کرتارپور راہداری کا سنگ بنیاد رکھ جانا پاک ہند تعلقات کا اصولاً نیا موڑ ہونا چاہیے لیکن ایسا تو اسی وقت ہو گا جب مخصوص ہندوانہ ذہنیت بتدریج تبدیل ہوگی۔ اس ذہنیت کا سب سے بڑا مسئلہ تنگ نظری اور بدترین عصبیت ہے۔ جسے احساس کمتری نے جنم دیا ہے۔ تاریخی حقیقت تو یہی ہے کہ 1857ء کی جنگ آزدی مسلمانوں اور ہندوئوں نے مل کر لڑی تھی لیکن شکست کے بعد بہ قول سرسید ہندو گنگا جل میں نہا کر پوتر ہو گئے اورانتقام کا سارا ملبہ مسلمانوں پر آ گرا اور انہیں چن چن کر اسی طرح مارا گیا کہ بہ قول مولوی ذکاء اللہ دہلوی مدتوں تک دہلی میں کوئی جوان رعنا نظر نہ آتا تھا۔ پورے ہندوستان پر حکومت کرنا انگریزوں کو اسی طرح ممکن نظر آیا کہ ہندوئوں اور مسلمانوں کے بیچ نفرت و عداوت کا بیج بویا جائے۔ دونوں قوموں کو ایک دوسرے کے خلاف اسی طرح صف آرا کردیا جائے کہ یہ آپس ہی میں الجھی رہیں اور اپنے مشترکہ دشمن کی طرف ان کی توجہ نہ ہو پائے۔ اس کے لیے سب سے محفوظ راستہ آٹھ صدیوں تک ہندوستان پر مسلم راج کی ایک ایسی تصویر تعلیم یافتہ ہندو ذہنوں میں کھینچ دی جائے کہ دونوں قومیں تاریخ کی قیدی ہو کر ماضی سے نفرتیں کشید کر کے حال کو ابتر و بدتر بنا دیں۔ انگریز مورخین نے اس مقصد کے لیے محمود غزنوی اور اورنگزیب عالمگیر کو جھوٹی او ربے بنیاد تاریخ نویسی کا نشانہ بنایا۔ یہ الگ بات کہ اب خود ہندو مورخین ان دونوں حکمرانوں کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔ لیکن نفرت و بیزاری کی جو آگ انگریز مورخین نے بھڑکائی تھی۔ اس کے اثرات ہم پرتھوی میزائل اور اس کے جواب میں غوری میزائل کے ناموں سے دیکھ سکتے ہیں۔ اس میں کیا شبہ ہے کہ اسلام کے بھائی چارے اور امن و دوستی کی تعلیم کے سبب مسلمانوں میں تاریخی طور پر ہندو یا سکھ یا عیسائی مذاہب کے ماننے والوں کے لیے نفرت کے جذبات بالعموم ناپید ہورہے ہیں۔ باوجود اس کے کہ بھارت نے ہمارے ملک کو دو نیم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا اور آج بھی وہ پاکستان کو پھلتا پھولتا دیکھنا نہیں چاہتا۔ کرتار پور راہداری کھولنے پر پاکستانی فیصلے نے تنگ ہندوانہ ذہنیت کو شدید پریشانی سے دوچار کردیا ہے۔ آرمی چیف اور ہمارے وزیراعظم نے ترپ کا ایسا پتہ پھینکا ہے جس نے مودی سرکار کو برافروختہ کردیا ہے۔ عرصہ ہائے دراز تک تو کانگرسی پالیسی پاکستانی مسلمانوں سے جھوٹی محبت کے پینگ بڑھانے کی رہی ہے۔ بھارت کے ثقافتی طائفوں کے پروگراموں میں ہمیشہ ہی سننے میں آتا رہا کہ تقسیم کی لکیر کھینچ کر دونوں قوموں کو جدا کردیا گیا، ورنہ ہم ایک ہیں۔ برسوں پرانی بات ہے کہ ہم بھارت کے شہر پٹنہ کی مشہور تاریخی لائبریری خدا بخش لائبریری میں اردو اخبارات کی تاریخ پر کام کی غرض سے مقیم ہوئے تو تبادلہ خیال کے لیے ایک شام کا اہتمام کیا گیا۔ وہاں بھی ہمیں یہی راگ سننے کو ملا کہ پاک بھارت کے درمیان تقسیم کی ایک غیر فطری لکیر کھینچ کر دو قوموں کو جدا کردیا گیا۔ اس پر ہم نے عرض کیا کہ تقسیم کی یہ لکیر خون سے کھینچی گئی ہے، اسے مٹانے کی ہر کوشش نہ صرف بے سود ہو گی بلکہ ہمارے لیے تشویش انگیز بھی ہوگی۔ اب اگر دوستی اور بھائی چارے کی کوئی بات ہو گی بھی تو وہ دو ملکوں کے درمیان ہوگی۔ تقسیم کی یہ لکیر مٹائی نہیں جا سکے گی۔ ہمیں آپ کی ایسی محبت سے خوف آتا ہے کیونکہ جو کچھ ہوا اس کے تاریخی اسباب ہیں اور ان اسباب کو نظر انداز کرنا غیر حقیقت پسندی ہوگی۔ مسلمانوں کا کوئی ایک ہی بڑا لیڈر ایسا نہیں ہے جس نے ابتدا میں ہندوئوں کا دل جیتنے کی کوشش نہ کی ہو۔ لیکن یہ کانگرس تھی جس نے متحدہ قومیت کا راگ الاپ کر اور عملاً مسلم دشمنی کا رویہ اپنا کر مسلمانوں کو ایک علیحدہ وطن کے مطالبے کی طرف دھکیلا اور اب جب ہم مسلمان ایک علیحدہ وطن کے مالک بن گئے تو اسے مٹا کر ایک بار پھر اکھنڈ بھارت کے خواب دیکھے جا رہے ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہو سکے گی۔ ہمارے اس بھاشن پر حاضرین مجلس خاموش ہو گئے۔ المیہ یہ ہے کہ مطالعہ پاکستان کا مضمون سکول سے یونیورسٹی تک کے زمانے تک بار بار پڑھائے جانے کے باوجود ہم اپنی نئی نسل کو یہ سمجھانے میں ناکام رہے ہیں کہ اس خطے میں مسلمانوں نے اپنا علیحدہ وطن بنایا تو کیوں؟ ساری بات یہ ہے کہ کامیابی کے سو باپ ہوتے ہیں اور ناکامی یتیم ہوتی ہے۔ ایک علیحدہ وطن حاصل کرنے کے باوجود بدنصیبی سے ہم اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکے۔ مختلف وجوہ کی بنا پر ہم اپنے وطن میں ایک عادلا نہ، مشفقانہ نظام نافذ نہ کرسکے۔ سیاست دانوں کی لیا ڈگی اور فوجی حکمرانوں کی غیر آئینی حکومتوں نے منزل کی راہ کھوٹی کی۔ خدا خدا کر کے اب احوال و آثار اچھے نظر آنے لگے ہیں اور ہم بہتر فیصلے کی پوزیشن میں آئے ہیں ، تو بھی ایک طبقہ ایسا ہے جسے یہ تبدیلی راس نہیں آ رہی اور مسلسل تنقید ہائے بے جا سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے سمت سفر ملک کی ٹھیک نہیں ہے۔ ہتھیلی پر سرسوں جمانے کے بجائے بہتر ہوگا کہ نئی حکومت کو کام کرنے کا موقع دیا جائے۔ نئی حکومت مانا کہ ناتجربہ کار ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ فیصلوں میں اس سے غلطیاں سرزد ہوں گی لیکن غلطیاں اسی سے ہوتی ہیں جو کچھ کرتا ہے اور کچھ کر گزرنے کا عزم رکھتا ہے۔ ستر برسوں میں جو کام نہ ہو سکے وہ ستر دنوں میں کیسے ممکن ہیں۔ حکومت کے ایک سو دنوں کا حساب کتاب کرنے والے نہ بھولیں کہ آج تک اس ملک میں ایک ڈیڑھ دہائیوں تک حکومت کرنے والوں کا اس بے چینی اور سختی سے محاسبہ نہیں کیا گیا۔ جیسا محاسبہ موجودہ حکومت کا کیا جارہا ہے۔ ہمیں اس سے انکار نہیں کہ موجودہ حکومت سے غلطیاں ہوئی ہیں۔ نامناسب فیصلے بھی ہوئے ہیں اوربعض رویے بھی قابل اصلاح ہیں لیکن ان سب باتوں کے باوجود ہمیں یقین ہے کہ پانچ برسوں میں یہ حکومت اصلاح و تبدیلی کے وہ کام کرلے گی جو پچھلے ستر برسوں میں نہیں ہو سکے، جو تبدیلی نظر آ رہی ہے وہ اہل نظر کی نگاہ میں ہر کام کے برابر بھی اہم نہیں۔ کیوں؟ اسی لیے کہ موجودہ حکومت سے توقعات بہت زیادہ ہیں۔ کوئی شبہ نہیں کہ یہ توقعات تحریک انصاف کی قیادت ہی نے اپنے دعوئوں اور بیانات سے پیدا کی ہیں۔ اب جدید جمہوری سیاست کا انداز یہی ہے کہ بڑے بڑے وعدے کرلیے جائیں یہ سوچے سمجھے بغیر کہ ان کا روبہ عمل آنا ممکن بھی ہوگا یا نہیں۔ انتخابی سیاست کے کھیل کا یہ حصہ ہے لیکن ابھی تک جو کچھ ہوا ہے، وہ بھی پہلے کبھی نہیں ہوا۔ کرتار پور راہداری کا کھلنا بھی ان ہی کاموں میں سے ہے۔ اس کے جو خوشگوار نتائج سامنے آئیں گے اس کا سہرا آرمی چیف اور وزیراعظم ہی کے سربندھے گا اور ایسا ہونا بھی چاہیے۔