آج جنوری کی تین تاریخ ہے نئے سال 2023ء کا آغاز ہو چکا ہے۔ خدا کرے یہ سال ہم سب کے لئے سعد ہو اور ہم اس نئے سال میں پرانے مسائل سے نکل سکیں۔آج کے کالم میں ہم 2022ء کے چند اہم واقعات اور ان کے پاکستانی عوام پر اثرات پر بات کریں گے۔سال 2022ء پاکستانی عوام کے لئے بہت ہنگامہ خیز رہا۔اپریل میں عمران حکومت کے خلاف عدم اعتماد کے بعد پاکستانی سیاست میں بہت ہلچل رہی۔ سارا سال الیکشن کے بارے میں بات ہوتی رہی اور اس سال بہت سے الیکشن ہوئے بھی۔ پہلے پنجاب اسمبلی کے کئی حلقوں میں ضمنی الیکشن ہوئے اور بعد قومی اسمبلی کے بعض حلقوں میں الیکشن ہوئے۔ ان الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف فاتح بن کر ابھری۔سال 2022ء اس لحاظ سے بھی بہت اہم تھا کہ اس سال میں دو بڑی تبدیلیاں بیک وقت ہوئی۔اس سال وزیر اعظم کی تبدیلی بھی ہوئی اور چیف آف آرمی سٹاف کی بھی۔ سال1988ء میں جب ضیاالحق کا جہاز کریش ہوا تو اسلم بیگ نئے چیف آف آرمی سٹاف بنے تھے اور 2013ء میں جب نواز شریف کی حکومت آئی تو جنرل راحیل شریف پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہ بنے۔اور اب شاید یہ تیسرا موقع ہے جب یہ دونوں بڑی تبدیلیاں ایک سال میں ہوئی ہیں۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان کی تین بڑی پارٹیز نے اس سال کیا کھویا اور کیا پایا۔اور پھر ہم بات کریں پاکستان کی سب سی بڑی چوتھی جماعت کی کہ اس نے اس سال کیا کھویا اور کیا پایا۔ یہ سال پیپلز پارٹی کے لئے بہت اچھا سال تھا۔ جناب آصف زرداری وفاقی سطح پر بادشاہ گر کی صورت میں میں ابھرے۔انہوں نے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر عمران خان کی سب مخالف جماعتوں کو اکٹھا کیا اور تحریک انصاف کی حکومت گرانے میں کامیاب ہو گئے۔بلاول بھٹو پاکستان کے وزیر خارجہ بن گئے۔ پنجاب میں ایک بار تحریک انصاف کی حکومت ختم کرنے میں زرداری نے بہت اہم رول ادا کیا۔ سال 2022ء نے پہلی بار چوہدری برادران میں اختلاف دیکھا ۔جناب پرویز الہی نے عمران خان کا ساتھ دیا اور وہ پنجاب کے وزیر اعلی بن گئے اور چوہدری شجاعت نے زرداری اور مسلم لیگ نون کا ساتھ دیا اور انہوں نے وفاق اور پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت ختم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ چوہدری برادران سال 2022ء میں سیاست میں بہت کامیاب رہے مگر خاندان میں اختلافات کی بنا پر یہ سال چوہدری بردران کے لئے بہت برا ثابت ہوا۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کے لئے بھی یہ سال ملا جلا رہا۔ شہباز شریف پاکستان کے وزیر اعظم بن گئے اور جناب حمزہ شہباز پنجاب کے وزیر اعلی۔ شہباز شریف تو ابھی تک وزیر اعظم ہیں مگر حمزہ شہباز کے سال کا اختتام اتنا اچھا نہیں ہوا۔ سلمان شہباز کئی سال کے بعد پاکستان واپس آگئے۔ اسحاق ڈار کی پاکستان واپسی اور وزیر خزانہ بننا بھی اسی سال کا خاصہتھا جس کی پیش گوئی کسی نجومی نے نہیں کی تھی۔ نواز شریف کے لئے یہ سال ملا جلا تھا وہ عمران خان کی حکومت گرانے میں کامیاب تو ہو گئے مگر پاکستان واپسی کا خواب ابھی پورا نہیں ہوا۔