یہ غالباً 2006ء کی بات ہو گی کہ جب پارلیمنٹ لاجز میں میری عمران خان سے پہلی ون آن ون ملاقات ہوئی۔ عصر سے لے کر مغرب تک بے تکلف باتیں ہوئیں۔ خان صاحب کی لاج سے نکلا تو میں کپتان کی سادگی اور بے ساختگی سے بہت متاثر ہو چکا تھا۔ میرا اپنا بے ساختہ تاثر یہ تھا کہ یہ شخص اور کچھ کرے یا نہ کرے مگر یہ برسر اقتدار آ گیا تو خود ’’کشکول گدائی‘‘ تھام لے گا مگر کسی بچے کو ہاتھ پھیلانے دے گا نہ ہی کسی بچے کو ورکشاپوں ‘ ریستورانوں‘ دکانوں اور گھروں میں اپنے ننھے منے ہاتھوں سے کام کرنے دے گا اور ہر بچے کو زیور تعلیم سے آراستہ کرے گا۔مجھے یہ بھی یقین ہو چکا تھا کہ عمران خان برسر اقتدار آ کر یکساں تعلیم کے خواب کی تعبیر میں بھی تاخیر نہ کرے گا۔ اس دوران عمران خان کی سیاست میں کئی اتار چڑھائو آئے۔ مگر اس کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔ مگر اس عرصے میں عمران خان ایک مغالطے کا بھی شکار ہو گیا اور وہ مغالطہ یہ تھا کہ ایک مرتبہ کسی نہ کسی طرح برسر اقتدار آ جائو تو پھر سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ اسی فلسفے کے پیش نظر عمران خان نے کئی کمپرومائز کئے اور معیشت و گورننس وغیرہ کے بارے میں کوئی قابل قدر ہوم ورک نہ کیا۔2013ء کے انتخابات میں عمران خان کو نمایاں کامیابی ملی مگر واضح فتح کا مرحلہ ابھی دور تھا۔ اگر اس موقع پر فقیر عمران خان کا مشیر ہوتا تو اسے ایک مثالی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے اور اپنی ٹیم کو سٹیٹ کرافٹ کی اسلام آباد میں رہ کر تربیت حاصل کرنے کا مشورہ دیتا۔ تاہم خان صاحب نے اپنی تمام تر توانائیاں 2014ء کے دھرنے میں صرف کر دیں۔ دھرنے کے بعد خان صاحب نے الیکٹ ایبلز کی تھیوری کو بھی اپنا لیا۔ سیاست دان اگر ایک مرتبہ کمپرو مائز کے راستے پر چل پڑے تو پھر اسے ایک نہیں کئی کمپرومائز کرنے پڑتے ہیں۔ مقبولیت اور اجنبی الیکٹ ایبلز کی مشترکہ کامیابی کے نتیجے میں عمران خان22 جولائی 2018ء کو انتخابی فتح سے ہمکنار ہوئے۔ خان صاحب کی سیاسی و انتخابی حکمت عملی میں تبدیلی کے باوجود میری ان کے بارے میں خوش گمانی میں کوئی فرق نہ آیا۔ تاہم ان کے اقتدار کا ایک سال مکمل ہونے کو ہے اور اب میری خوش گمانی کے آبگینے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکے ہیں کیونکہ اس ایک سال میں غریب بچے اسی طرح سے زندگی کی بے رحم رتھ میں جتے ہوئے ہیں۔ خان صاحب نے جن اڑھائی کروڑ پھول سے بچوں کو زندگی کی اذیت گاہوں سے نکال کر تعلیم گاہوں میں لانا تھا اس کو تو وہ گویا بھول گئے ہیں۔ شاید کسی نے انہیں بتایا ہے نہ ہی یاد دلایا ہے کہ آج بھی بقول بیدل حیدری: بھوک چہروں پہ لیے چاند سے پیارے بچے بیچتے پھرتے ہیں گلیوں میں غبارے بچے اس ایک سال کے دوران ان پھول سے چہروں والے بہت سے بچوں کے والدین بھی روزگار سے محروم ہو گئے ہیں۔ پچھلے دور میں بھی یہاں کوئی دودھ اور شہد کی نہیں بہہ رہی تھیں مگر تب یہاں کے غریبوں کو دو وقت کی سادہ روٹی کے لا لے نہ پڑے ہوئے تھے۔ تب ان کا درد قیصر الجعفری کے الفاظ میں کچھ اور تھا: گھر لوٹ کے روئیں گے ماں باپ اکیلے میں مٹی کے کھلونے بھی سستے نہ تھے میلے میں تب ماں باپ کا غم’’کھلونا‘‘ تھا اب خان صاحب کے دور میں والدین کا غم’’روٹی‘‘ ہے۔ مقام و شکر ہے گزشتہ روز کابینہ کے اجلاس کے موقع پر جناب وزیر اعظم عمران خاں نے روٹی کی قیمت کے بڑھنے کا نوٹس لیا ہے۔ وزیر اعظم نے حکم دیا کہ یہ معاملہ فوری طور پر ای سی سی میں لایا جائے اور روٹی اور آٹے کی قیمت بڑھنے کے عوامل کو اپنی جگہ واپس لایا جائے۔ عمران خان کے ایک سالہ دور حکومت میں غربت کی شرح میں بہت اضافہ ہوا ہے کمی نہیں ہوئی۔ ورلڈ بنک کے معیار کے مطابق جس شخص کی روزانہ آمدنی 2ڈالر یعنی 300روپے سے کم ہو وہ خط غربت سے نیچے شمار ہو گا۔ پاکستان کے اقتصادی پیمانے کے مطابق جس شخص کی روزانہ آمدنی ایک سو روپے سے کم ہو وہ خط غربت سے نیچے تصور ہو گا۔ عالمی بنک کے معیار کے مطابق پاکستان میں غربت 70فیصد اور پاکستانی معیار کے مطابق اس حکومت کے آنے سے پہلے غربت 25فیصد اور اب یہ 35فیصد ہے۔ پلاننگ کمشن کے تازہ سروے کے مطابق پاکستان میں تقریباً پونے آٹھ کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے ہیں۔ پنجاب میں غربت 31فیصد‘ سندھ میں 43فیصد‘ خیبر پختونخواہ49فیصد اور بلوچستان میں 71فیصد ہے۔ نان اور روٹی کی قیمتیں بھی ساری معیشت سے جڑی ہوئی ہیں، اگر ملیں بند‘ فیکٹریاں بند‘ کارخانے بند‘ بھٹے بند اور تعمیراتی منصوبے بند رہیں گے، سی پیک کے پروگرام بھی تیز رفتار نہ رہیں گے اور اقتصادی شرح نمو 5.7فیصد سے 2.4فیصد پر آ جائے۔ ہماری شرح افزائش آبادی بھی 2.4فیصد ہے۔ اس لحاظ سے ملکی معیشت صفر پر کھڑی ہے تو ملک معاشی ترقی کیسے کرے گا۔ جناب عمران خان کو ادراک ہونا چاہیے کہ ان کی حکومت میں بیرونی سرمایہ کاری آدھی رہ گئی ہے۔ خان صاحب کو یقینا یہ بھی معلوم ہو گا کہ تیز گام معیشت کے لئے سیاسی استحکام اولین شرط کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر ملک میں بحران کی حدوں کو چھوتا ہوا سیاسی ہیجان ہو گا تو بیرون ملک سے سرمایہ کار نہیں آئے گا۔ اگر آپ ہر وقت کرپشن کرپشن کا رونا روئیں گے تو اس سے سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی نہیں حوصلہ شکنی ہو گی۔ میں جس طرح سے شہر شہر مزدوروں کو سارا سارا دن کام کے انتظار میں بیٹھا اور شام کو خالی ہاتھ گھر لوٹتا ہوں دیکھتا ہوں تو ڈرتا ہوں کہ خدانخواستہ وہ دن نہ آجائے کہ جب مزدور یہ کہنے پر مجبور ہو جائے کہ؎ میں خون بیچ کے روٹی خرید لایا ہوں صد شکر کر امیر شہر نے مہنگی روٹی کا نوٹس تو لیا تاہم آج پاکستان کے ہر شہر کو دیکھ کرجاں نثار اختر کا شعر یاد آ جاتا ہے: شرم آتی ہے کہ اس شہر میں ہم ہیں کہ جہاں نہ ملے بھیک تو لاکھوں کا گزارا ہی نہ ہو