میر واعظ مائیکرو بائیولوجسٹ ہیں۔پنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ ان کا تعلق بلوچستان کے دور دراز علاقے قلعہ سیف اللہ سے ہے جو افغانستان کی سرحد کے قریب واقع ہے ۔میر واعظ پچھلے دنوں چھٹیوں پر گھر گئے تو معلوم ہوا کہ علاقے میں ایک نئی وبا آئی ہوئی ہے جس کا نام ’’پھیپھڑوں کا زکام‘‘ ہے ۔ سرحد پر واقع ہونے کی وجہ سے شاید یہ وبا افغانستان کے راستے قلعہ سیف اللہ تک پہنچی ہو گی۔ میر واعظ نے جب گائوں کے لوگوں سے اس بیماری کی علامات کے متعلق دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ پہلے زکام ہوتا ہے ، پھر خشک کھانسی اور پھر بخار ، ساتھ ہی سانس لینے میں دشواری ہونے لگتی ہے۔ گائوں کے لوگ کورونا نامی کسی بیماری سے ناواقف تھے اور اسے’’ پھیپھڑوں کا زکام ‘‘قرار دے رہے تھے۔ میر واعظ نے دیکھا کہ لوگ اس بیماری کے علاج کے لیے ایک مقامی پودے کا استعمال کر رہے ہیں اور اس کے استعمال سے وہ صحت یاب بھی ہو رہے ہیں۔ مائیکروبائیولوجسٹ ہونے کے ناطے میر واعظ کو اس پودے میں دلچسپی پیدا ہوئی اور انہوںنے اپنے طور پہ اس پر ریسرچ شروع کر دی۔ ریسرچ کے دوران انہیں اس پودے کا بائیولوجیکل نام معلوم ہو گیا اور پھر انہیں پتہ چلا کہ اسی بائیولوجیکل نام کا کوئی پودا صدیوں سے TCM یعنی Traditional Chinese Medicine میں بھی استعمال ہو رہا ہے ۔ ادویات سے واقفیت نہ رکھنے والے مجھ جیسے شخص کے لیے یہ ایک نئی اصطلاح تھی۔ جب میں نے انٹرنیٹ پر جا کر ٹی سی ایم کے بارے میں معلومات حاصل کیں تو معلوم ہوا کہ خشک کھانسی ،گلے اور پھیپھڑوں کے علاج کا یہ ایک ہربل فارمولا ہے جو صدیوں سے استعمال ہو رہا ہے۔ مختصر یہ کہ میر واعظ کچھ ہی دن میں اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ اگر اس مقامی پودے پر ریسرچ کی جائے تو کورونا کے علاج میں معاونت مل سکتی ہے ۔ دوسرا یہ کہ جب تک کورونا کی مستند دوا تیار نہیں ہوتی تب تک اس مقامی سطح پر تیار ہونے والی پیسٹ کو استعمال کر کے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے کیونکہ اس کے کوئی سائیڈ ایفیکٹس نہیں۔ میر واعظ اپنی اس ابتدائی تحقیق کو لیے در در پھر رہے ہیں ، کبھی بلوچستان حکومت سے رابطہ کرتے ہیں، کبھی این آئی ایچ کے ڈائریکٹر سے بات کرتے ہیں،کبھی ایڈیشنل سیکرٹری ہیلتھ کے پاس جاتے ہیں اور کبھی سینئرز کو فون کرتے ہیں لیکن میر واعظ کی بات کو کوئی سنجیدہ نہیں لے رہا۔ میرا مقدمہ یہ نہیں ہے کہ میر واعظ کی بات پہ فورا عمل درآمد کیا جائے اور ان کی تجویز کردہ دوا سے فورا کورونا کا علاج شروع کر دیا جائے بلکہ میرا سوال یہ ہے کہ ہمارا نظام کسی ریسرچر کے لیے مددگار ثابت کیوں نہیں ہوتا؟ ایک مائیکروبائیولوجسٹ جو بنیادی طور پر ایک ریسرچر ہے اور اس کے پاس اپنی بات کے حق میں مضبوط دلائل موجود ہیں ، موجودہ نظام میں رہتے ہوئے وہ اگر ریسرچ کا آغاز کرتا ہے تو پانچ سال لگیں گے اسے کسی نتیجے پر پہنچنے کے لیے جس کا گریہ میں گذشتہ کالم میں کر چکا ہوں۔ تو کیا خاص حالات میں یہ ممکن نہیں کہ حکومت خصوصی اقدامات کرتے ہوئے ایچ ای سی ، پاکستان سائنس فائونڈیشن ، پی ایم ڈی سی یا ڈریپ کے پلیٹ فارم سے ڈاکٹرز ، ریسرچرز اور سائنسدانوں پر مشتمل ایک الگ سیل بنا دے جو میر واعظ، کورونا کی تشخیصی ڈیوائس بنانے کی کوشش کرنے والے ڈاکٹر عمر اور ڈاکٹر جان عالم جیسے افراد کی تحقیقات کو ہنگامی بنیادوں پر آگے بڑھا کر جلد از جلد کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کرے؟ اب ڈاکٹر جان عالم کی کہانی بھی سن لیں۔ڈاکٹر جان عالم پاکستانی سائنسدان، فارماسسٹ اور میڈیکل ڈاکٹر ہیں، طویل عرصے سے روس میں مقیم ہیں۔ روس میں رہتے ہوئے انہوںنے بے شمار ادویات بنا کر رجسٹر کرائی ہیںجس کے ان کے پاس سرٹیفیکیٹس موجود ہیں۔ ڈاکٹر جان عالم نے کچھ عرصہ پہلے روس میں دوا بنائی جس کے بارے میں ان کا دعوی ٰ ہے کہ یہ دوا کرونا کا علاج کر سکتی ہے ۔ ڈاکٹر جان عالم اپنے اس دعوے میں بڑے پُر اعتماد اور راسخ ہیں ،کہتے ہیں کہ وہ فورا پاکستان واپس اس لیے آئے ہیں کہ اس دوا پر’’ میڈ اِ ن پاکستان ‘‘کا لیبل لگا کر پوری دنیا میں بھیج سکیں اور پاکستان کا نام روشن ہو۔ اینکر پرسن امیر عباس کے ساتھ سوشل میڈیا پر ان کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد اب حکومت کے بعض لوگوں نے ان سے رابطہ کیا ہے اور ان کے دعوے کی جانچ پر کام شروع ہونے کے امکانات پیدا توہوئے ہیں لیکن معاملہ اب بھی سست روی کا شکار ہے ۔ لہذا فی الوقت کرنے کا کام یہ ہے کہ ریسرچ کا ایک فاسٹ ٹریک متعارف کرایا جائے۔ Active اور Innovative سائنسدانوں ، تحقیق کاروں اور ڈاکٹرز پر مشتمل ایک ریسرچ سیل ہنگامی بنیادوں پر قائم کیا جائے اور انہیں کورونا پر تحقیق میں دلچسپی رکھنے والوں کے دعووں کی ہنگامی بنیادوں پر جانچ کر کے ریسرچ کا کام مکمل کرنے اور جلد از جلد نتائج سامنے لانے کا ٹاسک دیا جائے ۔بیٹھے بیٹھے خواب دیکھنے اور یونیورسٹیز کو مورد الزام ٹھہرانے سے کچھ حاصل نہ ہو گا۔ گذشتہ کالم میں ، میں نے ریسرچرز کے لیے پی ایس ایف اور ایچ ای سی کے نظام میں موجود نقائص کا ذکر کیا تھا۔ اس کالم کے بعد بے شمار ریسرچرز نے مجھ سے رابطہ کیا جن کے ریسرچ پراجیکٹس ان اداروں کے ساتھ چل رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے اپنے مسائل کے انبار لگا دیے ،ان میں سے کچھ چیزیں تو نہایت مضحکہ خیز اور افسوسناک ہیںجن پر میں اپنے اگلے کالم میں تفصیل سے بات کروں گا کہ شاید فواد چودھری صاحب کی توجہ حاصل کی جا سکے،وہ نظام کی درستی کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھانے پر مائل ہو سکیں اور جان سکیں کہ یہ کیلنڈر بنانے سے بھی زیادہ اہم کام ہے ۔