وزیراعظم کی صدارت میں ہونیوالے مشترکہ مفادات کی کونسل کے اجلاس میں2017ء کی مردم شماری کے نتائج جاری کرنے اور نئی مردم شماری کرانے کا اعلان کیا ہے ۔وفاقی وزیر پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ اسد عمر نے کہا کہ نئی مردم شماری کا بنیادی فریم ورک چھ سے آٹھ ہفتوں میں مکمل ہو جائے گا اور مردم شماری پر 23ارب روپے لاگت آئے گی۔ ایک بات تو یہ ہے کہ آئینی طور پر مردم شماری ہر 10سال بعد ہو سکتی ہے ،یا پھر فوری مردم شماری کے لئے آئین میں ترمیم کرنا ہو گی ۔دوسری بات یہ ہے کہ نئی مردم شماری کا اعلان غیر انائونس شدہ موجودہ مردم شماری کو بوگس قرار دینے کے مترادف ہے ۔اگر یہ بوگس ہے تو سرکاری طور پر اس کے نتائج کا اعلان کرکے اس کے درست ہونے کی تصدیق کیوں کی جا رہی ہے ؟اور درست ہے تو 10سال سے قبل نئی مردم شماری کا کیا جواز ہے؟ حکومت کے اقدامات کو دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔ اپوزیشن کی طرف سے موجودہ حکومت پر نا تجربہ کاری کا جو الزام لگایا جاتا ہے اس طرح کے فیصلے ان الزامات کو جوازفراہم کرتے ہیں ۔ ایم کیو ایم کے فیصل سبزواری نے نئی مردم شماری کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارا مطالبہ مان لیا گیا ہے ۔فیصل سبزواری کو یہ معلوم نہیں کہ زمینی حقائق اور آئینی تقاضے کے مطابق فوری طور پر نئی مردم شماری نہیں ہو سکتی ۔ جہاں تک تحفظات کی بات ہے تو ایم کیو ایم اور حکومت سندھ کے اپنے اپنے تحفظات ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ موجودہ مردم شماری پر سب سے زیادہ تحفظات سرائیکی وسیب کو ہیں۔ وسیب کے دو بڑے شہروں ملتان اور بہاولپور کے کنٹونمنٹ ایریاز کو الگ شمار کیا گیا ، جبکہ ضلع لاہور کے دور دراز دیہات کو بھی شہری حدود میں شامل کر کے اسے پاکستان کا دوسرا بڑا شہر بنا دیا گیا ہے ۔افسوس کہ وسیب کے بڑے شہراپنی اصل آبادی سے بھی محروم ہیں ۔ جیساکہ ملتان کی شہری آبادی ایک طرف ضلع خانیوال دوسری طرف،مظفر گڑھ تیسری طرف، شجاع آباد، اور چوتھی طرف قصبہ لاڑ سے آگے نکل چکی ہے اور ہر آئے روز نئی ہائوسنگ اسکیمیں بھی بن رہی ہیں مگر یہ تمام علاقے ملتان شہر کی حدود میں شامل نہیں۔وسیب کے لئے بھی وہی فارمولا ہونا چاہیے جو لاہور کے لئے ہے۔ وسیب کے لوگوں کو نئی مردم شماری پر تحفظات اس بناء پر بھی ہیں کہ غیر سرکاری نتائج کے مطابق ملتان ملک کے بڑے شہروں کی فہرست میں ساتویں آٹھویں نمبر پر چلا گیا ہے۔ اور یہ بھی دیکھئے کہ غیر سرکاری نتائج کے مطابق ضلع رحیم یار خان کی آبادی 48لاکھ اور ضلع ملتان 47لاکھ بتائی گئی ہے ۔ اسی طرح تیسرے نمبر پر ضلع مظفر گڑھ کی آبادی 46لاکھ بتائی گئی ہے ۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ سرائیکی وسیب کے کروڑوں باشندے تلاش معاش کے سلسلے میں کراچی ، لاہور ، فیصل آبا د اور دیگر شہروں میں عارضی طور پر چلے گئے ہیں ، اور بہت کنبے بمعہ فیملی وہاں مقیم ہوئے ، جب مردم شماری کا عملہ دیہاتوں میں گیا تو اُن کو اور اُن کے گھروں کو گنتی میں شامل نہیں کیا، جبکہ وسیب میں جو لوگ یہاں آئے اُن کا شمار اُن کے سابقہ علاقوں میں بھی موجود ہے ۔