دہائیوںسے پاکستان کی معیشت کو جس طرح سے چلایا جاتا رہا ہے اسکو بہت ہی فراخدلی سے ڈنگ ٹپائو معیشت ہی کہا جا سکتا ہے کیونکہ دنیا بھر کے مالیاتی اداروں کی مالی معاونت اور کوشش کے باوجود ہم نے اس شعبے کو کبھی سنجیدگی سے بہتر بنانے کی کوشش ہی نہیں کی۔ادھار لے کر کوئی ایسا منصوبہ یا صنعت لگانے کی کوشش نہیں کی جس سے ملکی معاشی آمدن میں کچھ اضافہ کیا جاسکے۔ پبلک سیکٹر میں مسلسل نقصان کا سبب بننے والے اداروں کو بحال کیا جا سکے جس سے معاشی بہتری کے ساتھ ساتھ روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوتے۔پہلے سے موجود اداروں کی کارکردگی اور حیثیت کو بہتر بنائے بغیر حکومتی نوکریوں کو ریوڑیوں کی طرح بانٹا گیا، اوور سٹافنگ کی وجہ سے وقتاً فوقتاً ان اداروں کی کبھی کو ئی حکومت ڈائون سائزنگ، گولڈن شیک ہینڈ یا پھر نئی حکومت آ کر رائٹ سائزنگ کے نام پر پہلی حکومت کے بھرتی کئے ہوئے ملازمین کو فارغ کرنا شروع کر دیتی تھی۔پبلک سیکٹر میں اداروں کی مالی زبوں حالی اور سرکاری اداروں کی اوور سٹافنگ اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ کبھی کسی حکومت نے معاشی طور پر ملک کو صحیح سمت میں ڈالنے کے لئے سنجیدگی نہیں دکھائی۔وزیر اعظم شوکت عزیز میکرو اکنامک مضبوطی کا کلیہ لے کر آئے کہ پہلے بڑے اداروں اور entities کو معاشی مضبوطی فراہم کی جائے اس سے trickl down اثرات ہونگے جس سے متوسط اور نچلے طبقے کو فائدہ ہو گا۔ بڑے بڑے کاروباروں کو اس سے فائدہ ضرور ہوا لیکن اسکے اثرات نیچے آنے کی بجائے اوپر سے بھی اوپر چلے گئے اور حکمرانوں کو اس سے مستفید ہونے کا خوب موقعہ ملا جس کی وجہ سے آجکل قومی احتساب بیورو خوب سر گرم ہوا ہے۔Trickle down والی تھیوری ہم نے اس وقت اپنائی جب یہ دنیا بھر میں پٹ چکی تھی۔ ویسے بھی امریکہ اور دوسرے طاقتور ملکوں نے یہ تجربہ کیا، اپنی بڑی کارپوریشنوں اور کاروباروں کو ٹیکس میں ریلیف دیا کہ اسکا اثر عام آدمی تک با لآخر پہنچے گا لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ بڑے کاروباری ادارے اور کارپوریشن اس قدر طاقتور ہو گئیں کہ وہ منتخب اداروں پر پالیسی سازی کے وقت اپنی مالی طاقت کے ذریعے اثر انداز ہونے لگیں۔ ہمارے ہاں جب بڑے کاروباری اداروں کو ٹیکس ریلیف دیا گیا تو عام عوام کی حالت بہتر ہو ناتو درکنار وہ تخفیف شدہ ٹیکس سے بھی چوری کرنے لگے اور شاید ہی کسی ادارے نے اس رعایت کے بعد پورا ٹیکس دیا ہو۔ پچھلے چند سالوں سےTrickle down تھیوری کے خوب لتے لئے جا رہے ہیں۔2011 میں آئی ایم ایف کے ہی اینڈریو برگ اور جوناتھن اوسٹرے کی تحقیق کے مطابق دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم ملکوںکی معیشت کی مسلسل اورپائیدار ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔انکا کہنا ہے کہ در حقیقت ریاستوں اور عوام کو حاصل مساوی آمدن کے مواقع ہی مسلسل اور پائیدار ترقی کے لئے بہتر مددگار ہوتے ہیں۔