بالخصوص ہمارے سیاست دانوں اور بالعموم ہماری ملکی سیاست کا اس سے برا حال کیا ہو سکتا ہے کہ ہم 22کروڑ ستر لاکھ افرا دپر مشتمل ملک میں سے ایک شخص کا انتخاب نہیں کر پا رہے ۔اس شخص کو نگران وزیر اعظم بننا ہے۔آئین پاکستان کے مطابق جس کے سر ہما بیٹھے گا۔ کام اس کا صرف اتنا ہے کہ دو سے تین ماہ کے لئے حکومت کی زمام کارکو سنبھالنے اور اس دوران الیکشن کمیشن آف پاکستان انتخابات کا انعقاد کروا کے حکومت جیتنے والی سیاسی جماعت کے حوالے کر دے گی ۔چند ایک سوالات جو ہر کسی کے ذہن میں آتے ہیں کہ کیا وجہ ہے کہ حزب اختلاف اور حزب اقتدار والے معمولی کام نہیں کر پا رہے ہیں۔ ووٹ لوگوں نے دینے ہیں انتخابات کے انتظامات الیکشن کمیشن نے کرنے ہیںتو پھر اتنی بد ظنی کیوں؟کیوں آدھی درجن ملاقاتوں کے باوجود نگران وزیر اعظم کا انتخاب نہیں ہو رہا ہے ؟یہاں پر بقول نواز شریف کے ان کے ہاتھ کسی خلائی مخلوق نے تونہیں باندھ رکھے ہیں ۔وہ کون سے خدشات ہیں کہ اتنا معمولی سا کام بھی دو منجھے ہوئے سیاست دان نہیں کر پا رہے ہیں ؟اس لیت و لعل کے اثرات جو ملکی سطح پر پڑیں گے اس پہ بعد میں آتا ہوں ۔اب آپ کو بتاتے ہیں پی پی پی اور ن لیگ میں نگران وزیر اعظم کے معاملے پہ اندرونخانہ کیا ہو رہا ہے ؟ میر ی اطلاع کے مطابق دونوں خورشید شاہ اور خاقان عباسی نہ صرف پر امید تھے بلکہ ایک سطح پر متفق ہونے کا ارادہ کر چکے تھے ۔اپنے تئیں دونوں نے کوشش بھی کی لیکن جن لوگوں کے ہاتھ میں ان کی ڈوریاں ہیں گڑ بڑ وہاں سے ہو رہی ہے ۔مریم صفدر جو آجکل ان تمام معاملات پر والد صاحب کا ہاتھ بٹا رہی ہیں کسی صورت بھی خاقان عباسی کو اپنے تئیں فیصلہ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے ۔دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی کے حالات بھی زیادہ مختلف نہیں ہیں ۔خورشید شاہ جو مرضی کہتے پھریں فیصلہ آصف زرداری نے کرنا ہے ۔خورشید شاہ اور آصف زرداری صرف مہرے ہیں ۔ایک معتبر ذرائع کے بقول مریم صفدر اس معاملے کو پوری طرح کنٹرول کررہی ہیں ۔نواز شریف کی خواہش ہے کہ آصف زرداری خود ان سے اس حوالے سے بات کریں ذرداری صاحب بضد ہیں کہ وہ نوا زشریف سے بات نہیں کریں گے ۔نوازشریف کے قریبی حلقوں کا خیال ہے کہ وہ چاہ رہے ہیں کہ موجودہ سیاسی حالات میں کسی نا کسی طرح وہ آصف زرداری کو engage کر لیں ۔کچھ ایسے حالات پیدا کیے جائیں عمران کی پنجاب میں بڑھتی ہوئی مقبولیت کو روکا جاسکے اس کے لئے نوازشریف آصف زرداری کے ساتھ کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں دوسری جانب لگتا ہے زرداری صاحب نے حالات کو بھانپ لیا ہے وہ ہر گز نواز شریف کی ڈوبتی کشتی میں سوار نہیں ہونا چاہیں گے ۔ اب چند دن باقی ہیں پتہ چل جائے گا کہ یہ کام سیاسی جماعتوں نے کرنا ہے یا پھر 2013ء کی طرح الیکشن کمیشن نے کرنا ہے ؟اگر ایسا ہوا تو جمہوریت کش عمل تصور کیا جائے گاعوام یہ سوال پوچھنے میں ضرور حق بجانب ہونگے 446پارلمنٹرینز(342ممبرز آف نیشنل اسمبلی اور 104سینیٹرز) مل کر بھی نگران وزیر اعظم کا انتخاب جس کا کام صرف دو تین ماہ حکومت چلانا ہے نہیں کر سکے تو ہمیں ایسی جموریت چاہئے کیا؟ ایسے جمہوریت پسند جو اپنے الیکشن کو بھی اچھی طرح manageنہ کر سکیں اس ملک کو چاہئے؟ لہٰذا بہت ہی اچھا ہو کہ نگران وزیراعظم کا نام سیاسی عمل کے نتیجے میں سامنے آئے بصورت دیگر یہ کام ایک بار پھر الیکشن کمیشن کو سونپ دیا جائے گا ۔