ایک روز میں تین فون آئے۔پہلا فون سرگودھا شہر سے تھا ، دوسرا گائوں سے اور تیسرا جوہر آباد سے۔ اور تینوں میں ایک ہی واردات کا بیان تھا۔ پہلے تیسرے فون کا قصہ سن لیجیے۔ شام ڈھل رہی تھی جب یہ فون آیا۔ آصف بھائی یہاں مسجد میں ایک اعلان ہو رہا ہے ، ذرا توجہ سے سنیے۔ فون پر آواز ذرا مدھم تھی لیکن اعلان سنا جا رہا تھا۔ اعلان کیا تھا ، آپ بھی سن لیجیے :’’ تمام لوگ توجہ سے ایک ضروری اعلان سنیں ۔شہر میں خطرناک ڈاکوئوں اور چوروں کا ایک گروہ آیا ہوا ہے ۔اپنی اپنی احتیاط خود کریں ۔رات کو چھت پر یا صحن میں نہ سوئیں۔یہ اعلان تھانہ فلاں کے ایس ایچ او فلاں کی ہدایت پر کیا جا رہا ہے‘‘۔ اعلان کرنے والے نے یہ اعلان تین مرتبہ دہرایا اور میں نے اسے توجہ سے سنا۔ اعلان ختم ہوا تو میں نے پوچھا یہ کیا کہانی ہے۔ جواب ملا : چوروں اور ڈکیتوں کا ایک گروہ آیا ہوا ہے۔ یہ پچیس تیس لوگ ہیں۔ ٹرک ساتھ لے کر آتے ہیں اور تسلی سے ایک ساتھ تین چار گھروں کو لوٹتے ہیں۔ جسم پر انہوں نے تیل لگایا ہوتا ہے تا کہ دوران واردات کوئی ان پر ہاتھ نہ ڈال سکے اور پکڑ نہ سکے اور ان میں سے کچھ لوگ مسلح بھی ہوتے ہیں‘‘۔ میں نے پوچھا : پولیس کیا کر رہی ہے؟جواب ملا: آپ سن نہیں رہے ،پولیس اعلان کر رہی ہے۔ دوسرا فون سرگودھا سے میرے کزن ملک سہیل کا تھا۔ یہی کہانی کہ پورے علاقے میں وارداتیں بڑھ گئی ہیں۔بیس تیس مسلح ڈکیت ایک ساتھ آ جاتے ہیں اور تسلی سے لوٹ مار کرتے ہیں۔ کوئی ان کا مقابلہ یا مزاحمت کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ پولیس کہیں نظر نہیں آتی اور علاقے میں خوف کا سماں تھا۔ تیسرا فون گائوں سے تھا۔ یہ اطلاع کے لیے نہیں باقاعدہ طعنہ دینے کے لیے کیا گیا تھا۔ یہاں بھی وہی قصہ سنایا گیا۔ لیکن اہم نکتہ اطلاع نہیں ، طعنہ تھا کہ تمہیں قانون کی عملداری کی پڑی تھی اور عمران عمران کرتے تھے تو اب یہ حال ہے یہاں خود دیکھ لو۔ آپ کو حیرت ہو گی کہ یہاں قانون کی عملداری کا طعنہ کیوں دیا گیا۔ تو یہ قصہ بھی سن لیجیے۔ سابق آئی جی ذوالفقار چیمہ صاحب نے ایک کالم لکھا تھا جس میں انہوں نے ایک جعلی پولیس مقابلے کا ذکر کیا اور بتایا کہ کیسے انہوں نے راولپنڈی سے ایک ڈکیت کو پکڑا اور بھلوال کے قریب لے جا کر مار کر پولیس مقابلہ قرار دے دیا۔ میں نے اس پر تنقیدی کالم لکھا تو مجھے گائوں سے فون آگیا کہ بجائے اس کے کہ تم چیمہ صاحب کے شکر گزار ہوتے تم ان پر تنقید کر رہے ہو۔ تمہیں کیا معلوم اس ڈکیت نے یہاں کیا حال کر رکھا تھا۔میں نے آئین اور ماورائے عدالت قتل کا نکتہ بیان کیا تو جواب ملا: تم کتابی بات کر رہے ہو ہم حقائق بیان کر رہے ہیں۔ ان ڈکیتوں کو تمہارا قانون سزا دے ہی نہیں سکتا کیونکہ ان کے خلاف گواہی دینے کی کسی میں ہمت نہیں ہے۔ چند سال پہلے بھی سرگودھا میں ایسی ہی سراسیمگی تھی۔دن ڈھلنے کے بعد گائوں جانا ممکن نہ تھا۔کزنز شدید تاکید کرتے تھے کہ آنا ہے تو شام سے پہلے گائوں پہنچ جانا۔ چھوٹا بھائی قاسم گوندل ایک شام گھر وقت پر نہ پہنچا تو سعد گوندل اور دیگر کزنز اس کی تلاش میں نکلے تو وہ گائوں سے دو کلومیٹر باہر باغ میں ملا۔ہاتھ پائوں بندھے ہوئے تھے اور منہ پر پٹی تھی۔ اس کی سواری ڈاکو لے گئے البتہ پٹرول ختم ہو جانے کی وجہ سے راستے میں ہی چھوڑ گئے اور بعد میں مل گئی۔ عالم یہ تھا کہ ماموں ڈاکٹر خالد رشید امریکہ سے گائوں آئے تو میں ملنے گیا۔ ایک ڈیرے سے دوسرے جانے لگا تو کزن تیمور گوندل کہنے لگا ایسے نہ جائیں خطرہ ہے میں ساتھ چلتا ہوں۔ وہ کلاشنکوف لے کر ساتھ آیا اور مجھے دوسرے ڈیرے تک چھوڑ گیا۔ پھر ایک دن پتا چلا اب تم گائوں آ سکتے ہو۔ شام کو آئو یا آدھی رات کو آئو، کوئی مسئلہ نہیں۔ پوچھا اب کیا ہو گیا؟ جواب ملا ایک ڈی پی او آیا ہے اور اس نے ایک ہی رات ڈکیت کو اس کے گینگ سمیت ان کے گھروں میں جا کر بھون دیا ہے اور اسے پولیس مقابلہ قرار دے دیا ہے۔اب سکون ہے۔۔۔۔۔۔ سچ پوچھیے تو اس دفعہ مجھے جواب میں ماورائے عدالت قتل کا نکتہ اٹھانے کی ہمت ہی نہ ہوئی۔وہی بات کہ کتابوں میںلکھی باتیں وہ لوگ نہیںسمجھتے جنہیں زمینی حقائق نے جھلسا دیا ہو۔ تو فون میں یہی طعنہ دیا گیا کہ ڈکیتوں کا پورا گینگ ہے۔ایک ساتھ ڈاکہ مارتے ہیں ۔ٹرک لے کر آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ اب ذرا اپنے قانون کی روشنی میں کوئی حل تجویز کر کے دکھا دو۔ میرے پاس اس طعنے کا کوئی جواب تھا ہی نہیں ۔میں کیا جواب دیتا۔ خاموش رہا۔ اس گفتگو سے البتہ ایک اور نکتہ سامنے آیا۔ یہاں بھی کتاب کی بات اور عملی زندگی کی حقیقتیں متصادم کھڑی ہیں ۔کتابی بات یہ ہے کہ تھانوں کو سیاسی اثرو روسوخ سے آزاد کیا جائے اور عملی زندگی کی حقیقت یہ ہے کہ نہیں تھانوں پر سیاسی اثر و رسوخ ضرور ہونا چاہیے۔کم از کم اس وقت تک جب تک ایک ہمہ جہت قسم کا متبادل نظام وضع نہیں کر دیا جاتا۔ جب تھانوں میں اہل سیاست کی سنی جاتی تھی تو پھر کسی حد تک افسران پر ایک دبائو رہتا تھا اور سیاست دان بھی ایک حد سے زیادہ اندھیر نہیں مچا سکتے تھے کیونکہ انہوں نے ووٹ بھی لینا ہوتا ہے۔ اب یہ ہوا کہ تھانوں پر سیاسی اثر و رسوخ ختم کرنے کی پالیسی لائی گئی ہے۔ اگر چہ اس پر بھی مکمل عمل نہیں ہو رہا لیکن پولیس بڑی حد تک سیاسی مداخلت سے بے نیاز ہو چکی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ تو سرگودھا سے چار اور جوہر آباد سے پانچ گھنٹوں کی مسافت پر ہے۔جس میں ہمت ہے ، وقت ہے اور پیسہ ہے چلا جائے ۔فوری ریلیف تو سیاسی مداخلت سے ہی ملتا تھا اور تھانے اس سے بے نیازہو چکے ہیں۔سینہ گزٹ انتہائی خوفناک ہے،تھانے بک رہے ہیں اور ایس ایچ او حضرات کی پہلی ترجیح وہ رقم پوری کرنا ہے جو تعیناتی کے عوض اعلی افسران کو پیش کی جاتی ہے۔ عام آدمی کچلا جا رہا ہے اور عام ایم این اے اور ایم پی اے ( یعنی وہ جو کسی بڑے خانوادے سے نہیں ) دہی کے ساتھ کلچہ کھا رہے ہیں کہ کپتان نے تھانوں میں مداخلت پر پابندی لگا رکھی ہے ایسا نہ ہو ہم عتاب میں آ جائیں۔ گائوں کے گائوں لٹ رہے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ عثمان بزدار صاحب کے تین درجن ترجمان ہیں اور ان میں سے ایک درجن میرے دوست، جن میں ایک کے اپنے گھر ڈکیتی ہو چکی ہے اور آج تک سراغ نہیں ملا۔ان ترجمانوں میں سے کوئی یہ کالم پڑھ لے تو ازرہ کرم بزدار صاحب کو اتنا بتا دے کہ سرگودھا سے جوہر آباد تک راوی اس بات پر متفق ہیں کہ ڈکیت سرائیکی زبان بولتے ہیں۔یعنی ایک لحاظ سے وزیر اعلی کے گرائیں ہیں۔ اب گویا ان کی سرکوبی بزدار صاحب پر فرض بھی ہے اور قرض بھی۔دیکھیے وہ کیا کرتے ہیں۔