڈور تیار کرنے کا یہ مذموم دھندہ صوبہ خیبر پختونخوا کے کئی اضلاع میں ہورہا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ پتنگ فروشی اب ایک مافیا کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اس غیرقانونی دھندے میں ملوث گروہ نہ صرف پنجاب کے بڑے شہروں میں موجود ہیں بلکہ اب یہ دیگر صوبوں میں بھی سرایت کر چکا ہے۔ اگرچہ قاتل ڈور سے ہونے والی حالیہ اموات کے بعد پولیس پتنگ بازی روکنے کے لیے متحرک ہوئی ہے لیکن پتنگ بازوں نے بھی اپنا دھندا جاری رکھنے کے لیے نت نئے حربے اختیار کر لیے ہیں۔ اب پتنگ کی ڈور کی چرخیاں نجی کوریئر کمپنی اور پتنگیں نجی بسوں کے ذریعے خیبرپختونخوا سے خرید کر لائی جا رہی ہیںجبکہ ان سودوں کے لیے انسٹاگرام‘ فیس بک‘ واٹس ایپ استعمال کئے جا رہے ہیں۔ بنظرغائر دیکھا جائے تو پتنگ مافیا کے یہ ہتھکنڈے ریاست کے لیے چیلنج بن چکے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ان کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈائون کرنا چاہیے تاکہ اس کاروبار کو جڑ سے اکھاڑا جائے۔پولیس کو چاہیے کہ وہ ڈرون کیمروں کے استعمال کو موثر بنائے اور ان کے ذریعے نہ صرف پتنگ بازوں اور پتنگ سازوں کو پکڑا جائے بلکہ ان کے خلاف مقدمات چلا کر انہیں سزا دی جائے تاکہ مزید لوگوں کی گردنیں قاتل ڈور سے کٹنے سے بچ سکیں۔
آج کے کالم
یہ کالم روزنامہ ٩٢نیوز میں منگل 07 جولائی 2020ء کو شایع کیا گیا
آج کا اخبار
-
پیر 25 دسمبر 2023ء
-
پیر 25 دسمبر 2023ء
-
منگل 19 دسمبر 2023ء
-
پیر 06 نومبر 2023ء
-
اتوار 05 نومبر 2023ء
اہم خبریں