بارہ اگست2014 کو امریکی سفارتخانے سے اطلاع آئی کہ ملک میں عمران خان کے چودہ اگست کو اسلام آباد میںدھرنے کے اعلان کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر امریکی سفیر رچرڈ اولسن بات کرنا چاہتے ہیں۔بھاگم بھاگ دوپہر طے شدہ وقت پر پہنچے، وقت کے پابند امریکی سفیر نے میٹنگ روم میںموجود دس صحافیوں سے فرداً فرداً مصافحہ کیا اور بیٹھتے ہی اپنا مدعا بیان کر نا شروع کیا۔ حیرت انگیز طور پر انکی بات چیت دھرنے سے زیادہ ملک میں متوقع مارشل لاء پر مبنی تھی۔ انہوں نے اپنے پندرہ منٹ کے ابتدائیے میں ہمیں یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ امریکہ جمہوریت کو سپورٹ کرتا ہے اور کرتا رہے گا۔ کسی بھی صورت مار شل لا ء کو قبول نہیں کیا جائے گا، اگر مارشل لاء لگا تو پاکستان کو امریکی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سچی بات ہے مجھے یہ لیکچر ہضم نہیں ہو رہا تھا کہ بات دھرنے کی ہے اور اسکے نتیجے میں ہونے والے مطالبات کے ماننے یا نا ماننے کی ہے، مارشل لاء پر اس قدر زور کیوں دیا جا رہا ہے۔جب میری باری سوال کرنے کی آئی تو آغاز میں نے کہا کہ، مسٹر ایمبیسیڈر آپکی مارشل لاء کے حوالے سے تشویش اپنی جگہ لیکن آپکی تاریخ تو کچھ اور بتاتی ہے، بہر حال میرا موضوع یہ نہیں ہے میرا سوال دھرنے کے حوالے سے ہے۔ اس پر رچرڈ اولسن ، جو کہ ایک متحمل مزاج سفارتکار ہیں، برہم ہو گئے اور کہا کہ،Let me explain, why we supported military regime۔ خیر اصل موضوع ہوا ہو گیا اور انہوں نے نے ایک اور بیس منٹ کا لیکچر پاکستان میں لگنے والے مار شلائوں اور امریکی حما یت کی وجوہات پر دے دیا۔ اس وقت با لکل سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کسی کو مارشل لاء کا خطرہ نہیں محسوس ہو رہا یہ امریکی سفیر کیوں اتنے پریشان ہیں۔اب جا کے سمجھ آیا کہ انکا بریف اس دھرنے کے بارے میں کیا تھا۔ شجاع نواز کی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب "The Battle for Pakistan, The Bitter US Friendship and a Tough Neighborhood" میں رچرڈ اولسن کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہااس وقت کے آئی ایس آئی کے چیف لیفٹنٹ جنرل ظہیر الاسلام ملک میں مارشل لاء کے خواہشمند تھے جسکو اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ناکام بنا دیا۔امریکی سفیر نے اس بارے میں اپنی معلومات پر تفصیل سے بات کی ہے۔ انکی معلومات کس حد تک درست تھیں اسکا تو پتہ نہیں لیکن اس سے ایک بار پھر یہ پتہ چلتا ہے کہ امریکی افسران جہاں متعین ہوتے ہیں انکے معاملات کے حوالے سے زیادہ با خبر ہوتے ہیں لیکن اپنے معاملات میں چراغ تلے اندھیرے کے مترادف ، با لکل بے خبر ہوتے ہیں۔ رچرڈ اولسن اسکے بعد امریکہ کے افغانستان اور پاکستان کے خصوصی نمائندے بھی مقرر ہوئے لیکن انہیں افغانستان کے اندر سے امریکی عوام اور پارلیمنٹ کو کامیابی کے گمراہ کن قصے پہنچانے کی کبھی خبر نہ ہو سکی۔جس کے بارے میں حال ہی میں نیو یارک ٹائمز کی نمائندہ لارا جیکس نے رپورٹس لکھی ہیں۔ جن کے مطابق عراق اور افغانستان میں کھربوں ڈالر خرچ کرنے اور ہزاروں لاشیں اٹھانے کے بعد وہ بری طرح سے شکست کا سامنا کر رہے ہیں۔ کامیابی کا کوئی امکان نہ ہونے کے باوجودامریکہ یہ جنگ جاری رکھنے پر مصر ہے۔ ویتنام کی جنگ میں بھی امریکی حکومت اپنی شکست ماننے کو تیار نہیں تھی اور بالآخر جس طرح سے انہیں وہاں سے تباہ حال ہو کر نکلنا پڑا اسکے بارے میں پینٹا گون پیپرز سامنے آئے تودنیا اور امریکی عوام کو پتہ چلا کہ یہ وہاں کسی کی مدد کرنے نہیں گئے تھے بلکہ اصل کام چین کے خطے میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنا تھا ، جو اس وقت کسی بھی حوالے سے اتنا طاقتور نہیں تھا۔افغانستان اور پھر اسکی آڑ میں برطانوی انٹیلی جنس ایجنسی سے جعلی میمو بنوا کر عراق میں ایٹمی ہتھیاروں کاڈھونگ رچانے کے پیچھے بھی شاید اسی قسم کی سوچ کار فرما ہوگی۔ چین کے خطے میں سب سے اچھے دوست پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن سٹیٹ کا میڈل لگا کر الجھایا جائے تا کہ چین ون بیلٹ ون روڈ کے منصوبے کودنیا کے سامنے پیش نہ کر پائے۔ سی پیک شروع ہو چکا ہے لیکن اسکو روکنے کی کوششیں ابھی تک جاری ہیں۔ اگرچہ امریکہ افغانستان میں امن کی خواہش کا اظہار کر رہا ہے اور اپنی افواج کو بھی وہاں سے نکالنے کی باتیں کر رہا ہے لیکن اس خطے میں چینی اثر و رسوخ کو روکنے اور پاکستان کو الجھانے کے لئے اسے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی صورت میں ایک اور مہرہ میسر آ گیا ہے۔مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اندھے کو بھی نظر آ رہی ہے، نہیں آ رہی تو امریکہ بہادر کو ۔بھارت کے اندر جو کچھ ہو رہا اس پر بھی امریکہ گنگ ہے۔ بظاہر دکھائی دے رہا ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر پاکستان اور بھارت کو eye ball to eye ball رکھو، دریں اثناء مودی کے ہندوتوا کے ایجنڈے کو فرغ دو۔ جو کچھ بھارت کے اندر ہو رہا ہے اس کا فطری نتیجہ بھارت کی توڑ پھوڑ یا کم از کم ایک انتہائی کمزور ریاست کی صورت میں نکلے گا جس میں مختلف مذاہب کے ماننے والے بر سر پیکار ہونگے۔ ایک کمزور اور معاشی طور پر بد حال ریاست سے بہتر خطے میں امریکی ایجنڈا کوئی نہیںپورا کر سکتا۔اس لئے اس خطے میں امریکا کی امن کی خواہش ایک دھوکا ہے اسے چین کے خلاف جنگ لڑنے کے لئے ایک اور فرنٹ لائن سٹیٹ چاہئے جو پاکستان کبھی بھی نہیں بنے گا ۔توقع کی جارہی ہے کہ نئی دہائی دنیا میں امن کی دہائی ثابت ہو گی لیکن ا مریکی عزائم سے لگتا ہے کہ اگلے چند سالوں میں ایک بار پھر اس خطے میں بارود اورخون کا بازار گرم ہونے کو ہے۔ ابھی وہ کچھ دیر مشرق وسطیٰ میں اپنا کھیل کھیلے گا اور شاید ایران کے ساتھ بھی ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ ہو لیکن نئی دہائی کے وسط سے وہ ایک بار پھر چین کا رخ کرے گا۔ ہمارے پاس وقت ہے کہ ہم اپنے کارڈز ابھی سے ٹھیک کھیلیں۔ اس میں سب سے اہم معاشی خود مختاری ہے جس کیلئے پوری قوم متحد ہو کر کام کرے گی تو کامیابی ملے گی۔