پنجاب اور کے پی کے میں ڈینگی وائرس کا پھیلائو تشویشناک حدود کو چھونے لگا ہے۔ محکمہ صحت پنجاب کے مطابق گزشتہ دو روز میں راولپنڈی میں 152‘اسلام آباد میں 284اور لاہور میں 252افراد میں ڈینگی وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ سرگودھا‘ حافظ آباد اور بہاولپور جیسے شہروں میں بھی درجنوں مریضوں کی اطلاع ہے۔ رواں برس پنجاب میں ڈینگی کے ہاتھوں 12افراد جاں بحق ہو چکے ہیںجبکہ ملک بھر میں ڈینگی سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 10ہزار سے بڑھ چکی ہے۔ خیبر پختونخواہ میں ڈینگی کے مریضوں کی مجموعی تعداد 2502ہے۔ بلوچستان میں 2618افراد اس مہلک وائرس کا شکار ہیںجبکہ اب تک 3افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کا کہنا ہے کہ آئندہ چند دنوں میں ڈینگی سے متاثرہ افراد کی تعداد بڑھنے کا خدشہ ہے اور حکومت اس کی روک تھام کے لئے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے۔ ڈینگی بخار ایک خاص قسم کے مچھر سے پھیلتا ہے۔1775ء میں یہ وبا ایشیا‘ افریقہ اورشمالی امریکہ میں نمودار ہوئی۔ اس میں مبتلا مریض کو ایک دم تیز بخار ہوتا ہے‘ سر اور جوڑوں میں درد شروع ہو جاتا ہے۔ بعض مریضوں کے پیٹ میں درد‘ خون کی الٹیاں اور خونیں پیچش کی شکایت ہوتی ہے۔ مریض کو بروقت طبی امداد نہ ملے تو وہ سات آٹھ دن میں مر جاتا ہے۔1950ء میں یہ بیماری جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک میں ایک وبا کی صورت میں ظاہر ہوئی۔ ہزاروں افراد خصوصاً بچے لقمہ اجل بن گئے۔1990ء تک یہ بیماری پوری دنیا میں اندازاً 40لاکھ افراد کی جان لے چکی تھی۔ ہمارے دوست ملک سری لنکا کی آب و ہوا ڈینگی مچھر کی افزائش کے لئے خاص موزوں ہونے کی وجہ سے وہاں اس مرض نے بہت تباہی مچائی۔ چند سال قبل جب پنجاب میں ڈینگی کی وبا پھیلی تو اس وقت کی حکومت نے سری لنکن ماہرین کی مشاورت سے اس کا سدباب کیا۔ گزشتہ کئی برسوں سے صوبائی اور وفاقی حکومت گرمیوں کے آغاز اور موسم برسات کے دوران انسداد ڈینگی کی مہم شروع کرتی۔ لوگوں کی بہت بڑی تعداد ڈینگی کو معمول کا بخار سمجھ کر مقامی ڈاکٹروں سے رجوع کرتی ہے اور علاج کی مہلت نکل جاتی ہے۔ ڈاکٹر حضرات کا کہنا ہے کہ مریض کے منہ سے جب خون جاری ہونے لگتا ہے تو اسے ہسپتال لے آتے ہیں مگر اس وقت علاج سے بات آگے بڑھ چکی ہوتی ہے۔ ڈینگی کے مرض کے انسداد سے جڑے ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈینگی پھیلانے والا مچھر گندگی کی بجائے گھروں میں رہتا ہے۔گھر کے اندر پانی کے ٹینک‘ غسل خانے ‘ ڈرم یا گھڑوں کے آس پاس ڈینگی کا ٹھکانہ ہو سکتا ہے۔ یہ مچھر سورج طلوع ہونے سے چند گھنٹے قبل اور غروب کے چند گھنٹے بعد اپنے ٹھکانے سے نکلتا ہے۔ محکمہ صحت کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک سو ممالک میں ڈینگی پھیلانے والے 38اقسام کے مچھر پائے جاتے ہیں۔ ہر سال پانچ کروڑ کیسز سامنے آتے ہیں جبکہ سالانہ پندرہ ہزار سے زاید افراد اس مرض کے ہاتھوں جان دیدیتے ہیں۔ پچھلے سال جب نئے انتخابات کی تیاریاں تھیں تو انسداد ڈینگی پروگرام بند پڑا تھا۔ انتظامی اور مالیاتی مسائل کے ساتھ ساتھ ایک وجہ اس مہم میں سیاسی کارکنوں کی عدم دلچسپی تھی۔ شہباز شریف کی صوبائی حکومت نے ڈاکٹروں اور ماہرین کے ساتھ ساتھ اپنے کارکنوں کو حکومت کے مختلف منصوبوں میں کئی طرح کی ذمہ داریاں دے رکھی تھیں۔ بعض ذمہ داریوں کا معاوضہ تھا اور بہت سی ذمہ داریاں کارکن اعزازی طور پر انجام دیا کرتے۔ دو سال پہلے خیبر پختونخواہ میں ڈینگی پھیلانے کی اطلاعات ملیں تو اس وقت پنجاب حکومت نے انسداد ڈینگی مہم میں تعاون کی پیشکش کی۔ انسداد ڈینگی مہم میں آگاہی کا عمل بہت اہم ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ پنجاب ہیلتھ کیئر کمشن کا میڈیا سیل اس نوع کی مہم پچھلے ایک سال میں شروع نہ کر سکا۔ ان دنوں پنجاب‘ کے پی کے‘ بلوچستان اور سندھ کے جن علاقوں میں ڈینگی پھیلنے کی اطلاعات مل رہی ہیں وہاں انسداد ڈینگی کی تمام ذمہ داری ضلعی انتظامیہ پر ڈال کر حکومتیں بری الذمہ ہو گئی ہیں۔ ڈینگی مہم میں گھر گھر سپرے‘ ادویات کی فراہمی اور احتیاطی تدابیر کے حوالے سے جو کردار سیاسی کارکن ادا کر سکتا ہے وہ محدود وسائل اور استعداد کے مالک چند سرکاری اہلکاروں کے بس کی بات نہیں۔ المیہ یہ ہے کہ تحریک انصاف نے پہلے دن سے اپنے کارکنوں کو اقتدار میں شامل کیا نہ ان کی خدمات سے فائدہ اٹھانے کی سنجیدہ کوششیں کی۔ ڈینگی کے پھیلائو کی سینکڑوں وجوہات ہو سکتی ہیں۔ عوام کی اپنی شعوری پسماندگی ‘ احتیاطی تدابیر نہ ہونا۔ لاروا کی بروقت شناخت نہ ہونا‘ موسم کا اثر‘ ادویات کے لئے رقم نہ ہونا وغیرہ وغیرہ لیکن اس کی سب سے بڑی وجہ برسراقتدار جماعت کی تنظیم کی لاتعلقی ہے۔ پاکستان کے معاشی حالات ایسے نہیں کہ سیاسی کارکنوں کو قومی خزانہ لوٹنے کی اجازت دیدی جائے۔ ماضی میں ہر حکومت ایسا کرتی آئی ہے۔ اس سے سیاست میں کرپشن بڑھی ہے مگر تحریک انصاف کا اقتدار میں آنا اس بات کی دلیل ہے کہ تبدیلی لانے والے سیاسی کارکن صاف ستھری اور دیانت دار جمہوریت کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایک ڈینگی ہی نہیں ترقیاتی منصوبوں‘ فلاحی سکیموں اور آگاہی مہم میں پرجوش کارکنوں کو اعزازی طور پر ذمہ داریاں تفویض کرنے سے بہت سے مسائل درست ہونے لگیں گے۔ تحریک انصاف کی حکومت کو اس سلسلے میں ضرور سوچنا چاہئے۔