یہ قوم اپنے زخموں کا مرہم چاہتی ہے ‘مگرکس سے؟ بیری کے درخت پر کبھی آم اگے ہیں بھلا ؟ کبھی ریت کے ٹیلوں سے ہریالی ابھری ہے؟ کبھی اخروٹ کے چھلکے سے رس ٹپکا۔ کارگل کی چوٹیوں پر بکھرے لہو کا خراج کون دے گا؟لال مسجد کے معصوم لہو کا جواب کون دے گا‘ محسن پاکستان کی اسیری میں موت کس کے ذمے ؟ وانا لہو میں نہا یاتو اس کا ذمے دار کون ہے ؟کراچی کے ہزاروں انسانوں کا لہو کس کی گردن پر ہے؟قوم فکر مند ہے کہ ان کا جینا دوبھر کر دیا گیا۔غریب کا چولہا بجھ گیا لیکن ’’تبدیلی کے نتائج‘‘ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے ۔ہمارے گرد قرض کا گھیرا تنگ ہو رہا ہے اور ملک میں خانہ جنگی کی کیفیت ہے۔اس پر دکھ یہ ہے کہ اقتدار کے ایوانوں سے سب چین چین کی صدا آتی ہے۔آج کی تاریخ تک نہ کوئی نوکریا ں لینے آیا نہ ہمارا سبز رنگ کا پاسپورٹ مقام پا سکا۔ یزید بن عبدالملک اموی کے عہد میں مسلمانوں کے وفود پھر سے رتبیل کے پاس جانے لگے لیکن اسکے انکار کو اقرار میں بدلا نہ جا سکا۔ یزید بن عبدالملک نے سفارتکاری شروع کر دی اور اپنے سفیروں کا ایک وفد شاہانہ ٹھاٹھ اور کروفر کیساتھ اس کے دربار میں بھیجا ۔ مسلمان سفیروں کو دیکھ کر رتبیل کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ پھیل گئی اس نے زہر خند لہجے میں پوچھا۔’’ تمہارے وہ لوگ کہاں چلے گئے ‘ جو پہلے آیا کرتے تھے ‘ ان کے چہروں پر سیاہ گٹے ہوتے تھے ‘ ان کے پیٹ فاقوں سے کمر کو لگے ہوتے تھے ‘ جن کے پیروں میں کھجور کے جوتے ہوتے تھے…جسم پر چیتھڑے لٹکے ہوتے تھے۔ کیا ہوئے تمہارے وہ لوگ ؟‘‘ سفیروں نے بیک آواز کہا ۔ ’’ وہ تو گزر گئے ‘ اب اس دنیا میں موجود نہیں‘اب ہم حکمران ہیں۔‘‘ رتبیل نے ایک اچٹتی نظر سفیروں پر ڈالی اور حقارت سے کہا ۔ ’’ اگرچہ تمہاری صورتیں پہلوں سے زیادہ شاندار ہیں ‘ تمہاری صحت اگلوں سے زیادہ بہتر ہے ‘ تمہارے لباس بہت شاندار ہیں ۔لیکن وہ تم سے زیادہ عہد کے پابند ‘ تم سے زیادہ طاقت ور ‘تم سے زیادہ بارعب ‘تم سے زیادہ جلال والے تھے۔ مجھے تم سے خوف نہیں آتا مجھے تمہارے چہرے متاثر نہیں کر سکتے ۔تمہارا یہ کروفر جاہ و جلال میرا کیا بگاڑ سکتا ہے؟‘‘ تاریخ کہتی ہے ‘ رتبیل نے یہ کہہ کر مسلمانوں کو خراج دینے سے انکار کر دیا ۔اس صدی کے رجل عظیم ؒ نے اس واقعے پر فرمایا تھا ؟ ’’ کسی قوم کی اصل طاقت اس کی آراستہ فوجیں ‘ اس کے آلات جنگ ‘ بھرے ہوئے خزانے اس کے خوش رو ‘ خوش پوش سپاہی اور وسیع ذرائع و وسائل نہیں ہیں ‘ بلکہ اس کے پاکیزہ اخلاق ‘ اس کی مضبوط سیرت ‘ اس کے صحیح معاملات اور اس کے بلند خیالات ہیں ‘ یہ طاقت وہ روحانی طاقت ہے جو مادی وسائل کے بغیر دنیا میں اپنا سکہ چلا دیتی ہے ‘ خاک نشینوں کو تخت نشینوں پر غالب کر دیتی ہے ۔ صرف زمینوں کا وارث ہی نہیں بلکہ دلوں کا مالک بنا دیتی ہے اس طاقت کے ساتھ کھجور کی چپلیں پہننے والے ‘ سوکھی ہڈیوں والے بے رونق چہروں والے چیتھڑوں میں لپٹی ہوئی تلواریں رکھنے والے لوگ دنیا پر وہ رعب ‘وہ سطوت و جبروت ‘وہ قدرو منزلت ‘وہ اعتبار و اقتدار جما دیتے ہیں جو اس طاقت کے بغیر شاندار لباس پہننے والے ‘ بڑے ڈیل ڈول والے ‘ اونچی بارگاہوں والے ‘ بڑی بڑی توپوں اور ہولناک دبابے رکھنے والے نہیں جما سکتے ۔‘‘ یہ تو وہ لوگ نہیں جن کا خیال ہم کرتے ہیں ۔معین قریشی اور شوکت عزیزاس قوم کو الو بنا کر چلے گئے ۔ یاران نکتہ داں کہتے تھے ان کے پاس پاکستان کا شناختی کارڈ تک نہیں تھا۔مزدور بغیر شناختی کارڈ کے مل جائے تو ہماری پولیس مار مارکر اس کا بھرتا بنا دیتی ہے۔حکمران اس قوم کی ہڈیوں کے گودے تک مہنگائی اور بے روز گاری اتار گئے ‘ آنے والی نسلیں قرض تلے دبا گئے ۔ غیرملکی اقوام ہمیں کھانے کو دوڑنے لگیں۔ایک سادہ پر وقار قوم کو اتنی چالاکی کے ساتھ دھوکے اور چرکے لگائے گئے کہ اپنے اور پرائے میں فرق جاتا رہا ۔ وہ مسیحا کہاں ہے جسے اس قوم کو تلاش ہے۔وہ جو پھر سے ہمیں کھویا ہوا وقار اور آبرو لٹا سکے ۔ خوبصورت چہرے ‘ اعلیٰ ڈگریاں ‘ شاہانہ جاہ و جلال ہمارے درد کا درماں نہ بن سکا ۔ یہ قوم جن کو تلاش کرتی ہے جانے وہ کہاں ہیں ۔ کیسے منظر پر ابھریں گے۔ ایک سردار صاحب الیکٹرانکس کی دکان کے سامنے پہنچ کر رک گئے پھر بڑے باوقار انداز میں اندر داخل ہو کر ایک چیز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔ ’’ جناب اس الماری کی کیا قیمت ہے ؟‘ ‘ دکاندار نے روکھے انداز میں کہا ’’ ہم سکھوں کو اپنی چیزیں فروخت نہیں کرتے۔‘‘ غصے میں پائوں جھاڑتے ہوئے واپس آگئے ۔ اگلے روز داڑھی منڈوا کر گئے ‘ الماری کی قیمت پوچھی ‘ دکاندار نے کہا ہم سکھوں کو اپنی چیزیں فروخت نہیں کرتے ۔ تیسرے دن ذرا حلیہ تبدیل کیا سوٹ پہنا ‘ نکٹائی کسی اور الماری خریدنے کی قسم پوری کرنے کے لیے اسی دکان پر پہنچے ۔ دکاندار پر رعب جماتے ہوئے بولے۔ ’’ یہ الماری کتنے کی دو گے؟‘‘ ’’ حضور ہم سکھوں کو اپنی چیز فروخت نہیں کرتے ۔‘‘ دکاندار کا جواب سن کر وہ صاحب بھڑک اٹھے۔ ’’ آخر کیوں ؟‘‘ تمہیں کس طرح پتہ چلتا ہے کہ میں سکھ ہوں۔‘‘ مجھے… ایسے پتہ چلتا ہے حضور والا ‘ دراصل یہ فریج ہے اور آپ پرسوں سے اسے الماری کہہ رہے ہیں ۔‘‘ بیری کے درخت پر آم اور ریت کے ٹیلوں پر کبھی ہریالی نہیں اگتی۔وطن عزیز میں پھر سے اقتدار کی بساط بچھنے کو ہے ۔آنے والے حکمرانوں اور رہنمائوں کے ماضی اور حال کے خوش رنگ منظر دکھائے جا رہے ہیں ۔ مافوق الفطرت اور دیو مالائی داستانیں وابستہ کی جا رہی ہیں ۔ آنے والے عہد کے سہانے خواب دکھائے جا رہے ہیں۔یہ قوم پھر سے آزمائش کا شکار ہونے کو ہے۔ آنے والے وقت کی کوکھ سے شاید ہی کوئی عمر بن عبدالعزیز جیسا بن کر آئے ۔ اپنی قسمت معین قریشیوں اور شوکت عزیزوں کے ہاتھ میں ہے۔