ایک اندازہ تھا، غلط ثابت ہوا۔ چوک میں دعوئوں کی دھجیاں اڑیں اور تکبر کی کشتی بے کنارہ ہو کر ڈوبی مگر بے اطمینان اور نادار طبیعت کو سکون کہاں، اب نئی گہما گہمی اور پرانے مکر کے سوداگروں کی خدمات پر نئی بولیاں دینے کو تیار۔ مان کیوں نہیں لیتے کہ ہم ابلیس کے گرائونڈ میں قوم ملک، سلطنت کو گیند، بلا، ہاکی بنا کر کھیل رہے تھے۔ ہم کبھی حلیف اور کبھی حریف بن کر سوانگ رچاتے تھے۔ سوانگ رچاتے رچاتے اتنے بائولے ہو گئے تھے کہ ہم کو لات مارنے کی عادت نے اپنا اسیر بنا لیا تھا۔ اپنوں کو کوسنا اور غیروں سے چشم پوشی ہمارے تخت کی آبرو تھی۔ ہندوستان ہمارا، انگلستان ہمارا پڑوسی کی ہرزہ سرائی سے کان بہرے تھے اور اپنوں کو کچا چبانے کے لیے بروقت دانت تیز۔ ملک کو پدری وراثت کی فیکٹری سمجھ کر چلانے کی کوشش کی، ملک چلانا سیروں خون خشک کرتا ہے۔ سینوں کو حوصلوں کا سمندر بنائیں تو آداب حکمرانی کا الف میسر آتا ہے۔ یہ پاکستان ہے۔ مت بھولیں کہ یہ لفظ نہیں ہے۔جذبات کی معنویت کا وہ استعارہ ہے جسے فرشتوں نے مقدس روحوں کی قربانیوں کے عوض قلمبند کیا ہے۔ اس لفظ کی حدت تہہ ارضی کو تپش آمادہ رکھتی ہے اور ملک پر اس لفظ کے جان نثاروں کی بلند نیتی پر رشک کیا جاتا ہے۔ گزشتہ چند مہینوں سے یہ شور سنائی دیتا تھا کہ ہم ستر سالہ پرانے نظام کو اکھاڑ پھینکیں گے۔ شور برآمدگان یہ بھول گئے کہ 35 سال تو ان جھوٹے دعویداروں کے نام مختص ہیں جنہوں نے کاسہ لیسی سے اپنے کشکول میں اقتدار کو اتارا، اول و آخر مقصد حیات اپنے خاندان کو اقتدار کے جھولے پر سوار رکھنا تھا۔ کبھی وطن کی حمیت کے نعرے کی اوٹ میں تاج پوشی کروالی اور کبھی دین کے درد میں مبتلا ہو کر صاحبان جبہ و دستار کی غیرت دینی گروی رکھ کر تخت نشین ہوئے اورکبھی بے دینوں کا سہارا لے کر دینی شعائر کو پامال کرنے کی جسارت کا ارتکاب کیا اور پھر قومی خزانے کو مال پدرجان کر اپنی حکومت کو دوام دینے کے ہتھکنڈے آزمائے۔ رہے نام اللہ کا، اللہ بس باقی ہوس کتنی ہی خفیہ بین الاقوامی قوتیں ہیں جو پاکستان کے چہرے پر تھوکنے کی مذموم سازش کرتی ہیں، ان کے ہدایت یافتہ قوم دشمن گر گے وطن کی آستینوں ہی میں پلتے ہیں۔ جلدی سے پہچان نہیں ہو پاتی، وہ اپنے بٹیروں کو مفادات کے قفس میں پالتے ہیں اور ہنگام معرکہ اونچی بولیوں پر اڑاتے ہیں۔ بھارت، افغانستان یہاں ایشیا میں امریکہ، برطانیہ کی آشیرباد سے ہمارے وطن میں برا کھیل، کھیل رہے ہیں۔ اسرائیل وہ طوطا ہے جس کے وجود میں مشرق و مغرب کے شیطانوں کی جان ہے۔ اب وہ ہمارے عقل کے اندھوں کو خرید کر ایک دیرپا شیطانی ناٹک رچانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اپنے کارآمد کارندوں کے کاندھوں پر اپنی مفاداتی مشین گنیں فٹ کر رکھی ہیں۔ قوم کو گہرے گھنائونے گھائو لگانے کے لیے قوم کو طبقات میں تقسیم کردیا ہے۔ کچھ جان بوجھ کر اور کچھ انجانے ذوق میں گرفتاران کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اس مرتبہ حالیہ الیکشن میں انہوں نے اپنے ہر طرح کے گھوڑے میدان میں اتارے تھے لیکن یہ بہرحال پاکستان ہے اور پاکستان کیا بالآخر اسلامستان ہے۔ اس کی حفاظت کے سامان ہر مرحلے پر آسمان کے فیصلوں سے میسر آتے ہیں۔ انتخابات کے نتائج طے شدہ چالوں کی زد میں نہ آسکے۔ دین اور پاکستان سے پیٹھ پھیرنے والوں کا رخ حالات نے پھیر دیا۔ بظاہر تو وجوہات کچھ اور نظر آتی تھیں لیکن اسلامیان پاکستان اپنے نبی اکرم ﷺ ہادی برحق کی ناموس پر جان و دل قربان کرتے ہیں۔ ایک ذرا سی آہٹ پر بھی چوکنا ہو جاتے ہیں۔ سابق حکمرانوں نے ناموس رسالتؐ کو ایک سیاسی مسئلہ ہی گردانا تھا۔ وہ اہل ایمان کی تپش محبت کی حدت کو محسوس نہ کرسکے۔ پے در پے غلطیوں کا ارتکاب ان کے ذوق حکمرانی کا غماز تھا۔ انہوں نے دین و ملت کے شیدائیوں کو پھانسی کے جھولے پر لٹکا کر بھی کچھ احساس نہ کیا۔ انہوں نے ختم نبوتؐ کے محافظین پر گولیاں چلوائیں، لاشیں گم کروادیں، وہ جب چاہتے اور ان کے بزرجمہر کارندے جب اپنے ذوق قتل کو تسکین دینا چاہتے تو وہ نہتے دیندار شہریوں کو درجنوں کی تعداد میں بھرے دن میں گولیوں کی باڑ پر رکھتے تھے۔ سانحہ ماڈل ٹائون کے بے گناہ مقتولوں کا خون اپنی سرخی کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ ایک دیندار باپ کے دنیا پرست اور اقتدار کے پجاری بیٹوں نے جب اپنے باپ کی صالحانہ اور مومنانہ روش کو ترک کیا تو آسمانی عدالت نے ملکی عدالت کو بھی راستہ فراہم کیا اور عوامی عدالت جس پر انہیں بہت گھمنڈتھا اس عدالت نے بھی دن کی روشنی میں ان کو اپنا فیصلہ سنا دیا۔ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ مگر عوام جن کے ووٹ سے اصل اقتدار کو عزت نصیب ہوتی ہے، کیا انہوں نے کبھی عوام کو عزت دی۔ یہ فیصلے آسمان سے ہوتے ہیں، یہ سرزمین اولیاء کا فیضان ہے۔ اس فیضان سے روگردانی کرنے والوں سے تاج و تخت چھین لیا جاتا ہے۔ یہ طے شدہ امر باطن ہے اس لیے اب نئے آنے والوں کو بھی پورے ہوش اور حقائق کا سہارا لے کر ہی اپنی دنیائے اقتدار کو آباد کرنا ہوگا۔ واضح اور مثبت قومی نظریات کو بنیاد بنا کر درست سمت میں پالیسیاں مرتب کرنا بھی نئی عوامی حکومت کی پہلی ترجیح میں شامل ہونا ضروری ہے۔ جوش و جذبات کو پاکستان کے بنیادی نظریات سے ہم آہنگ کرنے ہی سے ترقی کے نئے راستے میسر آئیں گے۔ نئی عوامی حکومت کو اپنی معروضی سیاسی موافقت اور مخالفت کے ماحول سے قطع نظر اسلامی ریاست کے تحفظ کے لیے نظریاتی فضا قائم کرنے کے لیے ایسے پرخلوص اور محب وطن اہل دانش کی ایک غیر متنازعہ مجلس بھی قائم کرنا چاہیے جو بین الاقوامی سیاسی حالات پر بالعموم اور عالم اسلام کی کھچائو بھری سیاست پر غائرانہ تجزیاتی نظر رکھے اور ہماری خارجہ پالیسی کی ترجیحات کا از سر نو تعین کرے۔ پیش منظر کے نئے وزیراعظم نے بنی گالہ میں مختصر اور جامع گفتگو میں بہت سی مثبت باتوں میں اچھے اشارے دیئے ہیں۔ تاہم بہت ضروری ہے کہ وہ ایسے نام نہاد خوشامد پسند دانشوروں سے پوی طرح سے اجتناب کریں جو روزانہ کی بنیاد پر شکم پرستی کے لیے اجتماعی فکری ماحول پر نحوست کے جراثیم چھڑکتے رہتے ہیں اور نہایت غالی مکر میں ڈوب کر نبضیں چرانے کے ماہر ہیں۔ یہ بات حالات شناس حلقوں میں جانی پہچانی ہے کہ ماضی میں جناب عمران خان نے ایسے ہی بقراط طرز اخبار نویسوں کو اپنے حلقہ خاص سے خارج کردیا تھا۔ عمران خان کی حکومت کو آزمائش میں گرفتار رکھنے والے منصوبہ ساز شکست خوردہ داعیان سیاست مذہبیہ کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کریں گے، ایسے افراد اور جماعتوں کو ان کا پرانا رویہ ایسی حرکات پر مجبور کرے گا۔ مذہبی فرقہ واریت کا ایک جنون کسی بھی وقت اسلامی فلاحی ریاست کے عملی ارتقاء میں روایتی رکاوٹیں ڈالنے کا سلسلہ جاری رکھ سکتا ہے۔ عمران خان کی ٹیم میں نوزائیدہ فکر کے حامل وہ نو عمر سیاستدان بھی شامل ہیں جن کے ماضی کے وہ بیانات جو مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے غماز تھے، ان پر رجوع کی فوری ضرورت ہے۔ علماء و مشائخ نے بہت سے مقامات پر عمران خان کی سیاسی پذیرائی کی ہے۔ وہ ایک وسیع اکثریت کے نمائندہ ہیں۔ ان کی مشاورت کو عوامی سطح کے مسائل میں شامل رکھنا ،ایک صحت مند اقدام شمار کیا جاتا ہے۔ ایک اہم خرابی جو سیاسی جماعتوں کے دور اقتدار میں بہت جلد سرایت کرتی ہے، وہ پارٹی کارکنان پر بے جا نوازشات ہیں۔ پیپلزپارٹی کے بھٹو دور میں پیپلزپارٹی کا ایک کارکن سرکاری امور میں مداخلت کو عوامی حقوق کے تحفظ کی بجا آوری سمجھتا تھا، جبکہ ن لیگ کی سیاسی حکومت کے ماحول میں گلو بٹ کلچر کو سیاسی بقا کی عوامی ضمانت سمجھا جاتا تھا اور وزراء کی خوشامد و تکبر سے برآمد شدہ پالیسی کے باعث سفارش، دھاندلی اور اقربا پروری کی لا محدود فضا قائم ہو گئی تھی اور اسی قاہرانہ فضا نے عوام کے ذہن سے آزادی فکر کو چھین لیا تھا۔ موجودہ الیکشن اسی جبر مسلسل اور روایتی حکمرانی کے ردعمل کو سامنے لاتے ہیں۔ کسی بھی خرابی سے سبق سیکھ کر خوبی کی ازسرنو بنیاد رکھنا اصل دانش کا شیوہ قدیم ہے اور قوموں کی حیات نو کے لیے جام شفاء ہے۔