کپتان نے حسب وعدہ ایک گیند سے تین سے زائد وکٹیں گرا کر قوم کو سرپرائز دینے کا اپنا وعدہ اور دعویٰ پورا تو ضرور کردیا ہے لیکن اس کے بعد اپوزیشن نہ صرف ششدر رہ گئی ہے بلکہ وینٹی لیٹر پر چلی گئی ہے۔ تعجب اس بات پر ہے کہ جن کی حکومت گئی وہ ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہے ہیں اور جو اپوزیشن پارٹیاں ہیں انہیں حکومت کے جانے کا سخت غم ہے۔ معاملہ اتوار کے روز سے از خود نوٹس کی صورت میں سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے ۔فیصلہ آنے میں وقت لگے گا اور اہل پاکستان کی طرح اوورسیز پاکستانیوں کی بے چینی ناقابل برداشت ہے۔ رمضان المبارک کا ماہ مقدس صبر کا درس دیتا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ بے صبری انتہا کو ہے۔ ساری نظریں سپریم کورٹ پر جمی ہوئی ہیں۔ ایسا تاثر مل رہا ہے جیسے امریکہ نے پاکستان پر حملہ کردیا ہے۔ سپریم کورٹ امکانی طور پر کیا فیصلہ دے سکتی ہے یہ جاننے کے لئے میں نے راولپنڈی ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر سردار عبدالرازق ایڈووکیٹ سے انکی رائے لی ہے عبدالرازق ایڈووکیٹ نے سپریم کورٹ کے ممکنہ فیصلے کی تین امکانی صورتیں بتائی ہیں 1- سپریم کورٹ آئین کے آرٹیکل 69 کو بنیاد بنا کر یہ کہے کہ اسمبلی کی کاروائی اور سپیکر کی رولنگ کسی عدالت میں چیلنج نہیں ہوسکتی اس لئے جو بھی سپیکر نے اقدام اٹھایا ہے اس پر سپریم کورٹ خاموش رہے گی۔ مداخلت نہیں کرے گی، لیکن اس کا امکان بہت کم ہے چونکہ اگر ایسا کرنا ہوتا تو عدالت اتوار کو سوموٹو نوٹس نہ لیتی۔ 2012ء میں سپریم کورٹ نے یوسف رضاگیلانی کے کیس میں سپیکر کی رولنگ کو کالعدم قرار دیا تھا۔ یوسف رضاگیلانی اس وقت وزیراعظم تھے ۔اس وقت سپیکر نے انکی نااہلی کا ریفرنس الیکشن کمیشن کو بجھوانے سے انکار کردیا تھا جس پر سپریم کورٹ نے سپیکر کی رولنگ کو کالعدم قرار دے کر یوسف رضاگیلانی کو نااہل قرار دے دیا تھا۔ 2 - دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ سپریم کورٹ سپیکر کی رولنگ اور اقدام کو کالعدم قرار دے کر تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کروانے کا حکم جاری کرے اس صورت میں پیچیدگی پیدا یہ ہوگی کہ سپیکر کی رولنگ کے بعد وزیر اعظم نے سمری صدر پاکستان کو بھجوا کر اسمبلی تحلیل کرنے کا حکم صادر کروا دیا اور نئے انتخابات کروانے کا عمل شروع کردیا گیا ہے پھر ہر چیز کو ریورس کرنا پڑے گا جس کا اس لحاظ سے امکان کم ہے. تیسری صورت یہ ہے کہ سپریم کورٹ سپیکر کی رولنگ کو کالعدم قرار دے کر تمام پارٹیوں کو نئے الیکش کروانے کا حکم صادر کردے۔ یہ زیادہ قابل عمل فیصلہ ہوسکتا ہے چونکہ اس کی ایک مثال ماضی میں موجود ہے جب 1988ء میں حاجی سیف اللہ کیس میں سپریم کورٹ نے وزیراعظم محمد خان جونیجو کی حکومت اور اسمبلی توڑنے کے اقدامات کو غیر آئینی قرار دیا تھا جبکہ اسمبلی کو بحال کرنے سے انکار کردیا تھا چونکہ نئے الیکشن کا پروسیس یا عمل شروع ہوگیا ہے اسی لئے لگتا ہے کہ تیسری صورت کے امکانات بھی موجود ہیں ۔ ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ ماضی میں سپریم کورٹ کے فیصلے اسی طرح کے رہے ہیں، 1988ء میں محمد خان جونیجو کی حکومت کو ختم کیا گیا۔ 1990ء میں بینظیر بھٹو کی حکومت کو آئین کے آرٹیکل 58/2/B کے تحت اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے ختم کیا پھر نواز شریف کی حکومت قائم ہوئی تو اس کو غلام اسحاق خان نے تحلیل کیا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نسیم حسن شاہ نے اس کو بحال کیا لیکن الیکشن کی طرف جانے کا کہا۔ پھر دوبارہ 1993ء میں بے نظیر بھٹو کی حکومت قائم ہوئی جسے پیپلزپارٹی کے اپنے صدر فاروق لغاری نے 1996ء میں ختم کردیا پھر دوبارہ نواز شریف 1997ء میں نوازشریف بھاری مینڈیٹ لے کر آئے ان کا فوج کے ساتھ پھڈا ہوا اور 12 اکتوبر 1999ء کو سول حکومت کو ختم کرکے خود اقتدار پر متمکن ہوگئے جو تقریباً دس سال تک سیاہ وسفید کے مالک رہے۔ آج کل پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور دوسرے جو آئین و قانون کا بھاشن جھاڑتے رہتے ہیں انہوں نے ایل ایفاو کے تحت جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کو دوام بخشنے میں اہم کردار ادا کیا اوراقتدار کے مزے اڑاتے رہے۔ 2008ء سے 2013ء پیپلز پارٹی کے وزیراعظم تبدیل ہوئے، نواز شریف کالا کوٹ پہن کر یوسف رضاگیلانی کی حکومت ختم کرنے عدالت چلے گئے۔ 2013ء میں نواز شریف اقتدار میں آئے تو وہ پانامہ پیپرز سیکنڈل کے تحت سپریم کورٹ سے نااہل ہوگئے بقیہ مدت شاہد خاقان عباسی نے پوری کی۔ 2018 میں عمران خان کی حکومت قائم ہوئی جس کے ابھی ڈیڑھ سال باقی تھے جسے ختم کردیا گیا ہے۔ بس اتنا کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہماری سیاسی اور اقتداری سیاست کی تاریخ کوئی زیادہ روشن نہیں ہے اور نہ ہی نظریہ ضرورت کے تحت عدلیہ کے فیصلے سوالیہ نشان سے بالا تر ہوئے ہیں اور نہ ہی لوٹاکریسی, جھوٹ, منافقت بلیک میلنگ اور چھانگا مانگا کی وجہ سے ہماری اشرافیہ اور اقتداری سیاست نے جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہونے دی ہیں۔ اس ملک میں ادارے مضبوط بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ اس وقت بیرونی دنیا میں پاکستانیوں میں یہ تاثر پایا جاریا ہے کہ ہم دفاع اور خارجہ پالیسی میں آزاد نہیں ہیں ۔جس ریاست کو ریاستی امور چلانے کے لئے دفاع اور خارجہ پالیسی پر اختیار نہ ہو اس ملک کی آزادی اور سالمیت پر سوالیہ نشان آتا ہے ۔ ہم ایک ایٹمی قوت ہیں 6 لاکھ فوج چار لاکھ ریزرو فوج اور 22 کروڑ عوام ہیں۔