پاکستان مسلم لیگ نواز نے سال 2022ء میں حکومت حاصل کرلی مگر پنجاب میں اسکی مقبولیت کو پاکستان تحریک انصاف نے کافی دھچکا دیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے لیے یہ سال بہت ہنگامہ خیز تھا۔ اپریل میں عمران خان کی حکومت ختم ہوئی۔بعد میں پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت ختم ہوئی۔ تحریک انصاف پنجاب میں اپنی مخالف حکومت ختم کرنے میں کامیاب تو ہو گئی مگر وزارت اعلی بزدار سے پرویز الٰہی کو مل گئی۔ اس سال تحریک انصاف میں کا فی تھوڑ پھوڑ ہوئی۔ جہانگیر ترین اور علیم خان پاکستان تحریک انصاف کا ساتھ چھوڑ گئے۔پاکستان تحریک انصاف کے لئے یہ سال بہت اچھا سال ثابت ہوا۔اسکی مقبولیت میں بہت اضافہ ہوا ہے۔اس سال کے آغاز میں پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت بہت نیچے تھی۔اب وہ پاکستان کی سب سے مقبول جماعت ہے اور عمران خان ملک کے مقبول ترین لیڈر ہیں۔ مگر پاکستان تحریک انصاف کو اس سال میں بہت بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا۔ سارا سال تحریک انصاف لانگ مارچ کرتی رہی اور ابھی تک انکا الیکشن کا مطالبہ منظور نہیں ہو سکا۔اب دیکھنے کی بات ہے کہ سال 2023 ء تحریک انصاف کے لئے کیا کچھ لاتا ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج کے لئے یہ سال کوئی اچھا سال نہیں تھا۔ دہشت گردی کی لہر نے دوبارہ سر اٹھانا شروع کر دیا ہے۔پاکستان کی مسلح افواج کی قیادت کے بارے میں سماجی ویب سائٹ پر بہت کچھ کہا گیا۔ اس سال جنرل قمر جاوید باجوہ چھ سال بعد ریٹائر ہو گئے اور انکی جگہ پر جنرل عاصم منیر نے پاکستان کی مسلح افواج کی قیادت سنبھالی ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی جماعت یعنی پاکستانی عوام کے لئے یہ سال بہت کڑا تھا۔مہنگائی کے طوفان نے انکا جینا دوبھر کردیا اس ایک سال میں مہنگائی کا جن بے قابو ہوگیا اور جس گھر کا خرچہ 40 ہزار ماہانہ تھا وہ اب 60 ہزار سے تجاوز کر چکا ہے۔بے روز گاری میں بہت اضافہ ہوا ہے بڑے بڑے یونٹ بند ہو چکے ہیں۔ابھی تک پاکستان کے معاشی حالات بہت غیر یقینی ہیں۔ ڈالر 180 سے مارکیٹ میں 250 کی حد عبور کر چکا ہے۔سیاسی عدم استحکام اپنے عروج پے ہے۔ عمران خان کی نااہلی کی صورت می حالات کیا رخ اختیار کریں گے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ سب لوگ ہوش کے ناخن لیں اور ملکی مسائل کی طرف توجہ دیں۔ سب جماعتوں کو اپنے اختلافات بھلا کر ایک میز پر بیٹھنے کی ضرورت ہے۔ان لوگوں کو جنوبی افریقہ کی مثال سامنے رکھنی چاہئے جب نیلسن منڈیلا نے جنوبی افریقہ کی ترقی کی بنیاد رکھی اور وہاں ایک پر امن معاشرہ کی بنیاد رکھی۔ ان جماعتوں کے اختلافات اس حد کے نہیں ہیں۔پاکستان کی افواج کے سربراہ عاصم منیر پر بھی بڑی بھاری ذمہ داری ہے ملک کا دفاع اور پاکستانی افواج کا امیج بہتر بنانے میں انکو کچھ وقت لگ سکتا ہے مگر ناممکن نہیں ہے۔خدا کرے کہ حالات ٹھیک ہوں اور ملک چھوڑ کے جانے والے واپس آنا شروع ہوں۔ موسم سرما کے خاتمہ پر سب پرندے اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں۔