تجزیہ:سید انورمحمود 2020کسی تباہ کن سمندری طوفان یا زلزلے کے مانند تھا۔اس کے اثرات طویل عرصے تک دنیا بھر میں محسوس کئے جاتے رہیں گے ۔سال کی ابتدا میں ہی کورونا وبا پھوٹی جو کسی طوفان کی طرح تاحال دنیا کو نقصان پہنچا رہی ہے ، اموات اور ایسی تباہی کہ ہر کوئی دعا کر رہا ہے کہ دوبارہ ایسا دیکھنے کو نہ ملے ۔لیکن 2021میں بھی اس طوفان کے تھمنے کا یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا۔ قابل رحم طور پر رواں برس بھی مضبوطی سے اسکا پھیلاؤ رک نہیں سکتا اگرچہ ابھی ویکسین بن چکی ہے اور کچھ ویکسین تاحال تکمیلی مراحل میں ہیں۔یہ بات تاحال یقینی نہیں کہ ترقی پذیر ممالک جیسا کہ پاکستان تک اس ویکسین کے پہنچنے میں کتنا وقت لگے گا اور یہ بھی پتا نہیں کہ اس سے کتنے لوگ فائدہ اٹھا سکیں گے ۔تاہم اس وبا سے آنے والی تباہی اور ہونیوالی اموات اور طرز زندگی کے بری طرح متاثر ہونے کے علاوہ پاکستان میں ایک نئی طرز کی بے رحم سیاست ابھر کر سامنے آئی ہے جس کے سینے کے میں دل نہیں۔ بے رحم اس لئے کہ ہمارے سیاسی رہنما سمجھتے ہیں کہ لوگوں کا کووڈ 19 کے باعث اذیت کا شکار ہونا اور مر جانا کووڈ 18 سے متاثر ہونے سے بہتر ہے ، یہ نام کووڈ 18 انہوں نے پی ٹی آئی اور عمران خان کا رکھا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں اگر عمران خان اور اس کی حکومت سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے چند ہزار انسانی جانوں کی قربانی دینا پڑے تو دے دینی چاہئے ۔ اسی لئے ہم ملک بھر میں بڑی بڑی سیاسی ریلیاں اور جلسے جلوس دیکھ رہے ہیں، جمہوریت کے نام پر لوگوں کو موت کی طرف دعوت دی جا رہی ہے ۔ ایک رہنما نے انتہائی نامناسب طریقے سے یہاں تک کہا کہ جہاں ریلیاں ہوں وہاں سے کورونا غائب ہو جاتا ہے ۔ میں ایسا کہنے والے شخص کی بے حسی پر زیادہ حیران نہیں ہوں لیکن مجھے اپنے لوگوں اور میڈیا پر حیرانی ہے کہ انہوں نے اس شخص کو ایسے سنگدل اور بے رحم جھوٹ کیساتھ ایسے ہی کیسے چھوڑ دیا۔ یہ سب جمہوریت اور عوام کے نام پر ہوا۔ہم 2020 میں ایسی ہی سیاست بازی پاکستان میں دیکھ رہے ہیں اور کوئی بھی 2021 کی شروعات میں بھی واضح انداز میں یہی سب کچھ ہوتا دیکھ سکتا ہے ۔ اس لئے اگر ہم میں سے کوئی معصوم شخص یہ سمجھتا ہے کہ نیا سال مشکلات کا شکار لاکھوں لوگوں کیلئے کچھ سکون لے کر آئیگا تو پھر صرف ہمدردی ہی محسوس کی جا سکتی نہ صرف ان سے جو ایسی امید دلا رہے ہیں بلکہ ان لاکھوں غریب لوگوں کیلئے بھی جو ہمارے سیاسی طبقے کی خواہشات اور بدلتی ذہنیت کیلئے غذا کا کام کرتے ہیں۔ ایسا ہمیشہ سے نہیں تھا۔ بھٹو نے بھی لوگوں کو پرجوش اور متحرک کیا اور استعمال کیا لیکن آخر میں اپنی ہی غلطیوں کی قیمت اپنی جان سے ادا کی۔ لیکن ان کے پاس ایک وژن تھا۔ ضیا کے اقتدار کے عرصے کے بعد بہت کچھ نہیں ہوا۔بھٹو پر کبھی کرپشن کے الزامات نہیں لگے ۔ یہ ان کیلئے تھے جن کے ہاتھ باگ ڈور 1988 کے بعد آئی۔ اس لئے صرف یہ توقع کی جاتی ہے کہ آج ہماری سیاست کرپشن کے گرد گھومتی ہے ۔ عمران خان نے انسداد کرپشن اور احتساب کے وعدے پر الیکشن لڑا۔ اس لئے اس کی حکومت کیلئے متحرک قوت یہی چیز ہے اگرچہ اس کی قیمت دوسرے اہم ایشوز کی صورت میں ادا کی گئی جنہوں نے لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کر رکھا ہے ۔ اور اسی چیز نے اپوزیشن کو ان پر اور ان کی حکومت پر تنقید کیلئے ایندھن فراہم کیا۔ یہ ایک مخمصہ ہے جتنا عمران خان کیلئے اتنا ہی پاکستان کیلئے ۔ کرپشن نے پاکستان کی اہم اور ناگزیر چیزوں کو خرچ کر دیا اس لئے اس کا خاتمہ قومی ترجیح ہونی چاہئے ۔ اس کا بھیانک رخ اس سے پیدا ہونے والا سیاسی عدم استحکام ہے ۔ جیسے معاملات ہیں تو 2021میں سیاسی طور پر مستحکم پاکستان کی توقع کم ہے ۔ پاکستان جیسے سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے تو ایسے میں وہ ایک اور سیاسی لوٹ سیل کا متحمل نہیں ہو سکتا۔اگر میں عمران خان ہوتا تو میں درج ذیل کام کرتا: پہلا، این آر او منتر بند کرتا اور نیب کو اپنے طریقے سے احتساب کرنے دینا اور یہ نظر بھی آتا کہ وہ اپنے طریقے سے کر رہا ہے ۔ دوسرا، وزرا سے کہتا کہ وہ بھی ایسا کریں اور اپنی بنیادی ذمہ داری پر توجہ دیں۔ تیسرا، چیف جسٹس آف پاکستان سے احتساب کے مقدمات کی تیز سماعت اور فیصلے کرنے کا حکم دینے کی اپیل کرتا اور اس مقصد کیلئے عدلیہ کو ہر ممکن معاونت فراہم کرتا۔ چوتھا، سیاسی اتحادیوں کے ساتھ بات چیت اور ان کے متعلق مزید حساسیت اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرتا۔ پانچواں، سینٹ الیکشن میں شفافیت کیساتھ حصہ لیتا، اتحادیوں کو ہر ممکن مدد فراہم کرتا۔ ساتواں، سینٹ الیکشن کے فوری بعد قومی اسمبلی تحلیل کر دیتا اور قوم سے کہتا اگر وہ چاہتی ہے کہ میں ان کی خدمت کروں اور انہیں ڈیلیور کروں تب اسے مجھے واضح مینڈیٹ دینا ہوگا اس طرح وہ سیاسی بلیک میلنگ سے چھٹکارا پا لیتا جو بدقسمتی سے ہمارے موجودہ نظام کا حصہ بن گئی ہے ۔ آٹھواں، نئے منشور کیساتھ الیکشن لڑتا جس میں انتخابی اصلاحات، منتخب مقامی حکومتوں کیلئے مزید انتظامی اور معاشی اختیارات، جنوبی پنجاب صوبہ کا قیام، سندھ کے اندر رہتے ہوئے کراچی کیلئے خصوصی انتظامی اور معاشی سٹیٹس، این ایف سی کی طرز پر آئینی مینڈیٹ کیساتھ صوبائی فنانس ایوارڈز، ایک موثر اور خودمختار نیب، اسکے قانون میں ترامیم کیساتھ تاکہ اس کا کام آسان اور شفاف ہو اور مناسب تقسیم ہو، پالیسی کی منصوبہ بندی کیلئے صحت، تعلیم اور خوراک کی سکیورٹی کو کنکرنٹ لسٹ میں شامل کرنا، عملدرآمد کی ذمہ داری اور انتظامی کنٹرول کو صوبوں کیلئے چھوڑ دینا جیسے معاملات شامل ہوتے ۔وزیراعظم کو نئے سال کی اس سوچ اور تجویز پر عقلی انداز سے غور و فکر کا موقع دیں۔ یہ ذاتی طور پر ان کیلئے سیاسی رسک ہے لیکن پاکستان کے مفادات کیلئے یہ رسک لیا جا سکتا ہے ۔مئی 2021 پاکستان کو وہ دیتا ہے جس کا وہ حقدار ہے لیکن 2020 میں وہ حاصل نہیں کر سکا۔ اس سے پہلے کے ہم 2020 کو الوداع کہیں، ہمیں ان لوگوں کو سلیوٹ کرنا بھولنا نہیں چاہئے جنہوں نے ہمیں محفوظ و مامون رکھنے کیلئے اپنی جانوں کی قربانی دی، اور وہ جنہوں نے وبا کے دوران ہزاروں لاکھوں کو بچانے کیلئے اپنی جانیں قربان کر دیں۔ سب پر خدا کی رحمت ہو۔ تجزیہ، انورمحمود