انہوں نے اس خیال کی بھی مخالفت کی کہ اقتصادی ترقی ملکوں کے مابین کھلی تجارت ، مضبوط سیاسی ادارے، براہ راست بڑی بیرونی سرمایہ کاری ،زر مبادلہ کے تقابلی ریٹ اور کم بیرونی قرض سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ دولت کی منصفانہ تقسیم ہی سب سے موثر اقتصادی ترقی کا ذریعہ ہے۔ 2014 میں کچھ اور اہم بین الاقوامی معاشی ماہرین نے اس تحقیق کی بھرپور تائید کرتے ہوئے کہا کہ یہ خام خیالی ہے کہ دولت کی تقسیم ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے۔2015 میں آئی ایم ایف کے ماہرین نے ایک بار پھر Trickle down کے بتائے گئے فوائد کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ تاثر قطعی غلط ہے کہ میکرو اکنامک ترقی سے متوسط اور غریب طبقے کو کوئی فائدہ ہوتا ہے۔ متوسط اور غریب طبقے کی آمدن بڑھا کر ہی پائیدار اقتصادی ترقی حاصل کی جا سکتی ہے۔ دنیا کی چند بڑی اکنامک ریٹنگ کمپنیوں میں سے ایک Standard & Poor نے اس تحقیق پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہوئے جوکہا کہ Trickle down کی تھیوری سر کے بل گر چکی ہے۔ اگر ہمیں دنیا کی اقتصادی حالت بہتر بنانی ہے تو اسکے لئے متوسط اور غریب طبقے کی آمدن بڑھانی ہو گی۔ اس ساری بورنگ اور گھمبیر اقتصادی تحقیق کے بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ دولت کی منصفانہ تقسیم کا تصور ہمارے پیغمبر نبی آخرالزماں حضرت محمدﷺ نے آج سے چودہ صدی قبل دیا تھا اور یہی مدینہ کی ریاست کی بنیاد بنا ۔ وزیر اعظم عمران خان جب غریب کو اوپر اٹھانے کی بات کرتے ہیں تو اسکی بنیاد یہی تصور ہے۔ دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز نے طاقتور لوگوں کو ہر قسم کی باز پرس سے بالا تر تو کر دیا ہے لیکن اس ملک کے عوام کا جائز حق بھی نہیں دیا گیا۔ انکے حصے کی روٹی، زمین،تعلیم، خوشحالی ،امن اور سکون بھی اشرافیہ لے اڑی ہے۔یہ نقصان پورا کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے جس بیدردی سے اس ملک کو لوٹا گیا ہے آہنی ہاتھوں سے ان سے یہ دولت واگزار کرائی جائے۔ احتساب کی صورت میں ایک بیدلی کے ساتھ کوشش ضرور کی جا رہی ہے لیکن کوئی خاطر خواہ نتیجہ نکلتا نظر نہیں آ رہا۔دوسری طرف جس قسم کی اقتصادی پالیسیاں نئے مشیر خزانہ کی آمد کے بعد متوقع ہیں ان سے بھی دولت کی منصفانہ تقسیم ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ حفیظ شیخ بھی آئی ایم ایف اور دوسرے بین الاقوامی اداروں کے قرض سے حکومت کی معیشت چلانے کے ماہر ہیں جس کی تعریف میں اپنے عنوان میں کر چکا ہوں۔ اگر ڈنگ ٹپائو معیشت ہی چلنی ہے تو پھر اسد عمر کیا برے تھے۔ انکو اگر کہہ دیا جاتا کہ کام ویسے ہی چلے گا جیسے ہمیشہ سے چل رہا ہے تو وہ بھی کو ئی طالع آزمائی نہ کرتے۔ پہلے ہی روز اس راہ پر گامزن ہو جاتے۔ انہیںشاید خبر نہیں تھی کہ دوست ملکوں کے ڈالروں والا صرف جھانسا تھا اصل میں تو ہم نے قرض کی مے سے گزارا کرنا ہے اور اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے رہنا ہے۔