یہ وہ حقائق ہیں جس کی بناء پر وسیب کے لوگ اپنا اختلافی نوٹ درج کرا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں گزشتہ روز ملتان میں سرائیکی جماعتوں کا اجلاس ہوا ، جس میں موجودہ مردم شماری پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ سب سے بڑے مجرم تو اس خطے کے سیاستدان ہیں جو قومی امور پر بات نہیں کرتے اور شاید ان کو ان امور کا علم ہی نہ ہو ۔ وسیب میں ان کے بارے میں ایک بات مشہور ہے کہ یہ اسمبلی اور ایوان میں صرف ’’اُبٖاسی‘‘ کے لیے منہ کھولتے ہیں ورنہ ان بے زبانوں نے کبھی بولنے کا ’’جرم ‘‘نہیں کیا۔یہ بھی دیکھئے کہ وسیب کے جاگیردار ان پڑھ تھے ،آج اسمبلیوں میں پہنچنے والی اُن کی اولادیں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں ، مگر سوچ میں فرق نہیں آیا ۔کوئی بات کرنے کو تیار نہیں وہ جانتے ہی نہیں کہ مردم شماری صرف آدمیوں کو گننے کا نام نہیں بلکہ اس میں ترقی اور تنزلی کا راز پنہاں ہے۔ وسیب کے حوالے سے جرم ضعیفی کی سزا بھگتنے والے کچھ لوگ انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں جو کہ غنیمت ہے ۔ سرائیکی جماعتوں کے اجلاس کا یہ مطالبہ درست ہے کہ مردم شماری ، زمینی حقائق اور مسلمہ اصولوں کے تحت کرائی جائے، جس کی لاٹھی اُس کی بھینس والا اصول ختم ہونا چاہیے اور وسیب کے تحفظات دور کرنے کے لیے مردم شماری سے پہلے وسیب کو صوبے کا درجہ دیا جائے تاکہ وفاق پاکستان کے استحکام کے لئے قابل قبول اور منصفانہ مردم شماری سامنے آ سکے ۔اگر ایسا نہ کیا گیا تو جس طرح کثیر سرمایہ پہلے ضائع ہوا اسی طرح وقت اور پیسے کا مزید ضیاع ہو گا ۔ مردم شماری کے بارے ایک تاریخی حوالہ یہ بھی ہے کہ عالمی شہرت یافتہ دانشور رابرٹ تھامس مالتھس نے 1798 ء میں آبادی پر جو مقالہ لکھا تھا ، اس میں کہا تھا خوراک روزگار اور وسائل کے اضافے کے اقدامات کے لئے ضروری ہے کہ ہر بات کا ڈیٹا ہونا چاہیے اس کے بغیر ایسے ہے جیسے اندھیرے میں گاڑی چلانا ۔ اب جبکہ بلدیاتی الیکشن کا مرحلہ سر پر ہے جنرل الیکشن بھی دور نہیں حلقہ بندیاں بھی مردم شماری کے مطابق بننی ہیں تو ضروری ہے کہ حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ کرے ۔مردم شماری نہ صرف معیشت کی جان ہے بلکہ سیاست ، تجارت، صحت ، تعلیم بلکہ وہ تمام شعبے جن کا تعلق انسانی زندگی سے ہے مردم شماری کی بنیاد پر آگے بڑھتے ہیں یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ، مردم شماری کا رواج صدیوں پرانا ہے ۔عہد نبوی ؐمیں سرکار دو عالمؐ کے ارشاد پر دو مرتبہ مسلمانوں کو گنا گیا اور حضرت عمرؓ نے تو مردم شماری کا باقاعدہ محکمہ قائم کیا۔ انگریزوںنے اپنے ملک اور اپنے مقبوضہ علاقوں میں اسے بڑی باقاعدگی سے نہ صرف نافذ کیا ، بلکہ شماریات کو اپنی انتظامیہ کا ایک بنیادی جزو بنایا۔ آئین کے مطابق گزشتہ مردم شماری 2008ء میں ہونا تھی مگر 10سال سے زائد تاخیر اور بھاری اخراجات کے باوجود نتائج بوگس ،بتایا جائے کہ اس میں غریب عوام کا کیا قصور ہے ؟