کہاں ہیں وہ دانشور، ادیب، سماجی کارکن، انسانی حقوق کے علمبردار بلکہ بہت سے سیاسی رہنما جو ابوالکلام آزاد کی تحریریں لہرا لہرا کر نظریۂ پاکستان کی نفی کرتے تھے۔ تقسیم ہند کو تاریخ کی عظیم غلطی قرار دیتے تھے۔ نفرت کا یہ پرچم پہلے اس ملک کے قوم پرستوں اور کمیونسٹوں نے اٹھائے رکھا۔ ولی خان نے اپنے آبائو اجداد کے نظریے کی حقانیت ثابت کرنے کے لیے انگلستان کی انڈیا آفس لائبریری میں جا کر برطانوی آرکائیوز سے دستاویزات اکٹھا کیں اور ایک کتاب لکھ ماری جس کا نام تھا "facts are facts"یار لوگوں نے اس کا ترجمہ بھی کر ڈالا ’’حقائق حقائق ہیں‘‘۔ کتاب میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ پاکستان دراصل انگریز نے ایک سازش کے تحت تخلیق کیا تھا، تا کہ دنیا کے نقشے پر ہندوستان نام کا اتنا بڑا ملک وجود میں نہ آئے۔ کمیونزم اور اس کے سائے میں پلنے والی قوم پرستی ایک دم دھڑام سے گر گئی جب سوویت یونین کو زوال آیا اور لینن کا مجسمہ خود اس کے پرستاروں نے زمین بوس کر دیا۔ اب نظریۂ پاکستان کی مخالفت، تخلیق پاکستان سے نفرت اور بھارت کی ’’عظیم‘‘ جمہوریت کی تعریف و توصیف کا پرچم سیکولر، لبرل اور انسانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں نے اٹھا لیا۔ گزشتہ تیس سالوں سے یہ گروہ پاکستان کے ہر بڑے شہر اور ہر ادبی سماجی فورم پر صرف ایک ہی مقصد کے حصول کے لیے سرگرداں تھا کہ برصغیر پاک و ہند میں ایک ہی قوم بستی ہے، جس کا اوڑھنا بچھونا، ہنسنا رونا، گیت نظیمں، رقص موسیقی سب ایک جیسے ہیں۔ مذہب خصوصاً ’’اسلام کے ٹھیکیداروں‘‘ نے اس ہندوستانی قوم کو تقسیم کر کے رکھ دیا ہے۔ واہگہ کی سرحد پر دیئے جلائے جاتے، گیندے کے پھولوں سے سرحد کو کسی مندر یا مرقد کی طرح سجا دیا جاتا۔ ساری محبتوں کا محور بالی ووڈ اور لالی ووڈ کی رنگینیوں کے گرد گھومتا رہتا۔ سعادت حسن منٹو کے افسانے ٹوبہ ٹیک سنگھ کو تقسیم کے خلاف ایک علامت کے طور پر استعمال کرتے ہوئے سرحد کی دونوں جانب سٹیج ڈراموں کی صورت پیش کیا جاتا۔ دونوں جانب کے سیکولر، لبرل اور متعصب ہندو اورنگ زیب عالمگیر کے کردار کو مسخ کرتے اور اس کے بارے میں تاریخی جھوٹ بولنے میں مصروف رہتے جبکہ اس کے مقابلے میں مذاہب واویان کے اشتراک کے قائل داراشکوہ کی عظمت کے گیت گائے جاتے۔ کہاں ہیں وہ سب کے سب جولاہور کے ایک خوش پوش علاقے میں قائم دفتر میں پاک بھارت محبتوں کے جلو میں سیاست دانوں، دانشوروں، شاعروں اور ادیبوں کے اکٹھ کرتے اور جب کوئی نواز شریف ان کی تالیوں کی گونج میں پکار اٹھتا کہ ادھر بھی لوگ آلو گوشت کھاتے ہیں اور ادھر بھی آلو گوشت کھاتے ہیں تو ان کی خوشی دیدنی ہوتی۔ اس لیے کہ سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی قوم پرست سیاسی جماعتیں تو قیام پاکستان سے پہلے سے ان کی ہمنوا تھیں، پیپلزپارٹی پر سیکولر لبرل قبضہ انہی کی بولی بولتا تھا، ایم کیو ایم کے الطاف حسین کا تو خمیر ہی اس نظریے سے اٹھا تھا۔ ایک رہ گیا نواز شریف جو قائد اعظم کی مسلم لیگ کا تخت نشین تھا، اس نے ہی اگر یہ کہہ دیا تو سمجھو کہ نظریۂ پاکستان کی بساط ہی الٹ گئی۔ پرویز مشرف کے اقتدار میں روشن خیالی نے ان کے حوصلے اتنے بلند کر دیئے تھے کہ انہیں یقین سا ہونے لگا تھا کہ کارگل سے لے کر تھرپارکر تک یہ سرحد ایک دن بے معنی ہو کر رہ جائے گی لیکن آج یہ تمام زبانیں گنگ ہیں۔ کوئی گفتگو تک نہیں کر رہا۔ انہیں معلوم ہو چکا ہے کہ بھارت کا شہریت ترمیمی بل دراصل ان کی ستر سالہ جدوجہد کے منہ پر طمانچہ ہے۔ کل فہمیدہ ریاض نے بھارت میں پناہ لے لی تھی لیکن آج اگر عاصمہ جہانگیر زندہ ہوتی تو سرحد پر روک لی جاتی، ہر بھارت نواز ترقی پسند مسلمان کا رکن تک، سب کا داخلہ اس لیے ممنوع ہوتا کہ وہ بھارت کی جمہوری حکومت کے ہندو تعصب کے نظریے کے مطابق ملیچھ یعنی ناپاک ہیں۔ ایک اور خاندان ہے اور ایک تاریخ ہے، جو نظریۂ پاکستان سے نفرت اور بنگالی قوم پرستی کی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ بھارت کے ناپاک بوٹوں کو اپنے ملک میں خوش آمدید کہتی ہے۔ پاکستان اس کے نظریے اور اس کی تخلیق سے محبت کرنے والوں کا خون بہاتی ہے۔ جنہوں نے اس وقت پاکستان کا ساتھ دیا وہ آج بھی وہاں سردار بلائے جاتے ہیں اور لا الہ الاللہ کا ورد کرتے ہوئے پھانسیوں پر جھول جاتے ہیں۔ دو لاکھ بہاریوں جو ہندو کی نفرت میں بہار سے ہجرت کر کے مشرقی پاکستان آئے تھے آج بھی اسی بنگلہ دیش میں وفا کا پرچم بلند کیے مصائب جھیل رہے ہیں۔ بھارت سے محبت جتنی مہنگی بنگلہ دیش کو پڑی ہے اس پورے خطے میں کسی اور کو نہیں پڑی۔ بھارت کے شہریت ترمیمی بل کی اصل بنیاد تو وہ ایک کروڑ غریب بنگلہ دیشی خانماں برباد مہاجر ہیں جو رشوتیں دے کر گولیوں کی بوچھاڑ میں سرحد عبور کر کے بھارت معمولی نوکری کرنے کے لیے گئے تھے۔ آج ان کی وجہ سے پورے بھارت میں بسنے والے پچیس کروڑ مسلمانوں سے یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ تمہارے پاس کیا ثبوت ہے کہ تم پیدائشی بھارت کے رہنے والے ہو۔ آج اگر شیخ مجیب الرحمن زندہ ہوتا اور اس بڑھاپے میں بھارت جا کر رہنے کی خواہش کرتا تو سرحد پر روک لیا جاتا کہ ایک مسلمان کے ناپاک وجود کو بھارت کی سرزمین میں داخل نہیں ہونے دیں گے اور اس کے ساتھ بھاگ کر آنے والے ہندوئوں کو ہار پہنا کر خوش آمدید کہا جاتا۔ کل اگر ویسا ہی منظر بنگلہ دیش میں برپا ہو جائے جیسا شیخ مجیب الرحمن کو قتل کرنے اور اس کی لاش کو کئی دن تک بے یارو مددگار پڑے رہنے کا عالم تھا تو آج حسینہ واجد اگر بھاگ کر بھارت کا رخ کرے گی تو بارڈر سکیورٹی فورس کی بندوقیں اس کا انتظارکر رہی ہوں گی۔ افغانستان میں روس کی فوجوں کے آنے کے بعد حریت پسند مسلمان افغانوں نے پاکستان میں پناہ لی تھی اور پھر یہیں سے انہوں نے جہاد کا آغاز کیا تھا۔ اس کے قابل افغان حکمرانوں نے بھارت کی دوستی میں پناہ ڈھونڈھی تھی۔ روسی دراندازوں کے ساتھی بھی بھارت کی آشیر باد پر پلتے رہے اور پھر جب امریکہ اپنے ساتھ اڑتالیس ملکوں کی فوج لایا تو اس کا ساتھ دینے والے بھی بھارت کی محبتوں کے اسیر تھے اور ابھی تک ہیں لیکن کس قدر بدقسمتی کی بات ہے کہ اگر کل طالبان برسراقتدار آتے ہیں تو حامد کرزئی سے اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ سب کے سب بھارت میں پناہ کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ دھتکارے جائیں گے۔ شہریت ترمیمی بل جہاں بھارت کے مسلمانوں کے لیے ایک تازیانہ تھا اور اس نے ان کے پائوں تلے سے زمین کھینچ لی تھی وہیں یہ بل پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے بھارت نواز اور بھارت پرست مسلمانوں کے منہ پر ایک زناٹے دار تھپڑ تھا۔ ان کی اپنے وطن کی مٹی سے بے وفائی کا خوفناک ’’صلہ‘‘ تھا۔ خوبصورت بات تو یہ ہے کہ شہریت بل نے بھارت کے مجبور مسلمانوں کو تو ہندو کے خلاف متحد کر دیا، لیکن پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے بھارت پرست شرمندہ تک نہیں۔ خاموش ہیں، کسی بہتر وقت کا انتظار کر رہے ہیں شاید۔ لیکن اب ایسا نہیں ہو گا۔ اب تو بس وہی معرکہ ہو گا جس کی خبر سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی ہے اور نصرت و فتح کی بشارت بھی سنائی ہے۔ غزوہ ہند کی آمد ہے۔