ماسکو کاپچاس سال پرانا خواب حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔شمالی وزیرستان کے علاقے غلام خان کی مرکزی شاہراہ کے کنارے پرسائن بورڈ نصب کیا گیا ہے ،جس پر انگریزی ‘ریشین اور فارسی زبان میں درج ہے کہ یہاں سے ماسکو چار ہزار سات سو اٹھانوے کلومیٹر دور ہے۔ خاکسار نے 26 نومبر 2016 کوصحافتی کیرئیر کو خطرے میں ڈالتے ہوئے ،ایکٹی وی پر بڑی سٹوری بریک کی تھی۔سولہ دن کی شبانہ روزانتھک محنت‘ مختلف اداروں اور وزارتوں سے تصدیق اور موقف حاصل کیا۔خبر کے مطابق 14سال بعد روسی انٹیلی جنس فیڈرل سیکورٹی سروسز سابق’ کے جی بی ‘ کے چیف نے اسلام آباد کا دورہ کیا۔ اپنے کاونٹر پارٹ سے ملاقاتیں کیں اور سی پیک کا حصہ بننے کے ذریعے گرم پانیوں تک رسائی کا دیرینہ خواب پورا کرلیا تھا۔ خبربریک ہونے کے بعد بے تحاشا دبائو تھا۔ سی ای او اور ڈائریکٹر نیوزکو ’حکم‘ دیا گیا کہ خبر روک دیں اور 9بجے کے بلیٹن میں خبر نہیں چلنی چاہیے۔اس کی تاویل یہ دی گئی کہ رپورٹر کو ’ماموں‘ بنایا گیا ہے۔اللہ کے بھروسے پہ خبر پر سٹینڈ لیا‘ مینجمنٹ کو قائل کیا۔ اس تگ و دو میں بیوروچیف اور ڈائریکٹرنیوز کاکریڈٹ بھی شامل تھا، جنہوں نے 9بجے کی ہیڈلائنزاور بلیٹن میں خبر شامل رکھنے کا فیصلہ کیا۔خبر کو آن دی ریکارڈ کے بجائے آف دی ریکارڈ کوششوں سے رکوانے کی کوشش کی گئی‘ جس میں ایک بڑے میڈیا ہاوس کی ایک شخصیت کا بھی فعال کردار تھا۔ اگلے دن علیٰ الصبح بیوروچیف کی کال آئی’’ویلڈن سہیل!تم نے کمال کردیا ،آپ کی خبررکوانے میں سرگرم شخصیت کے اخبار میں آپ کی خبر کو لیڈ سٹوری کے طور پر شائع کیا گیا ہے اور کچھ لمحے قبل وزیراعظم نوازشریف نے بھی آپکی خبر کی تصدیق کردی ہے‘‘۔اعصاب شکن صحافتی تجربے کی تفصیل پھر سہی۔ابھی موضوع کی جانب لوٹتے ہیں کہ ماسکو کا50سال پرانا خواب حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ دس سالہ معاہدے پر 28اکتوبر 2010کوکابل میں دستخط کیے گئے۔ توثیق کے بعد 12فروری2011کو معاہد ے کا نفاذ کیا گیا۔معاہدے کے تحت پاکستا ن کوتجارت کیلئے وسط ایشائی ممالک تک رسائی جبکہ افغانستان کو کراچی اور گوادر کی بندر گاہ تک رسائی دی گئی۔افغانستان کو بھارت برآمدات کیلئے واہگہ تک رسائی دی گئی۔ ڈائریکٹوریٹ جنرل آف ٹرانزٹ ٹریڈ کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ دس برس کے دوران33ارب ڈالر مالیت کے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے 8لاکھ32ہزار 819کنٹینرزکو پاکستان سے گزرنے کی اجازت دی گئی۔افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے 30فیصد کنٹینر پاکستان جبکہ بقیہ کنٹینر ایران ‘ازبکستان اور تاجکستان سے گزرے۔افغانستان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈمعاہدے کی معیاد11فروری2021کومکمل ہو گئی۔معاہدے پر نظر ثانی کے لئے 16‘ 17نومبر2020کو کابل جبکہ 28 ‘ 30 دسمبر 2020 کو اسلام آباد میں اجلاس منعقد ہوا۔ دونوں جانب سے 2010کے معاہدے کے متن میں نظر ثانی‘ مجوزہ ترامیم اور موجودہ آرٹیکل کو ختم کرنے کے حوالے سے اتفاق کیا گیا۔