صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کچھ عرصہ قبل ایک ٹوئیٹ کے ذریعے نئی حکومت کے قیام کی خواہش کا اظہا ر کیا تھا۔انہوں نے کہا کہ جمہوریت کو مفاد پرست ٹولہ کے ہاتھوں یرغمال بنانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ بادیِ النظر میں نئی حکومت کے قیام کا مطلب ان کی معاونت سے دوبارہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت لیا جارہا ہے۔اس وقت پاکستان دیوالیہ ہونے کے دھانے پر کھڑا ہے۔ معاشی بدحالی کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ ڈالر 240 روپے کا ہوگیا ہے۔جبکہ سری لنکا تب دیوالیہ ہوگیا تھا جب ڈالر نے 200کے ہندسے کو ٹچ کیا تھا۔ پیٹرولیم مصنوعات تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں۔ غریب کا چولہا بجھ گیا ہے۔ مہنگائی کا نہ تھمنے والا سیلاب غرباء کے گھروں میں داخل ہوچکا ہے۔ آج بنگالی ٹکا ہمارے روپے سے کہیں آگے نکل گیا ہے۔ بنگلہ دیش کے زرِ مبادلہ کے ذخائر پاکستان سے چھ گنا زیادہ ہوچکے ہیں۔ کراچی کی بڑی صنعتیں بنگلہ دیش منتقل ہوچکی ہیں۔ بنگلہ دیش حکومت نے شدت پسند عناصر کا قلع قمع کردیا ہے۔ عدالتی نظام کو جدید خطوط پر استوار کیا ہے۔ ہمسائیوں کے ساتھ تعلقات میں ملکی مفاد کو پہلے نمبر پر رکھا ہے۔ دوسری طرف ہمارا نظام حکومت تاحال یہ طے نہیں کرپایا کہ کیا ہم واقعی جمہوریت ہیں؟یا ہم طالع آزماؤں کے زیر سایہ چلنے والی حکومت کا حصہ بن کر ہی خوش ہوتے ہیں؟ کیا ہم خالص اسلامی حکومت ہیں؟ ہم کیا ہیں؟ پچھلے چوہتر سالوں میں ابھی تک یہی طے نہیں ہوپایا۔ بانی ِ پاکستان کے انتقال کے بعد ہر سیاسی جماعت ان کے زیر سایہ پلی بڑھی اور پروان چڑھی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ حیران کن طور پر ہر سیاسی جماعت انکی پشت پناہی میں خوش رہی ہے۔ وہ اپنے موقف کی تائید میں جگہ حق بجانب ہیں کہ سیاستدان اپنے سیاسی فیصلوں سے خود کو مفاد پہنچانے کے ساتھ ساتھ قومی وقار اور ملکی سالمیت پر کمپرومائز کرنے لگتے ہیں اس لئے ڈکٹیٹروں کو مداخلت کرنا پڑتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے سربراہان بھی یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ انہیں چلنے نہیں دیا جاتا بلکہ ہر موقع اور ہر موڑ پر انہیں بے جا مداخلت کا سامنا رہتا ہے اس لئے وہ حلقوں کے ساتھ مل کر حکومت کرنے پر مجبور ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ کھل کر حکومت نہیں کرپاتے۔ کسی گروپ کو اپنی نوکری عزیز ہوتی ہے۔ جب طالع آزماء اقتدار پر قابض ہوتا ہے تو ایک پلڑا بھاری ہوجاتا ہے اور جب سیاسی حکومت آتی ہے تو دوسرا پلڑا بھاری ہوجاتا ہے۔ ہر ادارے نے اپنے مطابق اپنے اختیارات کی آئینی و قانونی تشریح کررکھی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو سابق حکمران جماعت پاکستان تحریک ِ انصا ف کے اقتدار کے جبری خاتمے کے ساتھ ہی ملک میں ہیجان انگیزی بڑھ گئی ہے۔ ڈالراکیاون روپے بڑھ گیا ہے۔ پیٹرول کی قیمت میں محض دومہینوں میں 82روپے یک مشت اضافہ ہوا ہے۔ برسرِ اقتدار حکومتی اتحاد نے فوری طور پر الیکٹرانک ووٹنگ کے قانون کا خاتمہ کیا ہے اور بہت ہی تیزی کے ساتھ نیب کے قوانین میں ترمیم کرکے نیب نامی (خونخوار) شیر کی کھال اتار کر، پاؤں اور بازؤ ں کو دھڑ سے الگ کرنے کے بعد اْسے بکرا سمجھتے ہوئے سالم انگاروں پر رکھ دیا ہے۔ یہ اس بکرے کو کھانے کے لئے تیار ہی بیٹھے تھے ۔ ملک کے اس سیاسی بھونچال میں کوئی ادارہ، کوئی سیاسی رہنما، کوئی حکمران یہ سوچنا گوارا ہی نہیں کررہا ہے کہ ملک میں کیا ہونے جارہا ہے۔ کیونکہ سبھی طاقتور اداروں کے سربراہان اور طاقتور افراد نے اپنا دھن دولت، بیوی بچے اور کاروبار باہر کی دنیا میں منتقل کردیا ہے۔ اس لئے انہیں اس چیز سے فرق ہی نہیں پڑتا کہ ملک میں رہنے والے بائیس کروڑ عوام کا کون ولی وارث ہوگا؟ ان کی بلا سے پاکستان کل کی بجائے آج ہی دیوالیہ ہوجائے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ادارے اور افراد ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈالنے کے بعد اس ملک سے فرار ہوجائیں گے۔ سری لنکا کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اس صورتحال میں صدر ِ مملکت کی خواہش بالکل حق بجانب ہے۔ یقین جانئے کہ پاکستان بھر کے عوام یہی چاہ رہے ہیں کہ فوری طور پر ایک ایسی قومی حکومت تشکیل دی جائے جو انتہائی ایماندارٹیکنو کریٹس پر مشتمل ہو۔ ایسے افراد جن کے دامن پر کسی بھی طرح کا داغ نہ ہو۔ یہ قومی حکومت دس وزراء پر مشتمل ہو، صوبائی حکومتوں میں وزرا ء کی تعداد وفاقی کیبنٹ سے بھی کم ہو۔قومی حکومت کے یہ وزراء قرآن ِمجید اور آئین پاکستان پر ہاتھ رکھ کر حلف اٹھائیں کہ وہ پوری ایمانداری، غیر جانبداری اور اللہ کو حاضر ناظر جان کر اپنے فرائض ِ منصبی سرانجام دیں گے۔ یہ قومی حکومت ہر طرح کے اختیارات سے لیس ہو کر فیصلے کرے۔ بدعنوان افراد کو بلا تفریق گرفتار کیا جائے اور تین ماہ کے اندراندر انکوائری مکمل کرنے کے بعدانہیں قرارِ واقعی سزا دی جائے۔ سب بدعنوان افراد کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالا جائے۔ یہ قومی حکومت اپنے ہر اقدا م پر پریس کانفرنس کے ذریعے عوام کو اعتماد میں لے۔ روزانہ کی بنیاد پر حکومت اپنے اقدامات کے متعلق عوام کو آگاہ کرے کہ کن افراد کو کن جرائم کی پاداش میں گرفتار کیا گیا ہے اور کن جرائم کے ثابت ہونے پر انہیں پھانسی دی جارہی ہے۔ وطن ِ عزیز میں تاحال صرف ایک وزیراعظم کو سیاسی انداز میں پھانسی دی گئی ہے۔ جب کہ یہ قومی حکومت خالص ملکی مفاد میں سابق اور موجودہ حکومتی عمائدین اور دیگر مقتدر اداروں کے بدعنوان افراد کو چن چن کر پھانسیاں دے۔ یہ سزائیں مینارِ پاکستان کے عین نیچے دی جائیں۔ ہمارے ہمسایہ ملک چین نے اسی اصول پر چنددہائیوں میں ترقی کی ہے۔ چین نے یہ طے کیا ہے کہ وہ بدعنوان افراد کو کسی بھی دباؤ میں آئے بنا قرار واقعی سزا دے گا۔ یہی وجہ ہے چند ہی امثال کے بعد چین میں بدعنوانیت تقریباََ ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ سبھی اداروں کے افسران و ملازمین کو عہدہ اور ملازمت اختیار کرتے ہی ملکی قوانین کا ادراک ہوتا ہے کہ بدعنوانیت میں ملوث افراد کو سزا دی جائے گی۔ یقین جانئے سینکڑوں وزراء اربوں روپے کی تنخواہیں وصول کرتے لاکھوں ملازمین، الاؤنسز، سہولیات کا بوجھ اٹھانے سے ہماری معیشت اب قاصر ہے۔ اس لئے ہمیں خالصتاََ قومی مفاد میں مندرجہ بالا افراد کو کڑوی گولی کھلانی ہوگی۔