بعض لوگوں کو اَخبارات کی اِس رو ِش پر سخت اعتراض ہے کہ ُوہ قتل اَور جرائم کی خبروں کو نہ صرف نمایاں َطور پر شائع کرتے ہیں بلکہ اپنی طرف سے نمک َمرچ بھی لگاتے ہیں۔ ہمیں ایسے لوگوں سے سو فیصد اتفاق ہے۔ واقعی اَخبارات کو جرائم بالخصوص قتل پر مبنی خبروں سے احتراز کرنا چاہیے اَور عوام کویہی تاثر دینا چاہیے کہ ہمارا ُمعاشرہ اللہ کے فضل و کرم سے ہر قسم کی آلائشوں سے پاک ایک مثالی معاشرہ ہے۔ چنانچہ اَخبارات کی َرہ ُنمائی کی خا ِطر ہم یہاں نمونے کے َطور پر ایک فرضی خبرلکھتے ہیں۔ اُمید ہے‘ آئندہ نامہ نگار صاحبان اِنھِیں خطوط پر خبریں تحریر کیا کریںگے۔ ضلع لاہور کی نواحی بستی شفیق آباد میں معروف شا ِعر، مطلوب عا َلم کے ا ِہل خانہ آج صبح بیدار ہوئے تو یہ دیکھ کر حیران َرہ گئے کہ مطلوب عا َلم تو بستر پر محو ِخواب تھے لیکن اُن کا َسر چارپائی کے سرھانے‘ میز پر سلیقے اَور قرینے سے رکھا ُہوا تھا: اُن کا ریشمیں بستر گل و گلزار بنا ُہوا تھا اور سُرخ گلاب کے ُپھول چارپائی کے نیچے چپس کے فرش پر بہار کا سماں پیدا کر رہے تھے۔ مطلوب عا َلم (مرحوم) کے چھے سالہ صاحبزادے‘ عالی شان نے قانون نافذ کرنے والے اِدارے کے اہل کاروں کو بتایا: ’’ کل رات اچانک میرے کانوں میں ایسی آوازیں پڑیں جو تنگ اَور لمبی گردن والی صراحی سے پانی نکالتے وقت َپیدا ہوتی ہیں۔ یہ آوازیں ُسن کرمیری آنکھ ُکھل گئی۔ میں نے دیکھا کہ انکل بشیر جو اکثر مجھے ٹافیاں اَور کھٹی میٹھی گولیاں لا کر دیا کرتے ہیں‘ پیاز کاٹنے والے آلے سے ا ّ ُبو کی َشہ‘ رگ پر گد گدی کر رہے تھے۔ اَبّو کو ان کا یہ مذاق پسند نہ آیا اور وہ زور زور سے ہاتھ پائوں مارنے لگے۔ یہ د ِلچسپ منظر دیکھ کر میری ہنسی نکل گئی۔ ہنسی کی آواز ُسن کر امی نے کہا: ’’عالی شان‘ دُوسرے کمرے میں جا کر ّ ننھی کے ساتھ سو جائو ! ‘‘میں نے اَیسا ہی کیا۔ عالی شان کے بیان کی روشنی میں قانون نافذ کرنے والے اِدارے کے ایک رُکن نے اِس خدشے کا اِظہار کیا ہے کہ مقتول کی اَہلیہ محترمہ ّعفت آرا نے (جو خود بھی شاعرہ ہیںاَور وفا تخلص کرتی ہیں)‘ جناب بشیر احمد (مشہور سماجی کارکن) کے ساتھ مل کر اپنے مجازی ُخدا کو قید ِ حیات سے آزاد فرمایا ہے۔ سرکاری اہل کاروں کے ہاتھ مرحوم کی ایک ڈائری لگی ہے۔ جس میں درج اکثر اَشعار میں مرحوم نے دُنیا کی بے ثباتی اور بے وفائی کا ذ ِکر کیا ہے۔ سرکاری اہل کار، مرحوم کے اِن ا شعار کو بطور ِ خاص اَہمیت دے رہے ہیں : زندگی کی راہوں میں تجھ کو ہم سفر جانا کس قدر غلط سوچا ،کس قدر غلط سمجھا ٭٭٭٭٭ زِندوں کے واسطے ہیں یہ ساری مصیبتیں آسود گانِ خاک تو آسودہ حال ہیں لگتا ہے کہ مندرجہ ذیل شعر میں انہوں نے اپنی بیگم کو مخاطب کیا ہے اور "وُہ" سے مراد بیگم کا آشنا بشیر احمد ہے۔ غالباً مطلوب عالم صاحب کو ان دونوں کے معاشقے کا علم ہو چکا تھا: وُہ تیرے پاس بھی ہے، تُجھ پہ مہربان بھی ہے مگر نہ بُھول تِرے سر پہ آسمان بھی ہے پولیس حکام اَب اِن خطوط پر تفتیش کر رہے ہیں کہ مرحوم نے اِن فصیح و بلیغ ا شعار میں غالباً اِسی صورتِ حال کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اِس شبہے کی تصدیق کے لیے اِن اشعار کو کیمیائی تجزیے کے لیے ایک مشہور محقق اور ّنقاد کی لیبارٹری میں بھجوا دیا ہے۔ توقع ہے کہ کل شام تک ُحکام کو ڈاکٹری رپورٹ موصول ہو جائے گی جس سے حقیقت ِ حال کی َتہ ‘تک پہنچنے میںبہت مدد ملے گی۔ دریں اَثنا ُحکام نے علاقہ مجسٹریٹ کو محترمہ ّعفت آرا وفا کے حضور پیش کیا۔ مجسٹریٹ نے کورنش بجا لاتے ہوئے مسز ّعفت آرا وفا کی خدمت میں عرض کیا: " اے قا ِبل َصد احترام خاتون! پولیس نے آٹھ روز کے لیے آپ کی میزبانی کا شرف حاصل کرنے کی خواہش کا اِ ظہار کیا ہے جسے احقر نے منظور کر لیا ہے۔ لہٰذا آپ سے اِستدعا کی جاتی ہے کہ آپ آٹھ روز تک پولیس کوشرف ِ میزبانی بخشیں اور اپنے شو ہرِ نامدار کی حیات ِ ناپائیدار کے آ ِخر ی لمحات کا اَحوال جاننے میں پولیس کی مدد فرمائیں۔ پولیس یہ جاننا چاہتی ہے کہ اِس کارِ خیر میں آپ نے کس َحد تک تعاون فرمایا ہے اَور اِس تعاون کے پیچھے کون سا نیک جذبہ کار فرما تھا!" مسز ّعفت آرا وفا نے یہ پیش کش قبول فرما کر ُحکام کو شکر گزار ہونے کا موقع َعطا فرمایا۔ جناب بشیر احمد کے بارے میں پتا چلا ہے کہ ُوہ َبلا اِطلاع کسی ضروری کام سے کسی نامعلوم َمقام کی طرف تشریف لے گئے ہیں۔اُن کا موبائل بند مل رہا ہے اَور جس کمرے میں اُن کی رہائش تھی وہاں بھی تالا پڑا ُہواہے۔ ُحکام اَب ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں اَور جناب بشیر احمد کی واپسی کا اِنتظار کر رہے ہیں۔ ُحکام نے یہ دُعا بھی کی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ مرحوم کو ّجنت ُ الفردوس میں وُہجگہ دے جہاں زیادہ ترمرحوم شُعراء جمع ہوں تاکہ مشاعرے وغیرہ ہو سکیں اور اُن کے پسماندگان کو ہر قِسم کی رومانی کامیابی َعطا فرمائے۔ دریں اَثنا ہزاروں اَفراد نے خطوط میں مسز ّعفت آرا وفا سے اِظہار ِ ہمدردی کرتے ہوئے اُمید ظاہر کی ہے کہ ُوہ یہ صدمہ ہنسی خوشی برداشت کر لیں گی۔ وزیر ِاعلیٰ پنجاب نے اپنے قدموں پر چل کر مسز ّعفت آرا وفاکے دولت کدے کو شرف ِ قدم بوسی بخشا اور اُن کی خدمت میں بیس لاکھ کا چیک اَور ضمانت قبل اَز گرفتاری کا عدالتی حکم نامہ پیش کیا۔ اُنھوں نے محترمہ ّعفت آرا وفا اَور اُن کے ّبچوں کے ہمراہ تصویر بھی کھنچوائی۔