یہ میرا ہے، یہ تیرا ہے۔ مجھے یہ بھی چاہیے، مجھے وہ بھی چاہیے۔ مجھے دنیا کی ہر آسائش چاہیے، مجھے اپنی ہر خواہش چاہیے۔کاش! ایسا ہو جائے۔ کاش! ویسا ہو جائے! کاش! میں اس دنیا پر راج کر سکوں! جی ہاں! یہ انسانی فطرت ہے، لیکن کبھی کسی نے یہ سوچا کہ اس دنیا میں سب کچھ حاصل کر لینے کے بعد بھی ہمارا کچھ بھی نہیں ہوتا؛ سب کچھ اس فانی دنیا میں رہ جاتا ہے۔اس دنیا میں ہماری زندگی ایک ٹرین کی مانند ہے؛ جیسے ٹرین میں کوئی مسافر سوار ہوتا ہے، تو کوئی اپنا پلیٹ فارم آجانے پر ٹرین سے اتر جاتا ہے اور ٹرین آگے بڑھ جاتی ہے۔بلاشبہ ہم سب نے آخر کار اپنے خالق و مالک کی طرف ہی لوٹ کر جانا ہے، اسی ضمن میںآج ذرا اپنی سیاسی وقومی تاریخ پرنظر ڈالتے ہیں:جدید دنیا میں اپنی بے پناہ طاقت اور پر تشدد کارروائیوں کے حوالے سے تاریخ میں اگر کوئی شخص نہایت معروف ہوا، تو وہ ایڈوولف ہٹلر ہے۔ اس کا دنیا پر راج کرنے کا جنون پوری دنیا کے لیے ایک خوف کی علامت بن چکا تھا۔ ہٹلر کے ساتھ نپولین بونا پارٹ بھی اپنے زمانے کا طاقتور ترین سپہ سالار اور شہنشاہ تھا۔ اس کی زیر قیادت فرانس نے کئی یورپی علاقوں پر قبضہ کیا اور دنیا بھر میں دہشت،رعب و دبدبہ جمایا آخرکار اسے شکست ہوئی اور اسے ایک جزیرے پر قید کر دیا گیا جہاں وہ تنہائی میں مر گیا۔ وطن عزیز پاکستان کی تاریخ پر نظر دوڑائیں، تو یہاں بھی کئی طاقتور ڈکٹیٹر گزرے ہیں، جن میں جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کے نام بطور مثال خاص طور پر پیش کیے جا سکتے ہیں کہ جنھوں نے ناصرف اپنی آمریت مسلط کی ، بلکہ ملک کا سارا نظم و نسق اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ جنرل پرویز مشرف کا اپنے مکے لہرانے کا منظر کون بھول سکتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کو بھی اقتدار ملتے ہی جیسے طاقت کا نشہ ہو گیا تھا۔ جنرل ضیا الحق کی المناک موت جس طرح ا یک جہاز حادثے میں ہوئی، وہ سب کو معلوم ہے اور اس کے بعد جنرل ضیا الحق کا سارا رعب و دبدبہ اسی جہاز کے ساتھ ہوا میں تحلیل ہو گیا جبکہ جنرل پرویز مشرف کا حال آج ہمارے سامنے ہے کہ وہ بلا شرکت غیرے، جس ملک کے مالک و مختار بن بیٹھے تھے، اسی ملک میںآج آ نہیں سکتے،اسی طرح اگر بات کی جائے بے نظیر بھٹو شہید کی، تو کون نہیں جانتا کہ ان کے پاس کسی آسائش کی کمی تھی اورنہ دولت و شہرت کی۔ملک کا اقتدار بھی نصیب ہوا اور جلاوطنی کے دن بھی دیکھنے پڑے، لیکن انجام کیا ہوا؟ دہشت گردوں کی دہشت گردی کا نشانہ بن کے اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔الغرض ہم اتنی مثالوں کے بعد آج یہ سمجھنے سے کیوں قاصر ہیں کہ اگر باقی رہنے والی کوئی ذات ہے، تو و ہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات ہے۔ آج کل ملک کی سیاست میں جو کچھ ہو رہا ہے، اسے دیکھ کر لگتا یوں ہے کہ صرف اقتدار، اقتدار اور اقتدار کی لڑائی ہے۔ نواز شریف لندن میں بیٹھ کر قومی اداروں کو یوں للکار رہے ہیں، جیسے یہ وطن عزیز کے نہیں، کسی دشمن ملک کے ادارے ہوں۔دوسری طرف موجودہ حکومت کا طرزِ حکومت دیکھ کر لگتا ہے کہ جیسے وزیر اعظم عمران خان کے سر پر صرف اور صرف اپوزیشن سوار ہے۔وہ اپوزیشن کو عبرت کا نشان بنانا چاہتے ہیں، کیونکہ اْن پر لاکھوں نہیں ،کروڑوں نہیں، اربوں نہیں ،بلکہ کھربوں کی کرپشن کے الزامات عائد ہیں۔