2017ء میں اپوزیشن کے اصرار پرکینیا میں دوسری مرتبہ الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کے ذریعے الیکشن منعقد ہوئے۔ الیکشن کا وقت ختم ہونے کے بعد کمپیوٹرز ہیک کرلئے گئے۔ اپوزیشن اور حکومتی شخصیات نے دھاندلی کا شورمچانا شروع کردیا۔معاملہ سپریم کورٹ تک جاپہنچا اور ایک ماہ بعد سپریم کورٹ نے ڈیجیٹل الیکشن کے نتائج کو کالعدم قراردیدیا۔ کینیا میں اس سے قبل 2013ء میں بھی تمام تر تحفظات کے باوجود الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کے ذریعے الیکشن منعقد ہوئے ۔ یہی نہیں بلکہ گھانا میں 2010ء میں الیکٹرانک ووٹنگ کا سلسلہ شروع کیا گیا۔گھانا کے الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ ہیک کرکے نتائج میں ہیرا پھیری کرنے کی کوشش کی گئی مگر گھانانے الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کو بہتر بنانے کا سلسلہ جاری رکھا۔گھانا‘کینیا اور نمبیا کے بعد کئی افریقی ممالک تیز ی کیساتھ الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کیلئے کمر کسی توچند کابینہ ارکان نے کینیا اور گھانا کے تجربات کے باعث الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کی مخالفت کردی۔ اپوزیشن جماعتیں الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم پر حکومت کے ساتھ بیٹھنے کو پہلے ہی تیار نہیںتھیں مگر وزیراعظم عمران خا ن نے آئندہ 6ماہ کے دوران مطلوبہ قانون سازی سمیت تمام تکنیکی امور نمٹانے اور الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی خریداری مکمل کرنے کی دوٹوک ہدایت جاری کردی ہے۔ مشیر پارلیمانی امورڈاکٹر بابر اعوان نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین متعارف کرانے سے متعلق وزیراعظم کو دی گئی حالیہ بریفنگ میں انکشاف کیا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے 8لاکھ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی ضرورت سے آگاہ کردیا گیاہے۔اگر 8لاکھ الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں درآمد کی گئیں تو غریب عوام کو اس اقدام کی قیمت 320ارب روپے چُکانا پڑے گی۔ مقامی طور پر تیار کردہ مشین کے استعمال سے مشین کی لاگت درآمدی مشین کے مقابلے میں نصف رہ جائے گی جس سے قومی خزانے کو 160ارب روپے کا کم جھٹکا لگے گا۔مشیر برائے پارلیمانی امور اور وزارت خزانہ کو الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی خریداری کے حوالے سے فنڈ کا بندو بست کرکے 6ماہ کے اندر ووٹنگ مشینز خریدنے کی ہدایت بھی جاری کردی گئی ہے۔وزیراعظم کی ہدایت پر وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کیلئے کنسلٹنٹ کی خدمات حاصل کر لی ہیں جو ای ووٹنگ سسٹم کی سیکیورٹی،ڈیزائن اور دیگرامور پر حتمی سفارشات ایک ماہ کے اندرپیش کرے گا۔اس مشق پر 28کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔وزیراعظم کی ہدایت پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کو سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق استعمال کرنے کے اختیارات دینے کیلئے الیکشن ایکٹ2017کے سیکشن 94میں ترمیم کیلئے آرڈیننس نافذ کیا جائے گا۔وفاقی کابینہ سے آرڈیننس کے اجراء کی منظوری حاصل کرلی گئی ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کے نفاذ کیلئے بھی آرڈیننس جاری کیاجائے گا۔ الیکشن کمیشن کے اختیارات میں اضافے کیلئے الیکشن ایکٹ2017ء کے سیکشن103میں ترمیم کی جائے گی۔الیکشن کمیشن کی جانب سے ضمنی انتخابات میں جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے پائلٹ پراجیکٹ کا آغازکیا جائے گا۔کابینہ اجلاس کے دوران کچھ ارکان کی جانب سے الیکٹرانک ووٹنگ کی سکیورٹی کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ارکان کی جانب سے موقف اختیا ر کیا گیا کہ سکیورٹی خطرات کے پیش نظرالیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کو ہیک کیا جا سکتا ہے۔اگرچہ ان خطرات کاتدارک اب کنسلٹنٹ کرے گا مگر سوفیصد حفاظت کی ضمانت کون دے گا؟وفاقی کابینہ کی جانب سے وزیر سائنس و ٹیکنالوجی،وزیر ریلوے،مشیر برائے پارلیمانی امور کو الیکشن کمیشن کی مشاورت سے 30دن کے اندر الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی قسم کو حتمی شکل دینے کی ہدایت جاری کردی گئی ہے۔ پارلیمانی امور ڈویژن کی جانب سے پارلیمنٹ میں پیش کی گئی رپورٹ پر آئندہ کے لائحہ عمل کے حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو خط تحریر کیا گیا، جس کے جواب میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے موقف اختیار کیا گیاکہ انٹرنیٹ کے ذریعے ووٹنگ کے حوالے سے الیکشن کمیشن کا مینڈیٹ محدود ہے۔ ۔قومی اسمبلی میں پائلٹ پراجیکٹ رپورٹ 15جنوری2018جبکہ سینیٹ میں 25جنوری2018کوپیش کی گئی جس پر تاحال بحث نہیں کی جا سکی۔کامسیٹس،این آئی ای اور الیکشن کمیشن کی جانب سے ڈی آر ای ٹیکنالوجی پر مبنی مقامی طور پر تیار کردہ الیکٹرانگ ووٹنگ مشین کا ڈیمو 21مارچ2021ء کوصدر پاکستان کے سامنے پیش کیا گیا۔ سپریم کورٹ کی جانب سے17اگست2018ء کو سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کے حق کے حوالے سے کیس کے حکم نامے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو 35حلقوں کے ضمنی انتخابات کیلئے آئی ووٹنگ کے پائلٹ پراجیکٹ کے انعقاد کی ہدایت کی گئی مگر یہ پائلٹ پراجیکٹ آج تک شروع نہیں کیا جاسکا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ڈیجیٹل انتخابات کے انعقاد کیلئے کیا اپوزیشن کے ساتھ اتفاق رائے قائم کئے بغیر یہ سب کچھ ممکن ہوسکے گا۔کیا آرڈیننس کے ذریعے الیکٹرانک ووٹنگ کا سسٹم جبری طور پر مسلط کیا جاسکتا ہے۔ ہرگز نہیں ۔یہ سب کچھ آرڈیننس فیکٹری کے ذریعے سے ممکن نہیں ہوگا۔امریکی ریاست کیلفورنیا میں 1965ء میں پہلی مرتبہ الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کا تجربہ کیا گیا مگر آج بھی یورپ اور افریقہ سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں اس سسٹم کے محفوظ ہونے پر کئی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم شفاف انتخابات کیلئے یقینا ناگزیر ہے مگر یہ سسٹم تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت اور تجرباتی مراحل کے بغیر لاگو کرنا کسی صورت ممکن نہیں ہوگا۔اپوزیشن نے الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کو دھاندلی کا نیامنصوبہ قرار دیدیا ہے تو وزراء اربوں روپے کی مشینیں خریدنے کیلئے انتہائی بیتاب ہیں۔