کہتے ہیں سیاست دلفریب وعدوں اور پھر انہیں بھول جانے کا نام ہے۔ کم از کم پاکستانی سیاست میں تو ہم نے یہی دیکھا ہے۔ ایک کے بعد دوسرا سیاست دان نئے وعدوں کی پٹاری لے کر آتا، اس میں سے دل خوش کن سپنے نکال کر عوام کو سناتا اور پھر ووٹ لے کر چلتا بنتا ہے۔ ووٹروں کو وہ پٹاری اگلے الیکشن میں نظرآتی ہے ،جس میں بے وقوف بنانے کے لئے کچھ نیا طلسمی وعدہ پوشیدہ ہوتا ہے۔ جنوبی پنجاب صوبے کے حوالے سے سرائیکیوں کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوتا رہا ہے۔روایتی طور پر سرائیکی بھٹو خاندان کے حامی رہے ہیں۔اگلے روز ایک صحافی دوست نے پوچھا کہ بھٹو صاحب کی سرائیکی وسیب (خطے)میں مقبولیت کی کیا وجہ تھی؟ ان کا استدلال تھا کہ لاہور اور سنٹرل پنجاب میں تو بھٹو صاحب نے اینٹی انڈیا جذبات کو کامیابی سے استعمال کیا، ہزار سال تک جنگ کی بات کی اور مختلف برادریوں ، دھڑوں کو بھی استعمال کیا، نتیجے میں کامیابی ملی، سرائیکی علاقے میں ان کی پزیرائی کی کیا وجہ رہی؟یہ ایک دلچسپ سٹڈی ہے، پرانے سیاسی کارکن زیادہ بہتر بتا سکتے ہیں، مگر مجھے لگتا ہے کہ بھٹو صاحب نے سرائیکیوں کی نبض پر ہاتھ رکھا۔ صدیوں سے سرداروں، جاگیرداروں، مخدوموں کے چنگل میں پھنسے غریب لاچار سرائیکیوں کو انہوں نے امید دلائی، تبدیلی کا خواب دکھایا اور سماجی اونچ نیچ کو بدلنے کا وعدہ کیا۔ کسی حد تک وہ ایسا کر بھی پائے،طاقتور شخصیات کی گرفت کچھ ڈھیلی ہوئی اور سرائیکی خطے میں بعض اہم اپ سیٹ ہوئے، کئی بڑے جاگیردار ہارے ۔ایک فیکٹر سندھی، سرائیکی تہذیب کی قربت کا بھی تھا۔ بھٹو صاحب کو سندھی ہونے کے ناتے سرائیکی تہذیب ، کلچر اورمقامی سماج کے فیبرکس کا درست اندازہ تھا۔ یاد رہے کہ سندھ کے بہت سے بڑے گھرانوں میں سرائیکی بولی جاتی ہے، معروف سندھی ادیب، کالم نگار اور دانشور اعجاز منگی کے بقول سرائیکی سندھ کی دوسری بڑی زبان ہے، یہ اور بات کہ اکثر سندھی شخصیات گھر میں سرائیکی بولنے کے باوجود اپنی سندھی شناخت کو نمایاں اور ترجیح دیتے ہیں۔بھٹو سرائیکی خطے میں کس حد تک تبدیلی لائے، اس کی مثال سردار شیر باز مزاری نے اپنے ایک انٹرویو میں دی تھی۔ان کا کہنا تھا’’ اب جب میں اپنے علاقہ میں جائوں تو جس چارپائی پر بیٹھوں، وہاں کوئی بھی عام بلوچ بلاتکلف آ کرساتھ بیٹھ جاتا ہے۔ بھٹو سے پہلے یہ ممکن نہیں تھاکہ سردار کی چارپائی پر کوئی بیٹھ سکے، سب نیچے بیٹھتے تھے۔ یہ شناخت، اعتماد اور جرات لوگوں کو بھٹو نے دی ۔ ‘‘ بھٹو کے بعد سرائیکی عوام نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھرپور محبت، پزیرائی اور عزت دی۔ زرداری خاندان میں سرائیکی زبان بولی جاتی ہے، بی بی کو اس مناسبت سے سرائیکی وسیب میں بہو سمجھا جاتا تھا۔ نوے کے عشرے میں پیپلزپارٹی جنوبی پنجاب کی سب سے بڑی جماعت تھی۔ فاروق لغاری کو صدر بنانے کے پیچھے ان کی پارٹی سے طویل وابستگی اور وفاداری کارفرما تھی، مگر ان کا سرائیکی خطے سے تعلق بھی ایک فیکٹر تھا۔ یہ اور بات کہ فاروق لغاری نے اپنی ہی جماعت کی پشت میں خنجر گھونپااور میاں نواز شریف سے مل کر بی بی کی حکومت ختم کر ڈالی۔ بیگم عابدہ حسین کی سیاسی خودنوشت پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ میاں صاحب نے کس طرح سردار فاروق لغاری کو استعمال کیا اورلغاری سردار اس پر کس قدر دل گرفتہ اور برہم تھا۔ حیرت ہوتی ہے جب اسی فاروق لغاری کے صاحبزادوں کو میاں نواز شریف کا دفاع کرتے دیکھتے ہیں۔ شائد یہ بے رحم سیاست ہے جس نے انہیں بھول جانے پر مجبور کیا کہ ان کے موجودہ لیڈر نے ان کے والد محترم کے ساتھ کیا کیا تھا؟ آصف زرداری صاحب کے دور حکومت میں پیپلزپارٹی نے ملک کے اکثر علاقوں کی طرح سرائیکی خطے سے بھی’’ واپسی ‘‘کے سفر کا آغاز کیا بلکہ سچ تو یہ ہے کہ کسی عربی گھوڑے جیسی تیز رفتاری سے پیپلزپارٹی سرائیکیوں کے دل اور ووٹ کی پرچی ، دونوں سے دور ہوئی۔ کنٹرول ڈیمیج کے لئے زرداری صاحب نے جنوبی پنجاب صوبہ کا کارڈ کھیلنا چاہا اور اس قدربھونڈے پن سے ایسا کیا کہ اس کے کچے پن اور دھوکہ دہی کو ہر ایک نے محسوس کر لیا۔ ن لیگ نے اسے کائونٹر کرنے کے لئے پہلے تو جنوبی پنجاب اور بہاولپور دونئے صوبوں کی بات کی ۔ ارادہ ایک بھی بنانے کا نہیں تھا۔ شریف خاندان خواب میں بھی پنجاب کو تقسیم کرنے کا نہیں سوچ سکتا۔ پنجاب سے محبت اس کی وجہ نہیں، بلکہ اس لئے کہ وہ صرف اپنے خاندان کے فرد کو اقتدار سونپنے پر یقین رکھتے ہیں۔ اگر نیا صوبہ بن جائے تو وہاں کسی مقامی شخص کو وزیراعلیٰ بنانا پڑے گا، شریف خاندان مگر اپنی برادری، خاندان سے باہر کے کسی شخص پر بھروسہ اور اعتمادہی نہیں کر پاتے۔خیر 2013ء کے الیکشن میں ن لیگ نے علیحدہ صوبے بنانے کے نعرے کو استعمال کیا اور سرائیکی خطے سے بھرپور مینڈیٹ حاصل کیا۔ اگلے پانچ سال تک انہوں نے احتیاط یہ برتی کہ نئے صوبے کی بات سرگوشی میں بھی نہ دہرائی کہ کہیںاپنا وعدہ پورا کرنا پڑ جائے ۔ اس کے ’’ثمرات‘‘ ن لیگ کو 2018 ء میں سمیٹنے پڑے جب جنوبی پنجاب سے اپنی مضبوط نشستیں بھی ہار دی گئیں۔اس الیکشن میں سرائیکی خطے کا مینڈیٹ تحریک انصاف کے نام تھا۔عمران خان مرکز کے علاوہ پنجاب میں وہ کسی بھی صورت میں حکومت نہ بنا سکتے تھے، اگر سرائیکی خطے سے انہیں اتنی زیادہ نشستیں نہ ملتیں۔ سوال اب یہی ہے کہ کیاعمران خان اپنا وعدہ وفا کریں گے یا پھر وہ بھی پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی طرح صرف الیکشن جیتنے کے لئے یہ استعمال کر رہے تھے؟ عملی طور پر حکومت ابھی تک کچھ بھی نہیں کر پائی۔ نیا صوبہ بنانے کی بات البتہ بار بار دہرائی جا رہی ہے ۔ایک اہم پیش رفت ملتان میں ریجنل سیکریٹریٹ کی صورت میں کر رہی ہے۔یہ بھی سناجا رہا ہے کہ ریجنل سیکریٹریٹ میں ایڈیشنل چیف سیکریٹری نہیں بلکہ چیف سیکریٹری بیٹھے گا۔ معلوم نہیں تکنیکی اعتبار سے یہ بات کیسے ممکن ہوگی ؟چند دن پہلے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بہاولپور میں صوبائی کابینہ کا اجلاس منعقد کیا۔ یہ بھی اپنی نوعیت کا پہلا اقدام ہے، پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا۔ن لیگ کے لوگ اسے سیاسی ڈرامہ کہہ رہے ہیں کہ اس سے حقیقی سطح پر کچھ فرق نہیں پڑتا۔ بات ٹھیک ہے، مگر کاش پہلے والے وزرا اعلیٰ بھی ایسے ڈرامے کر لیتے ۔ یہ علامتی اقدام سہی، مگر بہرحال مقامی سطح پر اس کے اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ نئے صوبے کے حوالے سے تحریک انصاف کی قیادت اور حکومت کودو تین نکات پریکسو ہونا پڑے گا۔ ریجنل سیکریٹریٹ بنانا اچھا آئیڈیاہے، مگر یہ قطعی طور پرنئے صوبے کا متبادل نہیں۔ دوسری طرف سرائیکی یا جنوبی پنجاب صوبے کے نعرے کو کمزور بنانے کے لئے بہاولپورصوبہ بنانے کا شوشا پھر سے چھوڑا جا رہا ہے ، اس سے تحریک انصاف کوخبردار رہنا پڑے گا۔مزے کی بات یہ کہ طارق بشیر چیمہ جو یہ نعرہ لے کرکھڑے ہوئے ہیں، وہ سرائیکیوںکے نمائندہ ہیں ہی نہیں۔ انہیںآباد کاروں کے ووٹ سے جیتنے والا ایک(موقعہ پرست روایتی)سیاستدان ہی سمجھا جاتا ہے۔ جس کی بہاولپور میں کوئی وسیع سیاسی بنیاد یا سپورٹ نہیں۔ جس کا سرائیکیوں اور خود بہاولپوریوںیا ریاستی عوام سے کوئی لینا دینا نہیں، کبھی علاقے کے مفادات ان کی ترجیح نہیں رہے۔صوبہ بہاولپور کے موجودہ حامی سیاستدانوں کو صرف یہ خدشہ ہے کہ جنوبی پنجاب صوبہ بننے کی صورت میں ملتان کے قد آور سیاستدان حاوی ہوجائیں گے اور اپنی نالائقی کے باعث یہ پیچھے چلے جائیں گے۔میرا اپناتعلق بہاولپور سے ہے، اس صوبے کی حمایت کرنی چاہیے، مگر میرے نزدیک پاکستان کا مفاد سب سے عزیز اور مقدم ہے۔ پنجاب کو تقسیم کرنامجبوری ہے کہ اب گورننس کے اعتبار سے اسے چلانا ممکن ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایسے چھوٹے صوبے بن جائیں جنہیں بعدمیں چلانا مشکل ہوجائے اور وہ مرکز پر بوجھ بن جائیں۔ بہاولپور ڈویژن ایک الگ صوبے کے طورپر نہیں چل سکتا۔ جنوبی پنجاب میں بہاولپور، ملتان، ڈی جی خان ڈویژنز کے ساتھ سرگودھا کے اضلاع بھکر، میانوالی اور نور پور تھل وغیرہ شامل ہیں۔یہ ایک بڑا اور قابل عمل منصوبہ ہے،جو بعد میں کامیابی سے ہمکنار ہوسکتا ہے۔اس لئے بہاولپور کے بجائے جنوبی پنجاب یعنی سرائیکی صوبہ کی بات کرنی چاہیے ۔ نئے صوبے کے حوالے سے آخری ،مگر بہت اہم بات یہ کہ نیا صوبہ سردست بنانا اگر تحریک انصاف کے لئے ممکن نہیں تو انہیں اگلے دو تین برسوں کے دوران نئے صوبے کی’’ کیپیسٹی بلڈنگ‘‘ تو کر لینی چاہیے۔صوبے کو چلانے کے لئے مقامی انتظامیہ، پولیس، ججز،یونیورسٹیاں، میڈیکل کالج،ہسپتال وغیرہ ضروری ہیں۔ سرائیکی علاقوں سے لوگوں کو ارجنٹ بنیاد پر پولیس میںلیا جائے، مجسٹریٹ، سول جج، سیکشن آفیسر، تحصیل داروغیرہ اور دیگر انتظامی افسروں واہلکاروںکی بھرتی کی جائے۔اس عرصے میں انہیں ٹریننگ اور کسی حد تک انتظامی تجربہ مل جائے گا۔ ملتان میں نشتر کی طرح کا ایک اور بڑا ہسپتال اور میڈیکل کالج،فائن آرٹ کالج ضروری ہے،بہاولپور میں انجینئرنگ یونیورسٹی، کیڈٹ کالج بنانا چاہیے۔ سرائیکی وسیب میں انڈسٹری کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ جب نیا صوبہ بنے تو معیشت چلانا ممکن ہوسکے۔اسی طرح صوبہ تو چلیں کچھ بعد میں بن جائے گا، نئے اضلاع توفوری بنائے جائیں ، تھل کے مختلف ڈویژنز میں بٹے علاقوں کو اکٹھا کر تھل ڈویژن بنایا جائے۔ یہ وہ کام ہے جس پر وزیراعلیٰ عثمان بزدار اور وزیراعظم عمران خان کو فوکس کرنا چاہیے۔ یہ کام اگر وہ کر گزرے تو تاریخ انہیں ہمیشہ یاد رکھے گی۔