عزت مآب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے جس دن سے اس مملکتِ خداداد پاکستان کے حوالے سے سپریم کورٹ میں کھڑے ہو کر یہ کہا ہے، ’’لگتا ہے ہم پاکستان نہیں کسی گٹر میں رہ رہے ہیں‘‘، اس دن سے میں صحیح طور پر سو نہیں سکا۔ قاضی فائز عیسیٰ چونکہ نسلاً ہزارہ سے ہیں۔ان کے دادا قاضی جلال الدین افغانستان سے ہجرت کر کے ریاست قلات میں آئے تھے، اس لیے ہو سکتا ہے انہیں اپنی آبائی زبان فارسی ابھی تک بھولی نہ ہو،اس لیے میں شیخ سعدی کی وہ رباعی ان کی نذر کرنا چاہتا ہوں، جسے میں بچپن سے بہت محبت سے پڑھتا آیا ہوں۔احتیاطاً ترجمہ بھی تحریر کر رہا ہوں کہ آپ کی پرورش جس ماحول میں ہوئی ہے، ہو سکتا ہے آپ کو مترجم کی ضرورت پڑے۔ حبّ ِ وطن ز ملک سیلمان خوش تر است خار ِ وطن ز سنبل و ریحان خوش تر است یوسف کہ بہ مصر پادشاہی می کرد می گفت گدا بودنِ کنعان خوش تر است ترجمہ: ’’وطن کی محبت سیلمان ؑ کی بادشاہت سے بہتر ہے، وطن کا کانٹا سنبل و ریحان سے بہتر ہے۔حضرت یوسفؑ مصر پر بادشاہت کرتے تھے مگر کہتے تھے کہ کنعان میں بھکاری ہونا اس سے بہتر ہے‘‘۔ میری اس ملک سے محبت کی وجہ یہ نہیں کہ میں یہاں صرف پیدا ہواتھا۔ میں اس سرزمین سے اس کے جغرافیے کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی وجۂ تخلیق کے ناطے عشق کرتا ہوں۔ یہ اس پوری دنیا کے ممالک میں اللہ کے نام پر کی گئی واحد جغرافیائی تقسیم ہے۔ مکّہ و مدینہ کی جن گلیوں کے ذرّوں پر میری جان فدا ہے ۔ وہ دونوں بھی جس مملکتِ سعودی عرب میں واقع ہیں اس کی جغرافیائی لکیریں بھی اس بنیاد پر نہیں کھینچی گئی تھیں کہ یہ ملک صرف کلمہ گو مسلمانوں کا وطن ہوگا۔ میرے نزدیک دنیا کے نقشے پر موجود دو سو سے زائد ممالک اپنی اپنی قوم کے گھر ہیں،مگرمیں مملکتِ خداداد پاکستان کو ایک مسجد تصور کرتا ہوں۔ دنیا کے ہر ملک کے دروازے پر وہاں بسنے والوں کی نسبت سے رنگ، زبان، نسل اور علاقے کی تختی لگی ہوئی ہے لیکن میرے ملک کے باہر اللہ کے نام کی تختی لگی ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں وطنیت کے تصور کے خلاف ہوتے ہوئے بھی پاکستان کی محبت کو ایمان کا حصہ قرار دیتا ہوں۔ محبت کی اسی شدت کی وجہ ہے کہ عزت مآب جسٹس صاحب کے فقرے پر میرا دکھ بھی گہرا ہے۔ عزت مآب جسٹس صاحب! میں نے بہت دن سوچا کہ خاموش رہوں۔ آپ کے خاندان سے ایک تعلقِ دیرینہ ہے۔ آج سے تین دہائیاں قبل میں آپ کے ولیمے میں شریک ہوا تھا، آپ کے بڑے بھائی سے میرے ذاتی نہیں بلکہ خاندانی مراسم ہیں اور آپ کے عم زادوں سے نسل در نسل خاندانی سطح پر میل ملاقاتیں ہیں۔ جج صاحب ! اس ملک نے جتنا مجھے اور آپ کو دیا ہے وہ یقینا بہت کم لوگوں کو میسر آتا ہے۔ کوئی قسمت کا مارا سڑک پر پتھر کوٹتا مزدور، ہسپتال میں خون تھوکتا بیمار یا سالوں عدالتوں سے انصاف کی بھیک مانگتا سائل ایسا کہتا تو میں اس کے دکھ دیکھ کر خاموش رہ جاتا، لیکن مجھے اور آپ کو تو اس ’’گٹر‘‘ نے بہت کچھ دیا ہے۔ اتنا کچھ کہ کسی اور ملک میں پیدا ہوتے تو تصور بھی نہ کر پاتے۔ آپ کے تو پورے خاندان پر اس ملک نے نعمتیں نچھاور کی ہیں۔ اپنے دادا کے شہر قندھار اور آبائی وطن افغانستان میں اپنی قوم کے ’’ھزاروں‘‘ کی معاشی و معاشرتی حالت دیکھ لیں اور اس وطن کی مٹی پر سجدہ ریز ہو کر اللہ کا شکر ادا کریں۔ لیکن کیا کریں اس ملک کا چہرہ بہت روشن تھا مگر اس کے چہرے کو ہم سب نے اپنے اپنے گناہوں سے بظاہر سیاہ کر دیا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود میرے ملک کا اصل چہرہ آج بھی روشن ہے، کیونکہ اس کا چہرہ وہ بائیس کروڑ عام آدمی کا ہے جو محنت کرتا ہے، ملیں چلاتا ہے، کھیت میں فصلیں اگاتا ہے، مزدوری کرتا ہے۔ لیکن ہمارے گناہ اس کی محنت کی روشنی کو دھندلا دیتے ہیں۔ کسی نے کبھی سوچا ہے کہ بلوچستان سے متعلق رکھنے والے جسٹس افتخار محمد چودھری اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے زیر سایہ چلنے والی عدلیہ کے ججوں کے دروازوں پر گوادر سے لے کر ژوب اور ڈیرہ بگٹی تک لاکھوں ایسے سائل ہوں گے جو انصاف کے لیے سالوں سے سر پٹکتے ہوں گے اور آج بھی ویسے ہی مایوس و نامراد عدل کی زنجیریں ہلا رہے ہوں گے۔ عدلیہ کا سربراہ بننے سے بھی ان کی زندگیوں میں کوئی فرق نہ آیا۔ عدالتوں میں زیرِ التوا مقدموں کے ہزاروں قیدی جو اس وقت بلوچستان کی ایسی جیلوں میں رہ رہے تھے، جہاں جانور بھی رہیں تو بلبلا اٹھیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری جب بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے تو ان کے ساتھ مجھے بلوچستان کی ایک ایک جیل میں جانے کا اتفاق ہوا ہے۔ ہر جیل سے واپسی پر اذیت ناک رات گذرتی تھی۔ آپ تو ایک طویل عرصہ وکیل بھی رہے ہیں۔ ایک ایسی برادری سے تعلق بھی رکھتے ہیں، جو اگر چاہے تو پاکستان میں عدالتوں میں زیرِ التوا کیس چند ماہ میں ختم ہو جائیں۔ عام آدمی اذیت سے نکل جائے۔ جسٹس کاظم علی نے جب تین پیشیوں میں قتل کے مقدموں کے فیصلے کرنا شروع کیے تو وکلا برادری نے ان کے خلاف ہڑتال کر دی۔ جسٹس کاظم علی نے میرے پروگرام میں کہا تھا کہ اگر جج دیانتداری سے مقدمات کاصحیح وقت سے فیصلے شروع کر دیں اور وکیلوں کی مہلت مانگنے کی درخواستیں قبول نہ کریں، تو عدالتیں اتنی فارغ ہو جائیں کہ پورے ملک سے پچاس فیصد ججوں کو فالتو قرار دے کر گھر بھیجنا پڑ ے۔ ہم سب نے مل کر اس ملک میں گند ڈالا ہے اور ہم ہی یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اس کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ آپ کے فقرے کی تلخی اس قدر ہے کہ مجھے چین نہیں لینے دے رہی۔ آپ حیران ہوں گے کہ جب بلوچستان سیکرٹریٹ میں میری پہلی پوسٹنگ ہوئی تھی تو وہ سیکرٹری بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے طور پر تھی اور میرے سامنے پہلا بڑا کرپشن سکینڈل ’’سیریلا سیمنٹ‘‘ کا پیش ہوا تھا۔ کس قدر ذہانت اور چالبازی سے اس میں کرپشن کی گئی تھی اور پھر اسے ایک ناکام پراجیکٹ کے طور پر بلوچستان حکومت کے منہ پر دے مار ا گیا تھا۔ کیا خوب قانون ہے کہ جرم تو زندہ رہتا ہے لیکن ایک مدت گذرنے کے بعد اس کے خلاف عدالت کا دروازہ نہیں کھٹکھٹایا جا سکتا۔پاکستان کی تاریخ میں کتنے ایسے ’’وائٹ کالر‘‘ جرائم ہیں جنہیں عدالتوں نے اسی وجہ سے داخلِ دفتر قرار دے کر مردہ کر دیا۔ بہت اچھا کیا کہ آپ نے اس ’’گٹر‘‘ کو مستقل ٹھکانہ بنانے سے گریز کرتے ہوئے لندن میں اپنے لیے ٹھکانہ بنا لیا۔ لیکن اس ملک کے وارث تو وہ ہیں جو یہاں جیتے ہیں، یہاں ہنستے اور روتے ہیں اور یہیں دفن بھی ہوتے ہیں۔ دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے آپ کے اس بیان پر ساحر لدھیانوی کی نظم ’’مادام‘‘ کے چند اشعار یاد آرہے ہیں: آپ بے وجہ پریشان سی کیوں ہیں مادام لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے میرے احباب نے تہذیب نہ سیکھی ہوگی میرے ماحول میں انسان نہ رہتے ہوں گے نیک مادام بہت جلد وہ دور آئے گا جب ہمیں زیست کے ادوار پرکھنے ہوں گے اپنی ذلت کی قسم آپ کی عظمت کی قسم ہم کو تعظیم کے معیار پرکھنے ہوں گے