ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اسلام آباد میں ایک رات گزارنے کے بعد جاتے ہوئے پاکستان میں شاید مدینہ کی اس ریاست کی بنیاد رکھ گئے ہیں، جس کی نوید وزیراعظم عمران خان ہمیں ایک عرصہ سے سنا رہے تھے،یہ شہزادے کا کوئی عام یا اچانک دورہ نہ تھا، چونکہ نیو ورلڈ آرڈر میں یہی لکھا تھا، سو وہی ہوا، اب ہم بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ ایک نیا پاکستان معرض وجود میں آ چکا ہے جو اس پاکستان سے قطعی مختلف ہے جو ہمیں قائد اعظم تھما گئے تھے، ثبوت اس کا یہ ہے کہ شہزادے کے اعزاز میں ایوان صدر میں ہونے والی شایان شان تقریب میں دیوار پر ایک جانب ولی عہد اور ان کے پدر شاہ سلمان کی تصاویر تھیں اور دوسری طرف عمران خان اور ان کے صدر عارف علوی مسکراتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے، صدر عارف علوی کی عارضی مسکراہٹ اس وقت رفوچکر ہو گئی جب انہوں نے مہمان شہزادہ ذی وقار کی خدمت میں کرسی پر بیٹھے ہوئے ہی سپاس نامہ پڑھنے کی جسارت کی، دوسری جانب مہمان شہزادے کے پہلو میں بیٹھے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے صدر پاکستان سے کھڑے ہو کر سپاس نامہ مکمل کرنے کی درخواست کی۔ اس کے بعد یہ سوال بھی شدت پکڑ جاتا کہ شہزادے کے دورے میں اپوزیشن کو مدعو کیوں نہ کیا گیا، اور اگر اپوزیشن وہاں آجاتی تو پھر نیا پاکستان کس طرح وجود میں آتا؟ ایک جماعتی نظام کی تقریب رونمائی میں کسی ایسے کام اورایسے اقدام کی ضرورت ہی نہ تھی جس سے نئی دنیا میں پاکستان کا پرانا چہرہ دکھائی دیتا۔ دنیا بھر کو بتایا جا رہا ہے کہ پاکستان میں پہلی بار ایک ایسی قابل قبول حکومت بنی ہے جو پاکستانی اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کیلئے پوری طرح قابل قبول ہے اور اداروں کے مابین مکمل ہم آہنگی ہے، ایک ایسی ہم آہنگی جس کے ٹوٹنے کا بھی کوئی احتمال نہیں ہے۔زندہ باد عمران خان، پائندہ باد پاکستان تحریک انصاف۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دورے کے اختتام پر سعودی عرب اور پاکستان کی حکومتوں کی جانب سے جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا، وہ بھی اپنی مثال آپ رہا، بیان مشترکہ تھا اور بیانیہ علیحدہ علیحدہ، خاص طور پر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے حوالے سے، پاکستان نے اپنے حصے کی کھل کر مذمت کی اور مشترکہ طور پر کہا گیا کہ دنیا بھر میں جہاں جہاں مسلمانوں پر ظلم ہو رہے ہیں ہم ان کی مذمت کرتے ہیں، دوسری طرف بھارت کو پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ میں جتنی ہزیمت اس بار اٹھانا پڑی ہے اس کی نظیر ماضی میں کہیں نہیں ملتی، بھارت نے ولی عہد سعودی عرب کے دورہ پاکستان کے دوران ضلع پلوامہ میں دہشت گردی کا جو ڈرامہ رچایا وہ پوری طرح فلاپ رہا، ولی عہد محمد بن سلمان کے کان بھرے گئے انہوں نے بھارتی اصرار کے باوجود اس نام نہاد اور خود ساختہ دہشت گردی کی مذمت نہ کی، ان کی طرف سے ہندوستان کو بھی پاکستان سے اچھی ہمسائیگی قائم کرنے کا ہی مشورہ دیا گیا، شہزادہ تو شہزادہ یہاں امریکہ نے بھی کان بند کر لئے اور بھارت کو جواب دیا گیا کہ وہ صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ پچھلے دو عشروں سے بھی پہلے ایک امریکی معاشی نجومی نے یہ پیشگوئی کر رکھی تھی کہ پاکستان سن دو ہزار بیس تک دنیا کی بڑی معیشتوں میں شامل ہوجائیگا،ولی عہد نے پاکستان میں اپنے خطاب میں اس پیشگوئی کو سچ ثابت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد اگلے سال بیس عالمی معیشتوں کے درمیان ہوگا اور سن دو ہزار تیس میں پاکستان چین اور بھارت کے ساتھ علاقے کی تیسری بڑی معیشت بن جائیگا۔ امریکی نجومی کی پیشگوئی میں نے کئی برسوں سے پلے باندھ رکھی تھی لیکن سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ایسا ہوگا کیسے؟ اب سمجھ میں آئی ہے یہ بات کہ معاشی پیش بندیاں بھی نیو ورلڈ آرڈر کا ہی حصہ ہوتی ہیں، ڈر لگتا ہے، خدشات لاحق ہیں کہ کہیں ہم اپنا عظیم الشان ماضی گنوا کر تو نئی اڑانوں پر نہیں چلے جائیں گے ؟ کچھ پانے کیلئے بہت کچھ کھونا تو نہیں پڑے گا؟ پھر حوصلہ ہوتا ہے کہ نہیں، کیونکہ ہمارے پاس تو اب کھونے کیلئے کچھ بھی نہیں ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ چین نے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کے غیر معمولی فروغ کا خیر مقدم کیا ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کہانی کا مرکزی کردار امریکہ ہی ہے۔ اسی لئے تو سعودی شہزادے نے بھی شاعری کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اکیس ارب ڈالرز کی یہ سرمایہ کاری توکچھ بھی نہیں ہے، دنیا آگے آگے دیکھے گی کہ ہوتا کیا ہے؟ سی پیک منصوبے کے باعث پاکستان علاقے ہی نہیں عالمی سطح پر اہم ہو چکا ہے، شہزادے نے سعودیہ میں قید اکیس سو سے زیادہ پاکستانیوں کی رہائی کا حکم دیا ہے ابھی تین ہزار کے قریب اور پاکستانی بھی سعودی جیلوں میں بند ہیں، یہ تمام پاکستانی روٹی روزی کی تلاش میں وہاں گئے تھے اور قید ہو گئے اب پاکستان میں معیشت کا دروازہ کھلا ہے تو سب سے پہلے ان قیدیوں کو اس دروازے سے گزارا جانا چاہئے۔ ٭٭٭٭٭ سعودی عرب بھی سالہا سال تک پاکستان کی طرح عالمی دہشت گردی کی زد میں رہا ہے، وہ 2012ء میں جدال نامی ایک دہشت گرد کو بھی بھارت کے مطالبے پر بھارت کے حوالے کر چکا ہے، پاکستان کی مسلح افواج اور دوسرے سکیورٹی اداروں نے بھی اس عالمی عفریت میں بہت جانیں گنوائی ہیں، اب عالمی برادری کو بھارت کو بھی حقائق کی دنیا میں لانا ہوگا، بھارت میں دہشت گردی کسی طور بھی پاکستان کے مفاد میں نہیں ہو سکتی، بھارت نے یہ ادراک نہ کیا تو دہشت گرد پھن پھیلائے سروں پر کھڑے رہیں گے۔ پاکستان کو دنیا میں تنہا کرنے کا آرزومند بھارت کہیں خود نہ دنیا میں تنہا رہ جائے، پاکستان کو بھارت میں امن گوارا ہے بد امنی نہیں۔ ٭٭٭٭٭ اس بدلتی ہوئی دنیا اور اس بدلتے ہوئے پاکستان میں آج پاکستان کی سیاسی پارٹیاں کہاں کھڑی ہیں؟ میں نے آج نوجوان لیڈر بلاول بھٹو کو پہلا کلمہ پڑھ کر یہ کہتے ہوئے سنا کہ انہوں نے آج تک کوئی کرپشن نہیں کی۔۔ موجودہ وزیر اعظم جناب عمران خان کو اس اسٹیج تک نہیں لے جانا چاہئیے تھا، ہاں! میں سمجھتا ہوں کہ اس کے ذمہ دار عمران خان ہی ہیں جنہوں نے دنیا کے ہر ملک میں جا کر یہ نعرہ بلند کیا ہے کہ پاکستان میں تمام اپوزیشن پارٹیوں اور تمام اپوزیشن لیڈر کرپٹ ہیں، دنیا کی کسی بھی منڈی میں گدھے اور شیر ایک بھاؤ نہیں بکتے، آج جس عظیم مملکت کے وہ وزیر اعظم ہیں اسے اس مقام تک پہنچانے میں اس ملک کے سیاستدانوں نے اپنا خون بھی دیا ہے، اگر پاکستان میں سارے حکمران چور اور لٹیرے ہی ہوتے تو ہم آج باوقار طور پر گردن تانے کھڑے نہ ہوتے، حکومت اور اپوزیشن ایک گاڑی کے دو پہیے ہوتے ہیں وہ کوئی جمہوری ملک ہو یا غیر جمہوری اور چاہے کہیں بادشاہت اور آمریت ہی کیوں نہ ہو،،،، ہمارے تمام سیاستدانوں کو ایک دوسرے کیلئے باوقار اور با اخلاق بننا ہوگا، ہم اب تک کسی بھی منزل تک نہیں پہنچے، ابھی تو پہلی سیڑھی ہے اور پہلا ہی قدم ہے، سیاست سانپ اور سیڑھی کا کھیل ہے، کون نہ جانے کل کہاں کھڑا ہو، نواز شریف صاحب بوریا بستر باندھ چکے، مگر شہباز شریف کو بد ترین حالات میں بھی اسی ملک میں رہنا ہے اور رہی بات باقی سارے سیاستدانوں کی تو جناب! ملک چھوڑ کر وہ بھی کہیں نہیں جا رہے۔ ٭٭٭٭٭