جبکہ اپوزیشن کا یہ کہنا کسی حد تک بجا محسوس ہوتا ہے کہ ان پر جو بھی اب تک کیسز بنائے گئے ہیں، ان میں قومی احتساب بیورو(نیب) کچھ بھی ثابت نہیں کر پایا۔مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ شہباز شریف پہلے بھی گرفتار ہوئے، مگر ثابت کچھ بھی نہ ہو سکا۔ شاہد خاقان عباسی، خواجہ سعد رفیق، احسن اقبال، رانا ثنا اللہ سب پر کیسز بنے، سب کو گرفتار کیا گیا، لیکن ثابت کچھ بھی نہ ہو سکا۔اس کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ وطن عزیز کو کرپشن کی وجہ سے ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ قومی احتساب بیورو جیسا ادارہ ریفرنس تو تیار کر لیتا ہے، مگر جیسے ہی کیس چلتا ہے، تو ثابت کچھ بھی نہیں کر پاتا اور عدالت ملزم کو ضمانت دینے پر مجبور ہوتی ہے۔آخر عوام کب تک ملک کے سیاست دانوں کی آپس کی لڑائی کی وجہ سے نقصان اٹھاتے رہیں گے؟ کل تک جب عمران خان اپوزیشن میں تھے، تو اْن کو مہنگائی بھی نظر آتی تھی اور عوام کے تمام دکھ اور درد بھی محسوس ہوتے تھے۔ تب وہ ملک میں انصاف کا بول بالا بھی چاہتے تھے ، جبکہ آج جب وہ خود اقتدار میں ہیں اور ملک کے وزیر اعظم ہیں، تو انہیں نہ تو حالیہ مہنگائی کی لہر نظر آتی ہے اور نہ عوام کے مسائل نظر آتے ہیں۔دوسری طرف ملک کے تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف ہیں، جو ان دنوں انقلابی بنے ہوئے ہیں؛حالانکہ جب وہ اقتدار میں تھے، تو اسٹیبلشمنٹ ان کی آنکھ کا تارا تھی اور تب انھیں بھی سب کچھ ٹھیک نظر آتا تھا، لیکن آج اقتدار میں نہ ہونے اور ملک سے باہر ہونے کی بنا پر سب کچھ خراب نظر آتا ہے اور وہ قومی اداروں کے خلاف سخت بیانیہ اپنائے ہوئے ہیں اور اپنے سینے پر غداری کا تمغہ سجائے ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب سے پاکستان معرضِ وجود میں آیا ہے، جب سے شاید ہی کوئی دہائی ایسی گزری ہو، جب ہم نے اپنے ہی ہم وطنوں میں غداری اور بغاوت کے تمغے نہ بانٹے ہوں۔ گزارش صرف اتنی ہے کہ سیاست ضرور کیجیئے، لیکن عوام کے مفاد میں۔اس ملک میں تو جان بچانے والی ادویات کی قیمتو ں میں اس قدر اضافہ ہو چکا کہ غریب سے بیماری سے لڑنے کاحق تک چھینا جا رہا ہے۔سیاست دانوں سے گزارش ہے کہ صرف اتنا سوچ لیں کہ آج آپ اقتدار میں، کل کوئی اور ہو گا۔ا قتدار میں شریف خاندان ہو یا زرداری خاندان ،خدا نے ان خاندانوں کو اتنا نوازا ہوا ہے کہ اگر ان کی سات نسلیں بھی بیٹھ کر کھائیں تو شاید ختم نہ ہو۔ سوال یہ ہے کہ پھر یہ لوگ کس چیز کے پیچھے بھاگ رہے ہیں؟ کوئی جتنا مرضی روپیہ پیسہ اکٹھا کر لے، جتنا مرضی اپنے اقتدار کو طول دے لے، جب اللہ کا بلاوا آ جانا ہے، تو سب نے خالی ہاتھ اس دنیا سے جانا ہے سوائے کفن کے کچھ ساتھ نہیں جانا۔ اگر ہمارے حکمران صرف اتنا سوچ لیں کہ ہمارا تو کچھ بھی نہیں اور اس فانی و عارضی زندگی کا مقصد صرف اور صرف اللہ کی مخلوق کی خدمت ہے، تو یقین کریں یہاں انصاف بھی ہوتا نظر آ ئے گا اور وطن عزیز میں کوئی غریب بھو کا نہیں سوئے گا۔ سب اپنے بچوں کو تعلیم بھی دلو سکیں گے اور نہ ہی کسی کی بیٹی کی عزت یہاں لٹے گی۔ اس کیلئے صرف اورصرف شعور کی ضرورت ہے۔ جس دن ہمارے حکمرانوں اور عوام کو یہ شعور آجائے گا کہ نہ تیراہے، نہ میرا ہے، بلکہ یہ اقتدار، یہ جان و مال سب اللہ کا ہے اور ہم سب کو لوٹ کر اسی کے پاس جانا ہے، اْس دن اس ملک و قوم کی حالت خود بخود بدل جائے گی!