معاہدے کے متن کے ہر آرٹیکل پر غور وفکر کیا گیا اور نئے معاہدے کی تیاری کیلئے بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔افغان وزیر تجارت کی جانب سے 20 جنوری 2021کو بذریعہ خط نئے معاہدے کی تشکیل تک پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ2010 کو نافذکرنے کی درخواست کی گئی۔وزارت قانون سے معاہدے میں توسیع کے حوالے سے طریقہ کار پر قانونی رائے حاصل کی گئی۔وزارت تجارت کو مشورہ دیا گیا‘ ایسا معاہدہ اضافی پروٹوکول پر دستخط کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ وفاقی کابینہ کوبتایا گیا، ٹرانس افغان ریلوے کے سہ فریقی اجلاس کے 31جنوری سے 3فروری 2021تک تاشقند میں منعقد ہونے والی پاکستان ازبکستان مشترکہ ورکنگ گروپ کی سائیڈ لائن پر افغان وفد کے ساتھ مذاکرات کے بعد پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے میں تین ماہ کی توسیع پر آمادگی ظاہر کی گئی ہے۔4فروری2021کو افغانستان کی جانب سے 11فروری2021سے تین ماہ کیلئے معاہدے میں 3ماہ کی توسیع کی درخواست کی گئی۔ توسیع کا مسودہ وفاقی کابینہ کو پیش کیا گیا کہ اضافی پروٹوکول پر دستخط میں تاخیر کی وجہ سے وزارت تجارت کو اجازت دی جائے کہ ایف بی آر کو11فروری2021کے بعد افغان ٹرانزٹ کے تحت پاکستان سے گزرنے والے سامان کے حوالے سے سہولیات فراہم کرنے کی ہدایات جاری کی جائیں۔اس حوالے سے وفاقی کابینہ سے درخواست کی منظوری کے فوری بعد وزارت تجارت کی جانب سے ایف بی آر کو ہدایات جاری کرنے کی سفارش کی گئی۔ کابینہ نے استفسار کیاکہ افغانستان کوواہگہ تک رسائی کیوں دی جارہی ہے جبکہ افغانستا ن کی جانب سے پاکستان کی وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارت میں تعاون نہیں کیا جا رہا۔اس پر مشیر برائے تجارت نے وضاحت کی کہ مارچ کے اختتام تک وسط ایشیائی ممالک میں پاکستانی برآمدات بڑھانے کے حوالے سے افغانستان کے ساتھ تمام مسائل پر بات چیت کی جائے گی۔وزیر مذہبی امور کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ طورخم بارڈر پر بارڈر فورس مینجمنٹ کی جانب سے سخت اقدامات کے باعث مقامی کاروبار پرمنفی اثر پڑا ہے۔وزیر داخلہ نے کابینہ کو آگاہ کیا کہ طورخم بارڈر ہفتے میں 6دن تجارت کیلئے کھول دیا گیا ہے جبکہ وزیر اعظم کی ہدایات کی روشنی میں اسمگلنگ میں واضح کمی آئی ہے۔افغانستا ن اور ایران کی سرحد پر باڑ نصب کی جا چکی ہے تاہم روزانہ کی بنیاد پر پیدل داخل ہونے والے افراد کی بڑی تعداد کے باعث بارڈر مینجمنٹ پر دبا ہے۔قارئین!سیاسی منظر نامے پہ چھائی ’دھند ‘ سے قطع نظر اس تمہید کا مقصد آپ کو مشرق سے ابھرتاسورج دکھانا ہے ‘ خطے میں نئے زمینی روابط کا آغاز ہو نے جا رہا ہے۔ شمالی وزیرستان کے علاقے غلام خان کی مرکزی شاہراہ کے کنارے پرسائن بورڈ نصب کیا گیا ہے جس پر انگریزی ‘ریشین اور فارسی زبان میں درج ہے کہ غلام خان کا زیروپوائنٹ یہاں سے سولہ کلومیٹر دور ہے ‘خوست سینتالیس کلومیٹر‘ کابل دو سو ستتر ‘دوشنبے آٹھ سو ساٹھ ‘تاشقندایک ہزار چار سو چودہ ‘عشق بل ایک ہزار سات سو ترپن اور ماسکو چار ہزار سات سو اٹھانوے کلومیٹر دور ہے۔یہ زمینی رستہ آپ کو وسطی ایشیا سے ماسکو تک لے جائے گا۔یقیناً یہ سی پیک منصوبے کا ثمرہے‘ یہاں علامہ اقبال یاد آتے ہیں: کھول آنکھ زمیں دیکھ ‘ فلک دیکھ‘ فضا دیکھ ! مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