گو کہ سیاست دان اگرنگران وزیر اعظم کے چنائو میں ناکام ہو جاتے ہیں تو آئینی طور پر یہ کام الیکشن کمیشن کو کرنا ہے ۔پھر بھی یہ عمل متنازع ہو جائے گا ۔بد قسمتی سے ہمارے ملک میں پہلے سے ہی سازشی تھیوریوں کا دور دورہ ہے ۔ہر روز کوئی نہ کوئی مبینہ سازش سامنے آتی ہے ۔ ہرروز نیب اور عدالت عظمی کو فریق بنا کر حکومتی پارٹی الیکشن میں دھاندلی کا رونا روتی ہے ۔کبھی خلائی مخلوق اور کبھی برا ہ راست ۔ہر سیاسی جماعت دوسری سیاسی جماعت پہ انگشت زنی میں مصروف عمل ہے۔ اس تناظرمیں ہو نہیں سکتا کہ نگران وزیراعظم سازشی تھیوریوں سے بچ سکیں ۔اگر بچنا ہے تو اس کے لئے سیاسی جماعتوں کو پختگی کا مظاہرہ کرنا ہو گا ۔اب تھوڑی بات کر لیتے ہیں پی ٹی آئی کے سو روزہ پلان کی اگر الیکشن جیت جاتی ہے تو میرے نزدیک یہ ایک اچھی روایت ہے جو تمام جماعتوں کو ڈالنی چاہئے۔بجائے اس کے سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پہ خواہ مخواہ الزام لگاتی پھریںسیاسی لیڈران اپنی توانائیاں نان ایشوز پر صرف کریں بہت اچھا ہو گایہ لوگ عوام کو بتائیں کہ وہ الیکشن جیتنے کے بعد ان کے لئے کیا پلان رکھتے ہیں ؟کس طرح ان کے مسائل کو حل کیا جائیگاغربت بے روزگاری، صحت ،تعلیم ،پانی اور دیگر مسائل جو اس وقت ملک کو درپیش ہیں کس طرح ان کو حل کیا جائے گا ؟مہذب ممالک اور معاشروں میں جہاں جمہوریت اپنا پنجہ گاڑ چکی ہے کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہمارے سیاسی لیڈران کو بھی مذاکرے کرنے چاہئیں ۔تاکہ لوگوں کو پتہ چل سکے کہ کس کی پٹاری میں کیا ہے ؟حیران کن طور پر جب سے عمران خان نے سو دن کا پلا ن دیا ہے ،ن لیگ اور پی پی پی بجائے لوگوں کو اپنا پلان دینے کے انہوں نے پی ٹی آئی کے لتے لینے شروع کر دئیے ہیں ۔کوئی اسے دیوانے کا خواب کوئی اسے چربہ سازی اور کوئی الف لیلیٰ کی داستان سے تشبیہہ دے رہا ہے ۔اچھا ہوتا بلاول اپنی سندھ حکومت کی کار کردگی کے ساتھ ساتھ اپنا فیوچر پلان عوام میں پیش کرتے ۔دوسری طرف مریم اپنی توانائیاں ووٹ کو عزت دو کی بے معانی تحریک میں صرف کرنے کے مسلم لیگ ن کا منشور پیش کرتی اور پھر کسی دن یہ تمام لیڈران اکٹھے بیٹھ کر میڈیا پہ ان تینوں سے سوال جواب کرتے ۔یہ تمام ڈسکشن ملک میں میڈیا پہ نشر ہوتی ۔اگر ہمارے سیاست دان پوری دیانت داری سے ملک میں جمہوریت کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں۔ آنے والے انتخابات میں سب سے پریشان کن بات یہ ہے ابھی الیکشن سے دو تین ماہ پہلے ہی دھاندلی کا شور و غوغا شروع کر دیا ہے ۔یہ شور کسی چھوٹی موٹی پارٹی کی طرف سے نہیں موجودہ حکومتی اور ملک کی بڑی سیاسی جماعت کی طرف سے آرہا ہے ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے وہ کون سے اقدامات ہیں جن کو اٹھانے سے ملک میں عام انتخابات شفاف طریقے سے ہو جائیں گے ؟میری نظر میں تمام عمل کی ذمہ داری سیاست دانوں کے سر آتی ہے ،اگر یہ اس طرح آپس میں دست و گریباں رہیں گے ایک دوسرے کو اسٹیبلشمنٹ کا ساتھی ہونے کا طعنہ دیتے رہیں گے تو کچھ نہیں ہوگا ۔تمام اختلافات اور رنجشوں کے باوجود ان تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے لیڈران کو ایک بار پھر بیٹھنا ہوگا ایسا ماحول بنانا پڑے گا آئندہ ہونے والے عام انتخابات صاف اور شفاف طریقے سے ہو سکیں بصورت دیگر مجھے خدشہ ہے کہ ہم ایسے دور میں چلے جائیں گے جس میں نہ صرف ملک شدید سیاسی انتشار کا شکار ہو جائے گااس کے ساتھ ساتھ کئی دوسرے مسائل بھی پید ا ہو جائیں گے ۔