تحریک انصاف کے ایم این اے علی محمد خان اپنی سیاسی ترجیحات کا ذکر کرتے کرتے یوں بھٹکے کہ تاریخ کو الٹا کر دیا۔ وہ ایک تحمل مزاج‘ بردبار اور سیاست کے اکیڈمکس سے آگاہ شخصیت ہیں لیکن ثابت ہوا کہ خطابت کی طرح سیاست بھی تجاوز کی طرف لے جاتی ہے۔ دو گپی ایک کنج عافیت میں گھاس کے مخملیں بستر پر بازو کے تکیے ٹکائے لیٹے تھے۔آسمان اور زمین کے قلابے ملا رہے تھے ، گفتگو کا رخ اپنے خاندان کی بڑائی بیان کرنے کی طرف مڑ گیا۔ ایک بولا میرے دادا کا اصطبل اتنا بڑا‘ اتنا بڑا‘ اتنابڑا تھا کہ سارا دن وہ گھوڑا دوڑاتے رہتے اور اصطبل کی حدود ختم ہونے میں نہ آتیں۔ دوسرا سوچنے لگا اب میں اپنے داد کو کیسے اس کے دادا سے زیادہ صاحب کمال اور مالدار ثابت کروں۔ اس نے پہلو بدلا‘ کھڑی ٹانگ پر دوسری ٹانگ جمائی اور بولا: میرے دادا کے پاس بہت بڑا بانس تھا۔ اس بانس کا ایک سرا زمین اور دوسرا آسمان تک چلا جاتا۔ جب خشک سالی ہوتی‘ لوگ میرے دادا کے پاس آ جاتے کہ بارش کا انتظام کریں۔ دادا اپنا بانس نکالتے آسمان پر اڑتے بادلوں کو بانس سے ہانک کر ندی پر لے جاتے‘ بادل جب خوب پانی بھر لیتے تودادابانس سے انہیں گھیر کرلے آتے‘ یوں خشک زمین جل تھل ہو جاتی۔ پہلے نے بھن کر کہا کہ تمہارے دادا کا گھر تو چھوٹا سا تھا‘ اتنا بڑا بانس وہ کہاں رکھتے ہوں گے۔ دوسرا کہاں نچلا بیٹھ سکتا تھا فوراً ہمارے علی محمد خان کی طرح بات بنالی اور کہا کہ میرے دادا تمہارے دادا کے وسیع و عریض اصطبل میں بانس رکھ دیا کرتے۔ پاکستان بنا تو شہروں میں رہنے والے بہت سے مہاجرین بھی اپنے خوابوں کی سرزمین پر آ بسے۔ ان کا مسئلہ یہ تھا کہ ہمسائے میں زیادہ تر ایسے مقامی خاندان آباد تھے جن کا ذریعہ معاش باغبانی اور کھیتی باڑی تھا۔ اکثر صورت حال یہ ہوتی کہ دونوں خاندانوں کی خواتین سماجی تقریبات میں جمع ہوتیں تو اپنے خاندان کی بڑائی کے لیے کوئی نہ کوئی کہانی بنا لیتیں۔لٹے پٹے آئے مہاجر خاندان کی خواتین کو زمین کی ملکیت کا تقابل بہت کھلتا۔ ایسی ہی ایک خاتون نے اپنی زمیندار ہمسائی کو جتلاتے ہوئے بتایا کہ ہمارے ابا کے پودینے کے باغات تھے۔ ایک صاحب بھری محفل میں چہک رہے تھے۔ وہ اپنے دادا کے اوصاف بیان کر رہے تھے۔ بولے میرے دادا جب ساٹھ سال کے تھے تو انہوں نے ایک دن میں پانچ کلومیٹر پیدل چلنا شروع کیا‘ دوسرے بہت متاثر ہوئے۔ پوچھا اب دادا جان کتنا چل لیتے ہیں۔ پہلا بولا اندازہ لگالو تیس سال پہلے وہ ساٹھ سال کے تھے جب گھر سے نکلے ۔ اب جانے کتنی دور جا چکے ہوں۔ یہ سارا بیان علی محمد خان کی اس ٹی وی گفتگو پر ایک تبصرہ سمجھ لیں جس میں وہ بتا رہے تھے کہ آج کی مسلم لیگ قائداعظم کی مسلم لیگ نہیں بلکہ مفاد پرستوں نے اپنے مفاد کو مسلم لیگ کا لباس پہنا رکھا ہے۔ یہاں تک بھلا ہمیں کیا اعتراض ہوتا،مسلم لیگ میں پہلے جو مالدار شامل ہوئے وہ جاگیر دار تھے پھر صنعتکار آگئے،ان کے ساتھ ان طبقات کے اتحادی علما کرام و مشائخ بھی تشریف لے آئے،جن غریبوں نے قائد اعظم کا ساتھ دیا تھا وہ کہاں ہیں کسی کو یاد نہیں۔ کچھ آوازیں آئی ہیں کہ علی محمد نے یہ نہیں کہا کہ قائداعظم کے ساتھ جیل کاٹی بلکہ یہ کہا ہے کہ تحریک پاکستان میں قائد کے ساتھ ہونے کی وجہ سے جیل کاٹی، ان دونوں باتوں میں بہت فرق ہے ،فتنہ باز بات کو کیا سے کیا بنا دیتے ہیں۔ علی محمد خان نے اپنے خاندان کی پاکستان کے لیے قربانیوں کا ذکر کیا۔ہم مان لیتے ہیں ان کے بزرگوں نے خدائی خدمتگار تحریک کے مقابلے میں مسلم لیگ کا ساتھ دیا ہو گا لیکن انہوں نے بتایا کہ ان کے دادا نے قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھ تحریک آزادی کے دوران جیلیں کاٹیں۔ قائداعظم کی حیات کا تھوڑا بہت مطالعہ تو ہم نے بھی کر رکھا ہے۔ ہمیں کہیں پڑھنے کو نہیں ملا کہ قائداعظم نے جیل کاٹی ہو۔ پھر علی محمد علی خان کے دادا کے ساتھ اکھٹے جیل کاٹنا تو اور بھی ناقابل فہم ہے۔ سو ثابت یہی ہوا کہ خطابت کی طرح سیاست بھی تجاوز کی طرف لے جاتی ہے۔ معاملہ صرف علی محمد خان کی معصومیت کا نہیں یہاں تو بلاول بھٹو زرداری بھی فرما رہے ہیں کہ پیپلزپارٹی کو چور کہنے والے سرٹیفائیڈ چور ہیںاور آصف علی زرداری باعزت بری ہو چکے۔ دوسری طرف کی بھی سن لیں۔ پانامہ کیس کی سماعت کے دوران کہیں مریم نواز نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنے خاندان کی عظمت بتاتے ہوئے کہا تھا کہ کیاانہیں معلوم نہیں کہ ہمارا تعلق حکمران خاندان سے ہے؟ وہی حکمران خاندان جس کے اصطبل میں سارا دن گھوڑا دوڑائیں تو پھاٹک نہ آئے‘ وہی حکمران خاندان جس کے پاس اتنا بڑا بانس ہے کہ لندن میں بیٹھ کرپاکستان اور پاکستان میں بیٹھ کر لندن کے بینکوں میں دولت کے بادل گھیر گھار کر لے آتا ہے‘ وہی پودینے کے وسیع و عریض باغات اور پودینے کے درختوں پر لگا ہوا پھل۔ علی محمد خان بے چارہ تو تاریخ کو غلط بیان کرتے ہوئے تبصرے کی زد میں آ گیا۔ دوسروں کو کیا کہیں جنہوں نے اپنے اپنے دور اقتدار میں نظام کی جڑوں میں کرپشن کی دیمک لگائی۔ عدالتیں برسہا برس سماعت کرتی ہیں‘ مہنگے وکیل اپنے جونیئروں کی معیت اور سیاسی کارکنوں کی صفوں کے ساتھ عدالت آتے ہیں۔ رہے سدا کے محروم عوام تو زبان حال سے کوئی ان کی بھی سن لے: ساڈا بولے نہ وکیل اْکا چندرا نی تیرے ولوں جج بولدا