کتنا نازک ہے وہ پری پیکر جس کا جگنو سے ہاتھ جل جائے مجھے بہت ہی انوکھا تجربہ ہوا۔ مجھے بھوک نے ستایا تو میں شاہ عالمی میں ایک ہوٹل میں آن بیٹھا اور بیرے سے مینیو پوچھا۔ بیرے سے پہلے قریب ہی بیٹھا مالک بولا ’’بائو جی!آپ ہمارے کوفتے ٹرائی کریں۔ ظاہر ہے کوفتے قیمے سے بنتے ہیں۔ اس لئے کوفتے کھانے میں سراسر رسک ہے۔ میں نے انکار میں سر ہلایا تو ہوٹل کا مالک کہنے لگا۔بائو جی ہم جدی پشتی کوفتے بناتے ہیں۔ آپ ایک دفعہ کھا لیں۔ ہمارے کوفتے کی خوبی یہ ہے کہ آپ اس چوک سے اسے لڑھکا دیں۔ اگلے چوک تک یہ ٹوٹے گا نہیں۔ میں حیران ہو کر اس کی طرف دیکھنے لگا اور کہا کہ میں کوئی فواد چودھری نہیں ہوں کہ اب یہ تجربہ کرنے باہر نکلوں۔ ویسے بھی کتنا عجیب اور مضحکہ خیز لگتا ہے کہ کوئی شریف آدمی آپ کا کوفتہ لے کر باہر نکلے چوک سے اسے لڑھکائے اورپھرپیچھے پیچھے کوفتے کو دیکھنے جائے کہ ٹوٹا یا نہیں۔ یہ جو نئی اور انوکھی باتیں ہوتی ہیں لطف اٹھانے کے لئے تو ٹھیک ہیں تجربے کے لئے نہیں ہوتیں۔ اسی طرح بعض لوگوں کے ذہنوں میں بہت نادر اور انوکھے خیالات اور منصوبے آتے ہیں۔ جیسے کہ ہمارے وزیر اعظم اکثر پیش کرتے رہتے ہیں یا پھر ان سے متاثر ان کے وزیران و مشیران۔ ابھی میری بیگم مجھ سے پوچھ رہی تھیں کہ خان صاحب کے ذہن میں مندر بنانے کا خیال کیسے آیا۔ حالانکہ ساری دنیا کو معلوم ہے کہ مودی مسلمانوں کے ساتھ اور ان کی عبادت گاہوں کے ساتھ کیا سلوک کر رہا ہے۔ بابری مسجد کی جگہ کس ڈھٹائی سے وہ مندر بنا رہے ہیں۔ پھر اچانک اسلام آباد میں مندر بنانے کا اعلان۔ خان صاحب کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑ ہی دیتے ہیں کہ لوگ مہنگائی جیسے ایشو بھول جائیں۔ لوگوں کو پتہ تو چلے کہ اگر محمود غزنوی بت شکن تھا تو ہمارے میں صنم گر بھی ہیں۔ پھر کیا باقی کام ختم ہو گئے ہیں جو آپ مندر پر اس قوم کا پیسہ لگائیں گے اور تو اور ان کے اتحادی پرویز الٰہی نے بھی اس جسارت کو زور دار طریقے سے رد کیا ہے۔ اب ایک نیا اور انوکھا رویہ حکومت کا پی آئی اے پائلٹ کے حوالے سے سامنے آیا ہے جس وزیر بے تدبیر غلام سرور کے غیر ذمہ دارانہ بیان نے پی آئی اے کو ناقابل تلافی نقصان پنچایا ہے اس خبر میں صداقت بھی نہیں مگر شاید حکومت پی آئی اے کو بدنام کر کے کسی اپنے کو بیچنا چاہتی ہے اس کے پائلٹ دنیا بھر میں رسوا ہو گئے۔ اس سروس کو بے وزن کر دیا گیا۔ پوری دنیا میں تضحیک ہو رہی ہے مگر پی ٹی آئی والے کہیں گے کہ یہ بھی حوصلے کی بات ہے کہ نقصان کی پروا کیے بغیر نقص بتا دیا گیا۔ ابھی ایک پوسٹ دیکھی کہ عامر خاں کی فلم ہے ستارے زمین پر۔ اب غلام سرور کی فلم ہے پی آئی اے کے طیارے زمین پر۔ پتہ نہیں ہو کیا رہا ہے۔ ہمارے ستارے مسلسل گردش میں ہیں: گردش میں ہم رہے ہیں تو اپنا قصور کیا تونے ہمیں کشش سے نکلنے نہیں دیا پتہ نہیں کہاں کہاں سے ایشو ان کے ہاتھ میں آتے ہیں۔ کچھ قدرت بھی ان پر مہربان ہے۔ کبھی کورونا آ گیا تو کبھی ٹڈی دل۔ اب ٹڈی دل کے حوالے سے روز نئے منصوبے بن رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ لوگ ٹڈیوں کو پکڑیں اور 15روپے کلو کے حساب سے ایک یونیورسٹی کو بیچیں۔ اس سے کھاد اور مرغیوں کی خوراک بنائی جائے گی۔ اب دیکھیے لوگ سارے کام چھوڑ کر ٹڈیوں کے پیچھے پڑ جائیں اور ایک کلو ٹڈیاں ایسے ہی تو نہیں ہو جائیں گی۔ پہلے انہیں مارنا پڑے گا وگرنہ وہی جو سمجھتے ہوں سب سے مشکل کام مینڈکوں کی پنیری تو لنااب ٹڈیوں کے لئے جال تیار کئے جائیں گے۔ہو سکتا ہے وہ تجربہ بھی کرنا پڑے جو ریاض فتیانہ نے قومی اسمبلی میں بتایا تھا کہ تحقیق کی جائے کہ ٹڈیوں کا گوشت کورونا ختم کر سکتا ہے۔ چلیے کچھ لوگوں کی بھوک تو مٹا سکتا ہے۔ اگر آپ کو کراہت آئے تو وہ ٹڈیاں چٹنی یا مربے کی شکل میں چین کو برآمد کی جا سکتی ہیں۔ اس حکومت سے پیشتر ایسے نایاب مشورے اور تجربے کئے کس نے نہیں سنے تھے۔ شروع دن سے وزیر اعظم ہائوس کی بھینسیں بیچنے کے بجائے ان کا دودھ بیچا جاتا تو مستقل آمدنی کا ذریعہ بن جاتا۔ان پر باقاعدہ کوئی وزیر اور مشیر بنا دیا جاتا۔ اس کے بعد انڈوں اور مرغیوں کی انڈسٹری بھی کافی روز زیر بحث رہی۔ میں اپنا لکھا ہوا ایک پرانا قطعہ دیکھ کر حیران ہو گیا۔ مجھے شاعر کے وژن پر حیرت ہوئی۔مجھے پس منظر یاد نہیں شاید یہ جہانگیر کے نااہل ہونے کے بعد لکھا تھا یا کوئی اور بات تھی: پانی نہیں ملا تو شجر سوکھ جائے گا پھر شاخ ایسے پیڑ کی پھولے پھلے گی کیا عمران خان تھوڑا سا اب سوچ لیجیے نااہلیت کے ساتھ حکومت چلے گی کیا آپ ایک لمحے کے لئے سوچیے حکومت کیا کیا کر رہی ہے۔ مثلاً اب شازین کو منانے کے لئے نوازشات کر رہی ہے ایک ڈیل ہو رہی ہے جس میں خزانے پر 8ارب روپے کا بوجھ پڑے گا۔دوسرے لفظوں پر یہ بوجھ عوام پر پڑے گا۔ میرے ذہن میں خیال آیا کہ گدھے بوجھ اٹھانے کے لئے ہوتے ہیں مگر عوام پر تو گدھوں کا بوجھ بھی ڈال دیا جاتا ہے۔ پتہ چلا کہ رات کو دفتر کھول کر معاہدہ سے قبل ہی 77کروڑ اور تئیس لاکھ کا چیک شاہ زین کو دیا گیا۔ وہ دن یاد آ گیا جس دن چھٹی تھی اور راجہ رینٹل کی حکومت جاتے جاتے کروڑوں کے چیک اپنوں کو ایشو کر گئی۔ وہی پرانے حربے کہ اپنی حکومت کو بچانے کے لئے ملکی دولت اتحادیوں میں بانٹ دو۔ آپ کو بھی معلوم ہے کہ آپ ہوا میں معلق ہیں۔ ہوائوں کی زد میں ہیں اور اب تو وہ پتے بھی ہوا دینے لگے ہیں جن پہ آپ کا کچھ نہ کچھ تکیہ تھا: کبھی اس نے مجھ کو جلا دیا کبھی اس نے مجھ کو بجھا دیا میں چراغ تھا تو ہوا نے بھی مجھے ایک تماشا بنا دیا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ کی روش ہی نرالی ہے!آپ کے خواب ہی اور ہیں اور آپ کی ترجیحات ہی اور ہیں روز ایک نیا شوشہ اور ایسا شوشہ جو کسی کو بھی نہیں سوجھتا۔ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں سے شروع ہونے والا سلسلہ ابھی تک ختم نہیں ہوا۔ حتیٰ کہ لوگوں نے آپ کو شیخ چلی کہنا شروع کر دیا۔ فرق یہ کہ شیخ چلی کو کسی نے وزیر اعظم نہیں بنایا۔ تاہم بنانے والوں نے وزیر اعظم کو شیخ چلی بنا کے رکھ دیا۔ کیا آپ کو احساس نہیں کہ آپ کے کسی دعوے اور وعدے کی رتی برابر بھی اہمیت نہیں۔ تنخواہیں نہ بڑھا کر آپ نے تنخواہ دار طبقے کو مار ڈالا اور پھر سے پٹرول بم گرا دیا۔ واقعتا: اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ جس دیے میں جان ہو گی وہ دیا رہ جائے گا